تعلیمی نظام و نصاب کی تبدیلی ناگزیر ہے۔

تعلیمی نظام و نصاب خرابیاں اور حل
سرکاری سکولوں کی حالت زار کی رپورٹس آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کہیں اساتذہ غیر حاضر ہیں،کہیں عمارت خستہ حال ہے،کہیں بچے کھلے آسمان تلے زیر تعلیم ہیں۔ تو کہیں مقامی وڈیرا حصول تعلیم کے راستے میں ہمالیہ پہاڑ بن کر کھڑا ہے۔البتہ یہ بات توعام فہم ہے کہ تعلیم سے محروم معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔جوقوم تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں کو مات دے دیتی ہے وہ ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر بھی سب سے آگے سفر کرتی ہے۔تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھ لیجیے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کیا کردارادا کرتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب نہ تو قومی امنگوں کا ترجمان ہے اور نہ ہی اسلامی اقدار کا عکاس ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نصاب کی موجودگی میں اچھے طالب علم کی دریافت خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہے۔طالب علموں کو انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کے چکر میں ڈال کر ان کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے نہیں دیا جاتا بلکہ یوں کہیے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے آگے بند باندھ دیا جاتا ہے۔اس طرح آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق بچہ نہ اچھی انگریزی سیکھ پاتا ہے نہ بہتراردو کا استعمال کرنے کے قابل رہتا ہے۔اور سب سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کی عملی میدان سے چنداں مطابقت نہیں۔ایک طالب علم جو یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری لے کر نکلتا ہے اسے ایک چھوٹا سا مضمون لکھنے کی قدرت حاصل نہیں ہوتی اور یہی طالب علم جب ڈگری کے بل بوتے پر استاد کے درجہ پر فائز ہوتا ہے تو نوجوان نسل کو مناسب رہنمائی فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔اور صاحب بصیرت لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ استاد فرد ہی نہیں قوم کی بھی تقدیر بدل دیتا ہے۔

پاکستانی قوم ٹیلنٹ کے اعتبار سے دنیا بھر میں معروف ہے لیکن بد قسمتی سے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی جامع منصوبہ بندی کا فقدان ہےاور یہی وجہ ہے کہ اب تک ہنر مند افراد کی تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔انگریز سے مستعار لیا ہوا تعلیمی نظام مقتدر طبقہ کو ہمیشہ طاقت ور اور محکوم طبقہ کو ہمیشہ کمزور رکھنے کا ذمہ دار ہے۔جتنی جلدی ممکن ہو اس نظام سے چھٹکارہ حاصل کر لینا چاہیے لیکن مراعات یافتہ طبقہ جو سر سے پاوں تک دولت و اقتدار کی ہوس کا شکارہے اس ںظام کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہےکیونکہ اس کے خاتمے سے ان کی اجارہ داری کو یقینی طور پر خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور اگر تذکرہ کریں اس شعبے سے حکمرانوں کی دلچسپی کا،تو آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ جن حکومتوں کا تعلیمی بجٹ ، کل بجٹ کے تین فیصد کے ارد گرد گھومتا رہا ہو اس سےحکمرانوں کی تعلیم دوستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاریخ کے ورق الٹنے سے معلوم ہوتا ہے مسلمان جب تک تعلیم دوست رہے،۔تحقیق و جستجو کے ذوق سے ہم آہنگ رہے تو انہوں نےسائنس،زراعت،طب،ارضیات کے میدان میں ایجادات کے ریکارڈ قائم کر دئیے جو مسلمانوں کی سرفرازی و سربلندی کا باعث بنے اور پھر جونہی مسلمانوں کے تعلیمی و تحقیقی میدان میں پاوں اکھڑے تو اسے دوسری قوموں کا محتاج ہوتے اک جہاں نے دیکھا۔

ان چشم کشا حقائق کی موجودگی میں حکومت کا فرض ہے کہ پرائیویٹ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اجارہ داری ختم کر کے یکساں نصاب تعلیم کے فارمولے پر سختی سے عمل درآمد کرائے اور اس ضمن میں اگر کوئی قانونی پیچیدگی حائل ہے تو اسے بھی دور کرے۔تعلیمی ماہرین اور دینی سکالرز کی زیر نگرانی تعلیمی نصاب کو از سر نو ترتیب دیا جائے جو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کی ثقافتی اقدار کا آئینہ دار ہواور اس نصاب میں قومی زبان اردو کی اہمیت و حیثیت کوبھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
 
عبدالرزاق چودھری
About the Author: عبدالرزاق چودھری Read More Articles by عبدالرزاق چودھری: 96 Articles with 66578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.