جانور انسانی حسن سلوک کے مستحق

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(4اکتوبر،جانوروں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

جانورایک ذی روح مخلوق ہے جسے اﷲتعالی نے انسان کی خدمت کے لیے پیداکیاہے۔جانوروں کی تخلیق کو اﷲ تعالی نے اپنی توحید کی نشانیاں بھی قرار دیاہے۔اﷲتعالی نے اونٹ کی تخلیق کو انسانوں کے سامنے پیش کر کے پوچھاہے کہ کیاتم اس جانور کی تخلیق پر غوروفکرنہیں کرتے ہو؟؟قرآن مجید گھوڑوں کی وفاداری پر قسم کھائی گئی ہے کہ وہ تو اپنے مالک کی خاطر بڑے سے بڑے خطروں میں کود پڑتاہے لیکن انسان اپنے رب کا بڑاہی ناشکراہے۔اصحاب کھف کے ساتھ قرآن مجید نے ایک کتے کا بھی ذکر کیاہے جو ان صاحب ایمان نوجوانوں کے ہمراہ اس بستی سے ہجرت کرگیاتھا،بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ کتابھی صالح لوگوں کی دوستی کے باعث انسان بناکر جنت میں داخل کیاجائے گاواﷲاعلم بالصواب۔قرآن مجید نے شہد کی مکھی کو بھی توحید کی ایک نشانی کے طورپر پیش کیاہے جواﷲتعالی کے حکم سے پھولوں میں سے رس چوس کر اس سے شہد بناتی ہے،جس سورۃ میں شہد کی مکھی کا ذکرہے اس کانام ہی ’’سورہ نحل‘‘ہے جب کہ ’’نحل‘‘کامطلب شہد کی مکھی ہے۔اسی طرح ’’العنکبوت‘‘کامطلب مکڑی ہے،اس نام کی سورۃ میں اﷲ نے فرمایا کہ کافروں کی چالیں مکڑی کے جالوں جیسی کمزور ہیں۔قرآن مجید نے پرندوں کے بارے میں فرمایا کہ اﷲتعالی نے انہیں نماز سکھائی ہے چنانچہ تمام پرندے اﷲتعالی کے سامنے اپنی نماز کی ادائگی کے لیے جھکتے ہیں۔بقرہ کامطلب ’’گائے‘‘ہے،قرآن مجید میں اس نام کی طویل ترین سورۃ میں ذبح بقرکاواقعہ بیان فرمایاہے جسے پڑھنا بہت دلچسپی کاباعث بھی ہے۔فیل ہاتھی کو کہتے ہیں چنانچہ ’’سورۃ فیل‘‘میں اﷲ تعالی نے ہاتھیوں پرلدی ہوئی کی اس عظیم الشان فوج کا ذکرکیاہے جومرکزتوحیدخانہ کعبہ کو ڈھانے آئی تھی لیکن ابابیل نامی پرندوں کے پنجوں اور چونچوں میں لائی ہوئی کنکریوں کے باعث تباہ و برباد ہوکرایسے ہوگئی جیسے کھایا ہوابھس،چنانچہ آج بھی جو فوجیں فرزندان توحیدکو تسخیرکرنے کی خواہاں ہیں ان کا یہی انجام قریب ہے۔ قرآن مجید جیسی آسمانی کتاب میں جانوروں کے نام کی سورۃ’’سورۃ الانعام‘‘موجود ہے،’’انعام‘‘کامطلب ’’چوپائے‘‘ہے۔اس سورۃ میں اﷲتعالی نے جانوروں کے بارے میں شکارسمیت جملہ مسائل سے مسلمانوں کو آگاہ کیاہے۔دوزخ میں بھی کئی ایسے جانورہوں گے جودوزخیوں کے عذاب میں اضافے کاباعث بنیں گے۔

متعددجانور تو انبیاء علیھم السلام کے معجزوں کے طورپر بھی قوموں کے سامنے پیش کیے گئے۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے درمیان نزاع ہوئی تو ایک بیٹے نے اپنا غلہ بطورصدقہ پیش کیااور دوسرے بیٹے نے اپنے جانور ذبح کر کے بطورصدقہ پیش کیے۔جانوروالے بیٹے کی قربانی قبول ہو گئی۔بھائی کوقتل کرنے کے بعد جب قابیل اپنے مقتول بھائی کی لاش کے بارے میں پریشان تھاتوایک کوے کو دیکھ کر اس نے بھی اپنے بھائی کو زمین میں دفنانے کی سبیل کی۔حضرت نوح علیہ السلام نے جب کشتی میں پناہ لی تو تمام جانوروں کاایک ایک جوڑا اپنے ہم رکاب بھرلیا،سانپ نے حضرت نوح علیہ السلام سے شکایت کی اسے جگہ کیوں نہ دی گئی تو نبی علیہ السلام نے اس سے نقصان کااندیشہ ظاہر کیا جس پر سانپ نے ایک دعا بتائی جس کے پڑھ لینے سے انسان سانپ کے خطرے سے محفوظ ہوجاتاہے تب حضرت نوح علیہ السلام نے سانپ کابھی ایک جوڑا کشتی میں رکھ لیا۔حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے جب معجزے کا مطالبہ کیاتو ان کے دیکھتے ہی دیکھتے سامنے کی پہاڑیوں سے ایک اونٹنی نکل کرقوم کے سامنے آن موجود ہوئی۔کئی دنوں تک وہ قوم اس اونٹنی سے خوفزدہ رہی لیکن پھرایک شریرآدمی نے اس کے پاؤں کاٹ دیے اور وہ اونٹنی چلاتی ہوئی اپنے بچے سمیت اسی طرح اس پہاڑی میں گم ہوگئی جس طرح ہویداہوئی تھی۔اور پھراس قوم کو عذاب الہی نے جکڑلیا۔حضرت یونس علیہ السلام جب اذن الہی کے بغیراپنی بستی سے ہجرت کر گئے ایک آبی جانور مچھلی نے آپ کو اپنے پیٹ میں بپاہ دی۔حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہے لیکن اﷲتعالی کے حکم سے زندہ سلامت باہر نکل آئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲتعالی سے کہا کہ مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا،اﷲتعالی نے پوچھا مانتا نہیں ہے؟؟عرض کی کہ مانتاتوہوں لیکن دل کی تسلی چاہیے۔حکم ہوا کہ چار پرندے لے لو،انہیں سدھاؤ،پھرذبح کر کے سامنے کی پہاڑیوں پر رکھ آؤاور اب انہیں بلاؤ تووہ اڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچ گئے۔اس طرح جانوروں کی حیات بعد موت سے اﷲتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معاد کی حقیقت سمجھادی۔اسی طرح جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگرحضرت اسمئیل علیہ السلام کو ذبح کرناچاہا تو اﷲتعالی نے جنت سے ایک مینڈھا بھیجا ،جسے حضرت اسمئیل کی جگہ ذبح کردیاگیا۔حضرت موسی علیہ السلام نے بھی دس سالوں تک حضرت شعیب علیہ السلام کی بھیڑیں چرائیں اور جب کنعان سے واپس مصرتشریف لے جارہے تھے تب بھی کچھ بھیڑیں ان کے ساتھ تھیں۔بنی اسرائیل نے ایک ،جانور،بچھڑے کواپنا معبود بنالیاتھا جو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے درمیان تلخی کاباعث بھی بنا۔انبیاء علیھم السلام کے ساتھ جانوروں کے ذکرمیں حضرت سلیمان علیہ السلام توگویا مرکزی کردارکے حامل نبی ہیں جنہیں معجزے کے طورپرجانوروں کی زبانیں سکھادی گئی تھیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام کالشکر دیکھ کر ایک چیونٹی نے صدالگائی کی سب اپنی اپنی بلوں میں گھس جاؤ وہ دیکھو حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر آرہا ہے مباداکچلی جاؤ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ آواز سن بھی لی اور سمجھ بھی لی،چنانچہ چیونٹی کو عربی میں ’’نمل‘‘کہتے ہیں اور یہ واقعہ جس سورۃ میں وارد ہواہے اس کا نام بھی ’’سورہ نمل‘‘ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں تمام جانور اور پرندے شامل ہوا کرتے تھے چنانچہ ایک ’’ہدہد‘‘نامی پرندے نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو قوم سبا کی خبر دی تھی۔سری مہاتما بدھ کی شریعت میں کسی جانور کو ذبح کرکے کھانا منع تھااس لیے ہندوملت کی اکثریت ذبیحے سے اجتناب کرتی ہے۔

محسن انسانیت ﷺنے اوائل عمری میں بھیڑیں چرائیں،آپﷺ کی اونٹنی ’’قصوی‘‘سفرہجرت میں ساتھ رہی اورآپﷺاسی اونٹنی پر ہی سوار ہوکرجنت میں داخل ہوں گے اورتب اس اونٹنی کی نکیل حضرت بلال ؓنے تھامی ہو گی۔آپﷺ کو بلی پسند تھی چنانچہ جب کبھی بلی کی حرکتیں ناگوارخاطر ہوتیں تو روئی کا گولا مار کر اپنا غصہ اتارلیتے تھے۔بکری کی اگلی ٹانگ کا گوشت کھانے میں بے حد پسند تھا،’’گوہ‘‘ایک حلال جانور ہے جوچوہے سے بڑااورخرگوش سے چھوٹاہوتاہے ،طبیعت نبویﷺاس جانور کے تناول سے گریزاں ہی رہی۔مدینہ طیبہ میں ایک خچربھی سواری نبویﷺکے لیے حاضرباش رہتاتھا،دورکاسفراونٹنی پر اور قریب کے سفرکے لیے خچرکو پسند فرماتے تھے۔جانوروں کو قید کرناسخت ناپسندخاطر تھا،ایک بار جال میں پھنسی ہرنی کی جگہ خود تشریف فرماہوئے اور جب تھوڑی دیربعدوہ اپنے دوبچوں سمیت حاضرخدمت اقدس ﷺہوئی توشکاری مسلمان ہوگیا۔ایک مسلمان کے سرپر پرندے حول کیے ہوئے تھے،اس نے ان پرندوں کے بچے اٹھائے تھے،حکم دیا کہ انہیں چھوڑ آؤ۔سفرمعراج میں براق نامی جانورکوآپﷺکی سواری کاشرف حاصل ہوا۔حجۃ الوداع کے موقع پر تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبار ک سے ذبح فرمائے اور دیکھنے والے بیان کرتے ہیں اونٹ خود آگے بڑھتے تھے کہ دست نبویﷺسے ذبح کی سعادت حاصل کریں۔یوم نحرکے دن کھانے کاآغاز ذبیحے کی پکی ہوئی بوٹی سے کرتے تھے۔آپﷺ نے حکم دیاہے کہ اپنی چھری کو تیزرکھوتاکہ ذبح ہوتے ہوئے جانورکو ذبیحے میں آسودگی حاصل ہو۔ایک بار ایک اونٹ نے گردن لمبی کرکے اپناسرقدمین شریفین پررکھااور اپنی زبان میں ڈکارا،تب آپ نے مالک سے کہا کہ یہ اونٹ شکایت کرتاہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہواورکھانے کوکم دیتے ہو۔

آسمانی کتابوں اور انبیاء علیھم السلام نے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک میں دامن انسانیت ہاتھ سے نہ جانے دیاجب کہ آج کے سیکولرازم نے انسانوں کو بھی جانور سمجھ رکھاہے بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔جانوروں کے ساتھ انسانیت والا سلوک روا رکھنے کے لیے انسانیت کا ہونا ضروری ہے جبکہ سیکولرازم کا دامن انسانیت سے کلیۃََ خالی ہے۔وہ بڑے بڑے مایہ ناز دانشورجن کے افکارپرسیکولرازم کی عمارت بنیادکرتی ہے انہوں نے انسانوں کو انسانیت کے درجے سے گراکر جانوربنانے کی حتی المقدورکوشش کی ہے۔مثلاََ مالتھس کہتاہے کہ انسان معاشی جانور ہے،فرائڈکہتاہے کہ انسان جنسی جانور ہے،برٹرنڈرسل کہتاہے کہ انسان معاشرتی جانور ہے اور ڈارون تو اس حد تک گرگیاکہ انسانوں کو جانوروں کی ہی نسل قراردے دیا۔یہ سیکولردانشورکہ جن کی فکرجانورہونے سے آگے نہیں بڑھ سکی، وہ اورانکے پیروکار انسانیت کاکیادرس کسی کو دے سکیں گے؟؟خاص طورپر اس سیکولرازم نے توانسانیت کو جنم دینے والی عورت کوجانوروں سے بھی بدترین حالات کاشکارکرکے اس کے دامن سے نسوانیت کو ہی نوچ لیاہے۔انسانوں کو جانوروں کے حقوق سکھانے والے سال بھرمیں جانوروں کا ایک دن مناکر انسانوں کو جانوروں کے کیاحقوق سکھائیں گے جن کاماضی اورحال انسانوں کے خون سے آلودہ و رنگین ہے۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.