پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد سے شہرت پانے
والی سماجی کارکن اور مصنفہ ڈاکٹر فوزیہ سعید عملی زندگی میں بھی ایک بہادر
خاتون ہیں ۔خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کے دوران اپنی ذاتی زندگی کو
درپیش واقعات کو فوزیہ نے Working with Sharks کا نام دیا ہے ،ان کی یہ
کتاب اردو میں 'بھیڑ کی کھال' کے عنوان سے جدوجہد کی پر اثر کہانی بیان کر
تی ہے ،ڈاکٹر فوزیہ سعید حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہیں اب وہ بطور
ایگزیکٹو ڈائریکٹر لوک روثہ ثقافت کے حوالے سے دنیا کے سامنے پاکستان کا
بہتر تاثر اجاگرنے کی جدوجہد میں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ فوزیہ کے خیال
میںپاکستان بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا یہ چار ممالک مغربی دنیا کے لیے
رول ماڈل ہوسکتے ہیں ۔پاکستان بھارت ، اور بنگلہ دیش میں بااختیار خواتین
وزیر اعظم بنیں جبکہ سری لنکا میں ایک خاتون چندیکا کماراٹنگا صدارت کے
منصب پر بھی فائز رہی۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو، بھارت میں اندرا گاندھی
طاقتور سیاسی رہنماء اور وزیر اعظم ر ہیں۔ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء کے بعد
اب شیخ حسینہ وزیر اعظم ہیں۔یہ رائے درست ہوسکتی ہے کہ خواتین کو با اختیار
بنانے کی ایسی مثالیں مغربی دنیا میں کم ہی ملتی ہیں۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر
فوزیہ سعید کو اتفاق نہ ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں خواتین کو با
اختیار بنانے کی سمت عملی قدم سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں
اٹھایا گیا۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی سترہ فیصد نمائندگی کے قانون کا فائدہ
آج سیاسی قائدین اپنی بہو ،بیٹیوں کو پارلیمنٹ بھیج کر اٹھا رہے ہیں۔ دوسرے
معنوں میں وہ مشرف باقیات سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف چاہتے
تو اپنی بیٹی کو بھی کوئی منصب دے سکتے تھے اسے اسمبلی میں بھیج سکتے تھے
تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا ان کے اس فیصلے سے لگتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں
میں میرٹ پر خواتین کی ترقی چاہتے تھے ۔سابق جنرل (ر) پرویز مشرف کا دس
سالوں پر محیط دور اقتدار احتجاجی نعروں ،مطالبوں اورمخالفانہ مظاہروں اور
تنازعات سے بھر پور رہاہے ۔مشرف کے ناقدین جمہوری اداروں کی پامالی، عدلیہ
کی معزولی،ایمرجنسی کے نفاذ، بلوچستان پر فوج کشی، لال مسجد آپریشن اور
امریکہ کی حد سے زیادہ تابعداری پر انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تاہم سچ تو
یہ ہے کہ ان دس سالوں میں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے ، ٹیلی کام انڈسٹری ،
الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری اور اعلی تعلیم کی ترقی کیساتھ ساتھ صنفی امتیاز
کے خاتمے کی طرف قدم ، خواتین کو حقوق د ینے قومی تر قی کے لیے ان کی
صلاحیتوں کو ابھارنے کیلئے بے پناہ اقدامات ہوے ۔ یہ جنرل مشرف ہی تھے جن
کے دور میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے17فیصد
نشستیں مختص ہوئیں ۔ خواتین کودونوں ایوان میں نمائندگی دی گئی ان کیلئے
خصوصی نشستوں کا اضافہ کیا گیاخواتین کے لیے کاروباری قرضوں کا اجراہوا ۔ان
کے لیے تعلیم کے دروازے کھولے گئے ۔خواتین کے خلاف جرگوں اور تشدد کیخلاف
قانون سازی ہوئی جبکہ خواتین کو ہراساں کرنے کے عمل کو قابل سزا بنایا گیا
اور خواتین کو قانونی طور پر با اختیار خودمختار خوشحال اور محفوظ بنانے
کیلئے اہم ا قدامات کئے گئے۔یہی وہ دور تھا جب ہر شعبے میں خواتین کیلئے
دروازے کھلے انہیں آگے بڑھ کر قومی ترقی کی رفتار کو تیزکرنے میں اپنا فعال
و ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا مو قع ملا۔ یہ درست ہے کہ جنرل پر ویز مشر
ف کی پالیساں جمہوریت ، عدلیہ کی آزادی کے لیے نامناسب تھیں تاہم وہ محروم
طبقات کے نجات دہندہ تھے۔ان کے مفید و تاریخ ساز عوامی و قومی اقدامات اور
ان کے دور میں کیے گئے اقدامات اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرف ہی محروم طبقات
کے نجات دہندہ تھے۔ سابق صدر پر ویز مشرف نے اپنے انداز حکمرانی میں عدل و
مساوات کو ملحوظ رکھتے ہوئے تھے جہاں امیر و غریب کا فرق مٹانے کی کوشش کی
گئی وہیں صنفی امتیازکی نفی کر کے خواتین کو حقوق دیئے اور ان کی صلاحیتوں
کو قومی ترقی کیلئے استعمال کیا گیاکیونکہ خواتین کو محفوظ و خوشحال بنائے
بغیر نہ تو ہم تہذیب و تمدن یافتہ کہلائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی قومی و
معاشرتی ترقی ممکن ہے کیونکہ پاکستان میں خواتین کا تناسب 52فیصد سے بھی
زائد ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کے جاگیردارانہ معاشرے میں 52
فیصد آبادی محض کیڑے مکوڑوں کی طرح کی چیز سمجھی جاتی ہے عورتوں کے کوئی
حقوق نہیں ہوتے، جاگیرداری نظام میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عورتوں
کو علم کی روشنی سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ ساری زندگی دوسروں کی کے
دست نگر بنی رہیں۔اس جاگیر دارانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ اب بھی خواتین کی
قران سے شادی ہوتی ہے۔ اس انتہا ء پسندانہ سوچ کی سب سے زیادہ زد خواتین پر
پڑتی ہے۔پاکستان کی اس 52فیصد آبادی کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی میں سترہ
فیصد نمائندگی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تو نہیں تاہم مساوات مرد وزن
کی طرف ایک قدم ضرور ہے ۔ جنرل مشر ف نے اپنے حصے کا کام کر دیا تاہم سوال
اب بھی مو جود ہے کہ کیا خواتین کو ملک کی تعمیروترقی میں فعال کردارادا
کرنے کے وہ بھرپور مواقع میسر آسکے جن کی یقین دہانی انہیں بابائے قوم حضرت
قائداعظم محمد علی جناح نے کروائی تھی؟ مشاہدے کی بات ہے جنرل مشرف نے
خواتین کو پارلیمنٹ میں 17فیصد نمائندگی اس لیے نہیں دلوائی کہ ان کی اپنی
رشتہ دار خواتین پارلیمنٹ آسکیں بلکہ وہ حقیقی معنوں میں مساوات مرد وزن کے
قائل تھے ۔ فیصلہ سازی کے لیے پاکستانی خواتین کی جدو جہد طویل ہے۔ اس
جدوجہد پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1948ء سے 2001ء تک خواتین کے لیے جو
کچھ نہ ہو سکا وہ مشرف کے دس سالہ دور اقتدار میں ہوا۔۔پہلی دفعہ 2001ء میں
صدر پرویز مشرف نے خواتین کو قائداعظم کے فرمان کے مطابق فیصلہ سازی میں
شریک کرنے کیلئے ضلعی حکومت میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی دی۔مشرف کے بعد
اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کی بساط ہی لپیٹ رکھی ہے۔ آج
بھی نواز شر یف ، زرداری کی حکومتیں سپریم کورٹ سے بلدیاتی انتخابات کے
حوالے سے کھیل کھیل رہی ہیں جبکہ مشرف نے ضلعی حکومتوں کا شاندار نظام دیا
تھا ۔ انہی کے دور میں خواتین کو سیاسی طورپر با اختیار بنانے کے ساتھ ساتھ
انہیں معاشی لحاظ سے با اختیار بنانے کے عمل کا بھی آغازہوا سرکاری اداروں
میں خواتین کیلئے ملازمتوں کا 10فیصد کوٹہ مخصوص کیاگیا۔گھریلو مزدور
خواتین کو سماجی تحفظ مہیا کرنے کیلئے ایک قومی پالیسی بنائی گئی تھی مشرف
دور ہی تھا جب بڑے شہروں میں خواتین کے چیمبر آف کامرس وجود میں آرہے تھے۔
مشرف دور میں دیہاتی خواتین کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کیلئے صنفی اصلاحات
پروگرام کے ذریعہ ہر ضلع میں خواتین کیلئے اقتصادی پروگرام شروع کیے گئے
۔آج جنرل پر ویز مشرف اقتدار میں نہیں ہیں مگر ان کی محروم طبقات بالخصوص
خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدامات ہمارے سامنے ہیں ۔ یہ سچ ہے یہ ایسے
اقدامات میں جو اس میدان میں انہیں دوسرے حکمرانوں سے نمایاں کرتے ہیں |