قدامت پسند اعتدال پسند اورانتہا پسند آخر ملالہ کون ہے
؟پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سمجھتے ہیں کہ " ملالہ یوسف زئی
مغربی ایجنٹ ہے۔ یہ لڑکی پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مغربی سازش
کا حصہ ہے۔ مغرب اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ملالہ کو سامنے لایا ہے" ۔ یہ
بحث اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب ملالہ یوسفزئی نے 11 دسمبر کو اوسلو میں
نوبل ایوارڈ وصول کیا۔ ملالہ کے مشن لڑکیوں کی "تعلیم" کی اہمیت میں کوئی
شبہ نہیںکیونکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتہاء پسند دہشت گردوں، ثقافتی
تعصب اور حکومتی لاپروائی کے باعث لاکھوں لڑکیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی
ہیں۔ تعلیم سے محروم کر دی جانے والی لڑکیوں کو سکول کا راستہ دکھانے ،
سکول جانے کے لیے ہمت دکھانے کو اگر مغربی ایجنڈا کہا جائے تو نا انصافی
ہوگی ، تعلیم کا حصول اسلامی ایجنڈا ہے، " تعلیم حاصل کرو چاہے تمہیں چین
ہی کیوں نہ جانا پڑے" ، اس ایجنڈے کی واضح نشاندہی ہے ۔ اسلامی ایجنڈے پر
کاربند کسی شخص کو اسلام دشمن کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ملالہ یوسفزئی
مغربی ایجنٹ ہو یا اعتدال پسند وہ ان پانچ مسلمانوں میں شامل ہوچکی ہے
جنہوں نے نوبل امن انعام مقابلے میں سب پر سبقت حاصل کرکے دنیا کو حیران کر
دیا۔ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران پانچ مسلمانوں نے یہ ایوارڈ اپنے نام کیا
ہے۔ ملالہ سے پہلے قابل فخر پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی یہ انعام مل
چکا ہے جس طرح ملالہ آج تنقید کے کٹہرے میں کھڑی ہے کل ڈاکٹر عبدالسلام بھی
ایسے ہی کٹہرے میں تھے۔ تعلیم دشمنوں کے خلاف بلند آوازوں کے مقابلے میں
ملالہ کی آوازخوش آئند پیش رفت ہے۔درحقیقت جو لوگ خواتین کو اپنی غیرت
سمجھتے ہیں، ان کے لیے نوبیل پرائز مسلم معاشروں کو تباہ کرنے کے لیے مغربی
سازش ہے۔عموماََ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عرصے سے معاشرہ تین گروپوں میںمنقسم
ہوتاآرہاہے قدامت پسند اعتدال پسند اورانتہا پسند۔ اب ان کے اتنے ذیلی گروپ
بنے ہیں کہ بعض اوقات ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتاہے۔ سوچ تعلیم
معیشت جغرافیہ آب وہوا مذہب اور تہذیب نے ان گروپوں کی ہمیشہ نگرانی بھی کی
ہے اور قیادت بھی۔ وقت کی نظروں نے کھبی قدامت پسندوں کو ہیرو بنتے دیکھا
کبھی اعتدال پسند منظر عام پر آتے رہے اور کبھی انتہا ء پسند الغرض ایسا
لگتا ہے کہ یہ بھی موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ دور ِحاضر کے معاشروں میں
ان تینوں گروپوں کی موجودگی ہمیشہ ماحول میں تنا کا باعث بن رہا ہے۔ کبھی
قدامت پسند اعتدال پسندوں سے الجھتے ہیں اور کبھی انتہا پسندوں سے اور
بالترتیب ان تینوں طبقوں کی جنگ روز ِاول سے جاری ہے اور رہے گی۔ معاشرے
میں طبقات اور کرداروں کا ہونا المیہ نہیں بلکہ خود معاشرے کی ایجاد ہے۔ جس
دن ملالہ کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں گولی لگی اعتدال پسند کہلانے والے غصے
میں تھے جس دن ملالہ کواوسلو میں نوبل انعام ملا اسے مغربی ایجنٹ قرار دینے
والوں کی کمی نہیں تھی۔ ملالہ کون ہے؟ اس کے بارے میں لوگوں کی سوچ کیا ہے
؟ عام لوگوں کی، پڑھے لکھے لوگوں، سیاسی کارکنوں، مذہبی رہنمائوں اور سماجی
لوگوں کی سوچ میں اس بارے واضح فرق ہے ۔ سب کی سوچ میں اختلاف ہے۔ آج کل
گھروں میں بھی مختلف سوچ کے لوگ ہیں۔ہر ایک میدان میں لوگوں کی سوچ میں فرق
ہے۔جب سوچ میں فرق ہوگا تو عمل میں بھی فرق ہوگا۔ اس صورت حال کے باوجود
میری خواہش ہے کہ سب کی سوچ ہو کہ ملالہ ہماری بہادر بیٹی ہے ۔ سب کی سوچ
ایک ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس صورت حال کی ایک وجہ معاشرتی مسائل ہیں، مختلف
پس منظروں کے لوگ ایک جگہ میں رہنے لگے ہیں۔ کھانے پینے لباس زبان رویے سب
مختلف ہونے کے باوجود ہم ایک جگہ میں رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں معاشرہ اس
وقت اس وقت خوشگوار ہوسکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔ ہر ایک کی
رائے کی قدرکریں۔ بلاشبہ زندگی بہت پیچیدہ ہوگئی ہے۔ ہر ایک شخص کو اپنی
آزادی رائے رکھنے کا حق ہے تاہم اس رائے کو طاقتور بنانے کے لیے اسلام
دشمنی کا فتوی نہیں دینا چاہیے ۔اب سوال قدامت پسندی اعتدال پسندی اور
انتہاء پسندی کا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا ملالہ یوسفزئی اسلام کی بیٹی ہے یا
مغربی ایجنٹ؟ہمارے ہاں فیشن کے طور پر لوگوں کو امریکی ایجنٹ،بھارتی ایجنٹ
اور اسلام دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔کسی نے اچھا کام کیا تو بھی مخالفین
فتویٰ دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ملالہ کو اس لیے مغربی ایجنٹ قرار دیا جا
رہا ہے کیوں کہ مغرب نے اس کی پزیرائی کی۔ماضی میں امریکہ اور مغرب کی مدد
اور طاقت سے پڑوسی ملک میں ا سلامی لڑائی لڑی گئی تھی تو پھر کیا افغان جنگ
لڑنے والے مغربی ایجنٹ تھے ؟۔ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کا ایک بڑا سائنسدان
تھا۔سائنسی دنیا میں اس کی تحقیق کے تناظر میں اسے نوبل انعام کا حقدار
قرار دیاگیا تو مخالفین نے اس کی شخصیت کومذہب کے ترازو میں تولنا شروع
کردیا چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام بھی مغربی ایجنٹ اور اسلام دشمن قرار پایا
تھا۔ سائنسی دنیا میں اس کی خدمات اور اس کی ریسرچ کو نظر انداز کر کے اسے
ایک نئے تنازعے میں لا کھڑا کر دیا تھا۔آج بھی پاکستانی سوسائٹی ملالہ کے
حوالے سے تقسیم ہے۔ میرے ارد گرد بھی سوچ کا فرق موجود ہے ،یہ سطور لکھتے
وقت میرے قریب بیٹھے شاہد اجمل کا خیال تھاکہ ''ملالہ پاکستان کی بیٹی ضرور
ہے مگر اب وہ مغربی ایجنٹ ہے ۔شاہد اجمل اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ملالہ
پر حملے کے وقت دو دوسری طالبات بھی زخمی ہوئیں تھیں مغرب نے اپنے ایجنڈے
کے لیے ملالہ کو استعمال کیا اور دوسری طالبات کو نظر انداز کردیا''۔خاتون
صحافی کی رائے میں ''ملالہ پاکستان کی بیٹی ہے مگر اسے استعمال کیا جا رہا
ہے ''جب خاتون صحافی شاہدہ اچکزئی سے استدال کیا گیا کہ کوئی اچھے کام کے
لیے استعمال ہو رہا ہے تو اس میں کوئی حرج ،برائی نہیں ہونی چاہیے تاہم اس
کا خیال تھا کہ مغرب اپنے ایجنڈے کے لیے ملالہ کو استعمال کر رہا ہے۔ قاسم
عباس کا خیال تھا کہ'' کوئی آپ کو استعمال کر رہا ہے تو آپ بھی اس کو
استعمال کرسکتے ہیںجوملالہ بلاشبہ بچیوں کی تعلیم کے لیے کر رہی ہے۔
پاکستان میں ہر شخص استعمال ہو رہا ہے ،سیاستدان،میڈیا حتیٰ کہ شریعت بھی
استعمال ہو رہی ہے ۔عورتوں بلخصوص بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے اگر کوئی
پیشرفت ہو رہی ہے ،کوئی اچھا کام ہو رہا ہے تو اس سے ملالہ ہرگز مغربی
ایجنٹ نہیں کہلائی جا سکتی''۔ میری رائے ہے کہ ملالہ اسلامی ایجنڈے پر
کاربند ہے ۔نوبل انعام وصول کرنے کے بعد ملالہ نے اپنی مٹی کو یاد کرکے
دنیا کو باور کرایاکہ پاکستان چند گمراہ لوگوںکا ملک نہیں امن پسند لوگوں
کا ملک ہے ۔ بچیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے کے صلے میں نوبل انعام حاصل
کرنے والی ملالہ نے انعامی رقم سے اپنے قصبے میں لڑکیوںکے دو سکول بنانے کا
علان کیا ہے ۔ یہ اقدام اس کے سچے جذبے کی نشاندہی کرتا ہے اگر وہ مغربی
ایجنٹ ہوتی تو یورپ کے کسی خوبصورت مقام پر اپنے لیے خوبصورت گھر خریدتی
اور اپنے وطن کی مٹی کو یاد نہ کرتی ۔ اس لیے بلاشبہ ملالہ6کروڑ60 لاکھ
پاکستانی لڑکیوں کی آواز ہے ۔ہمیں اپنی بچی کی اس طاقت ورآواز پر فخر ہے ۔ |