نوجوان سب سے پہلے مرحلے میں
تعلیم، نوکری، روزگار اور مستقبل کی فکر میں رہتا ہے۔ مستقبل کو روشن اور
یقینی بنانا اس کے نزدیک بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنا گھر بسانا اور ہمت و حوصلے
کے مطابق علمی سرگرمیاں انجام دینا بھی اس کے لئے بہت اہم ہوتا ہے، شادمانی
و ہیجانی کیفیت کا بھی وہ دلدادہ ہوتا ہے۔ انسان کے اندر پائے جانے والی
جمالیاتی حس نوجوان میں زیادہ قوی ہوتی ہے، انسانی جذبات و احساسات بھی
نوجوان کے اندر زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان کے شخصی اور ذاتی مسائل و
امور ہیں لیکن نوجوان کی فکرمندی یہیں تک محدود نہیں ہے۔
روحانیت و معنویت کی فکر
نوجوان کو جو فکریں لاحق رہتی ہیں ان میں روحانیت و معنویت کی بھی فکر ہے۔
یہ وہ چیز ہے جس پر منصوبہ سازوں اور ذمہ دار افراد کی پوری توجہ ہونا
چاہئے۔ نوجوانی کے دور میں ایک عمومی مذہبی و عرفانی جذبہ غالب رہتا ہے۔
نوجوانوں کی قلبی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالی، روحانیت کے اس مرکز اور
حقیقت کے اس محور سے رابطہ و رشتہ قائم کریں چنانچہ مذہبی پروگراموں میں
نوجوان بڑی دلچسپی و رغبت سے شرکت کرتے ہیں۔ جہاں بھی مذہبیت کا رنگ پھیکا
نہیں پڑا ہے وہاں نوجوان آپ کو حاضر ملیں گے۔
البتہ بہت سے مذاہب میں، دنیا کے بہت سے ممالک میں مذہبی روحانیت و معنویت
کے جلوے نظر نہیں آتے تو نوجوان ان مذاہب سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس پر
توجہ نہیں دیتے لیکن جس معاشرے میں مذہب کی قدر و قیمت پہچانی جاتی ہے،
جہاں مذہب میں جان ہے اور خاص پیغام ہے معرفت و عرفان ہے اور مذہب نوجوان
کو روحانیت و معنویت و جوش و جذبہ عطا کرتا ہے وہاں نوجوان مذہب کی جانب
راغب نظر آتے ہیں۔
عبادت انسانوں کے دلوں اور روحوں کی تطہیر کا عمل ہے۔ عبادت انسان کا گوہر
بیش بہا ہے۔ جن لوگوں کے سر سجدہ حق سے محروم ہیں وہ روحانیت و معنویت کی
لذت سے بھی نابلد ہیں۔ خدا کی ذات سے انسیت، اللہ تعالی سے راز و نیاز،
خدائے وحدہ لا شریک لہ سے طلب حاجت، اس کی بارگاہ میں اپنے غموں اور دکھوں
کا شکوہ، غنی مطلق خدا سے اپنی خواہشات کا اظہار، اعلی اہداف کے حصول کے
لئے اللہ تعالی سے طلب نصرت و مدد، یہ چیزیں انسان کو عبادت سے ملتی ہیں۔
بہترین عبادت گزاروں کا تعلق نوجوانوں کے طبقے سے ہوتا ہے۔ نوجوان کی عبادت
میں زیادہ انہماک و ارتکاز، جوش و جذبہ اور روحانیت ہوتی ہے اور اس کی
دعائیں زیادہ مستجاب ہوتی ہیں۔
تشخص اور استعداد کا انکشاف
نوجوان کے اندر نوجوانی کے ایام بالخصوص اس دور کی ابتدا میں بہت سی
خواہشات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ چونکہ اس کی نئی شخصیت کی تعمیر
ہو رہی ہوتی ہے لہذا وہ مائل ہوتا ہے کہ اس کی اس نئی شخصیت کو با قاعدہ
تسلیم کیا جائے جبکہ اکثر و بیشتر یہ ہو نہیں پاتا اور والدین نوجوان کی نئ?
شخصیت اور شناخت کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ نوجوان کے اندر اپنے الگ
قسم کے احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔ اس کا روحانی و جسمانی نشو نما ہو رہا
ہوتا ہے اور اس کے قدم ایک نئی وادی میں پڑ رہے ہوتے ہیں، اکثر و بیشتر یہ
ہوتا ہے کہ ارد گرد کے لوگ، خاندان کے افراد اور معاشرے کے لوگ اس نئی وادی
اور نئ? زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں یا پھر اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ ایسے
میں نوجوان میں احساس تنہائی اور اجنبیت پیدا ہونے لگتا ہے۔ بڑے بوڑھوں کو
چاہئے کہ اپنے نوجوانی کے ایام کی یاد کو تازہ کریں۔ اوائل بلوغ کا مرحلہ
ہو یا بعد کا نوجوان کو نوجوانی کے دور میں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا
ہوتا ہے جو ان کے لئے نا آشنا اور نامعلوم ہوتی ہیں۔ اس کے سامنے متعدد نئے
سوال آتے ہیں جو جواب طلب ہوتے ہیں۔ اس کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے
ہیں اور وہ ان سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسے تشفی بخش اور مناسب جواب نہیں دیا جاتا نتیجے
میں نوجوان کو خلا اور ابہام کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوان کے اندر یہ بھی نیا
احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کے اندر توانائیاں اور انرجی بھری ہوئی ہے، وہ
اپنے اندر جسمانی اور فکری و ذہنی دونوں طرح کی توانائیاں پاتا ہے۔ حقیقت
یہ ہے کہ جو توانائی اور انرجی نوجوان کے اندر بھری ہوتی ہے وہ اس کے ذریعے
سے کرشماتی کام انجام دے سکتا ہے، اس میں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دینے
کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن نوجوان دیکھتا ہے کہ اس کی اس توانائی اور انرجی سے
استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے نتیجے میں اسے لگتا ہے کہ وہ عبث اور بے کار
گھوم رہا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانی میں انسان کو پہلی بار ایک بڑی دنیا کا
سامنا ہوتا ہے جس کا سامنا اس نے پہلے نہیں کیا ہوتا ہے، اسے اس دنیا کی
بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے۔ اسے زندگی کے بہت سے
ایسے واقعات اور تبدیلیوں کا سامنا ہوتا ہے جن کے بارے میں اسے نہیں معلوم
کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی رہنمائی کرنے والے اور
راستہ بتانے والے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ماں باپ کی چونکہ مصروفیات زیادہ
ہیں تو وہ نوجوان پر توجہ نہیں دے پاتے اور اس کی فکری مدد کرنے سے قاصر
رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو ذمہ دار مراکز ہیں وہ اکثر و بیشتر وہاں جہاں
انہیں کام کرنا چاہئے موجود نہیں ہوتے نتیجے میں نوجوان کو مدد نہیں مل
پاتی اور نوجوان کو کسمپرسی کا احساس ستانے لگتا ہے۔
نوجوان سے مدلل گفتگو
نوجوان چاہتا ہے کہ مذہبی اور دینی باتیں اسے بتائی اور سمجھائی جائیں۔ آج
کا نوجوان چاہتا ہے کہ اپنے دین کو عقل و منطق اور دلیل و استدلال کی روشنی
میں سمجھے، یہ بالکل بجا خواہش ہے۔ اس خواہش اور مطالبہ کی تعلیم تو خود
دین نے لوگوں کو دی ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے سلسلے
میں فکر و نظر اور فہم و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ متعلقہ ذمہ دار افراد اگر
نوجوانوں میں یہ فکری عمل رائج کرنے میں کامیاب ہو جائ؛ں تو وہ دیکھیں گے
کہ نوجوان دینی احکامات و تعلیمات پر عمل آوری سے بہت مانوس ہو گیا ہے۔
جنسیاتی پہلو
نوجوانوں کے اندر جنسیاتی پہلو ایک تشویشناک چیز ہے اور بر وقت شادی کرنے
اور گھر بسانے سے اس تشویش کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کی شادی کے
سلسلے میں میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر اس رسم و رواج اور اسراف و زیادہ روی
سے پرہیز کیا جائے جو بد قسمتی سے ہمارے درمیان پھیلتی جا رہی ہے تو نوجوان
اس موقع پر جب انہیں ضرورت ہے شادی کر سکتے ہیں۔ نوجوانی کی عمر شادی کے
لئے بہت مناسب عمر ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ثقافت کی اندھی اور
کورانہ تقلید کے نتیجے میں بہت پہلے سے خاندانوں کے اندر یہ غلط رواج آ گ?ا
ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی تاخیر سے ہونا چاہئے، جبکہ اسلام میں یہ
نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں تو شادی، آغاز نوجوانی کے بعد جتنی جلدی کر دی
جائے بہتر ہے۔
ثقافتی یلغار
عصر حاضر میں جدید ٹکنالوجی کا سہارا مل جانے کے بعد ثقافتی یلغار اور بھی
خطرناک ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن و دل اور فکر و نظر تک رسائی کے سیکڑوں
اطلاعاتی راستے اور وسائل موجود ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور کمپیوٹر سے متعلق
انواع و اقسام کی روشوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے اور نوجوانوں میں
گوناگوں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپیوں نے
اندلس کو مسلمانوں سے واپس لینے کا ارادہ کیا تو دراز مدت پالیسی تیار کی۔
ان دنوں صیہونی نہیں ہوا کرتے تھے لیکن دشمنان اسلام اور سیاسی مراکز اسلام
کے خلاف تب بھی سرگرم عمل تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر
دیا۔ یہ کام وہ دینی اور سیاسی عوامل کے تحت انجام دے رہے تھے۔ ایک کام یہ
کیا گیا کہ انہوں نے کچھ مخصوص مقامات معین کر دئے جہاں نوجوانوں کو مفت
شراب پلائی جاتی تھی! نوجوانوں کو (فاحشہ) لڑکیوں اور عورتوں کے جال میں
پھنسایا گیا تاکہ وہ شہوت پرستی میں مبتلا ہو جائیں۔ زمانہ گزر جانے کے بعد
بھی کسی قوم کو آباد یا برباد کرنے والے اصلی طریقے بدلتے نہیں ہیں۔ آج بھی
وہ یہی سب کچھ کر رہے ہیں۔
سستی اور آرام طلبی
انسان کا ایک بد ترین دشمن جو خود اس کے اندر جنم لیتا ہے، سستی، کاہلی،
کام چوری اور کام میں دل کا نہ لگنا ہے۔ اس دشمن سے سختی کے ساتھ نمٹنا
چاہئے۔ اگر نوجوان اس دشمن کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو
گیا تو باہری دشمن کی ملک پر یلغار کی صورت میں بھی دشمن پر غالب آ جائے
گا۔ اس اندرونی دشمن پر قابو پا لیا تو اس باہری دشمن کو بھی مغلوب کر لے
جائے گا جو ایک ملت کے وسائل اور ذخائر کو لوٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور
اگر کہیں انسان اپنی کاہلی پر قابو نہ پا سکا، بلکہ الٹے کاہلی ہی اس پر
غالب آ گئی تو جب بھی فرائض اسے کسی میدان میں اترنے پر آمادہ کریں گے وہ
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہی رہے گا۔ جو شخص درس، کام، عبادت اور گوناگوں
خاندانی، سماجی اور دیگر فرائض کی انجام دہی کے لئے تیار نہیں ہوتا اور
سستی و آرام طلبی میں پڑا رہتا ہے اسے یہ دعوی کرنے کا حق نہیں کہ اگر
باہری دشمن نے اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو وہ دشمن کے مقابلے میں
فتحیاب ہوگا۔
خود فراموشی
ایران نے بہت اہم شعبوں میں بڑی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ انقلاب
اور انقلابی جذبہ ہے اور یہ خود اعتمادی جو انقلاب نے اس قوم کو دی، یہ
کھلی فضا ہے جو انقلاب سے ملت ایران کو ملنے والی چیزوں نے ملت ایران کو
آزادانہ فکر کرنے اور پرامید رہنے کی نعمت عطا کی۔ اگر ہم بیٹھ کر منفی
پہلو تراشتے رہیں اور یہ رٹ لگائے رہیں کہ صاحب! یہ تو ہو ہی نہیں سکتا،
ہمیں کرنے ہی نہیں دیں گے، محنت کرکے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے،
تو آپ اس چیز کو سم مہلک سے کم نہ سمجھئے۔ ایک زمانے میں یہی ہوا، لوگ آئے
اور انہوں نے ملت ایران کی ثقافتی فضا میں یہ زہر گھول دیا۔ یکبارگی آکر
اعلان کر دیا گیا کہ "ہم تو کچھ کر ہی نہیں سکتے" میری نوجوانی کے ایام کی
بات ہے، کہتے تھے کہ ایرانی تو "لولہنگ" بھی نہیں بنا سکتے۔ لولہنگ کہتے
تھے لوٹے کو، وہ بھی مٹی سے بنے ہوئے لوٹے کو۔ یہ نظریہ اور خیال تھا اس
زمانے کے سیاستدانوں کا اور یونیورسٹیاں چلانے والے عہدہ داروں کا۔ ان کے
نام بھی معلوم ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ایرانیوں کے بس کا کچھ نہیں ہے! جبکہ
حقیقت یہ نہیں ہے، ایرانی کچھ بھی کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایرانی علمی
سرحدوں کو جو بے حد وسیع ہو چکی ہیں توڑ کے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وہ آگے بڑھ کر نئی سرحدیں قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مسلمان نوجوانوں کی مصیبت
سامراج نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیوں کو جو عزم و ارادے اور طہارت و پاکدامنی
کے ساتھ دین و روحانیت اور عالم اسلام کی صف اول میں سرگرم عمل ہوں، ہرگز
پسند نہیں کرتا۔ وہ گمراہ اور بے راہرو نوجوان نسل دیکھنا چاہتے ہیں، اسے
یہ پسند ہے۔ دشمن کی خواہشات کے بر خلاف مسلم نوجوان کو چاہئے کہ ثابت قدمی
کا مظاہر کرے۔ اسلامی ممالک کے حکام کو چاہئے کہ سب سے پہلے کمر ہمت کسیں،
حکام کسی شخص اور کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہوں، دشمن کی ہنگامہ خیزی سے مرعوب
نہ ہوں۔ یہ عظیم قومی محاذ ان کے اختیار میں ہے، انہیں چاہئے کہ اس سے
بھرپور استفادہ کریں۔ قوم کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی قدر
و منزلت کو سمجھیں اور خود سازی پر توجہ دیں۔
گناہ و معصیت سے دوری
صحت مند انسانی و الہی فطرت ایک خدائی دولت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اس
فطرت سے بھرپور استفادہ کریں اور گناہوں کے مقابلے میں مضبوط قوت ارادی کا
مظاہرہ کریں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسان گناہوں کے سلسلے میں اپنے نفس
کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ محال ہو۔ ہاں اس
کے لئے مشق ضروری ہے۔ نوجوانی کے ایام میں جو نوجوان فیصلہ کر لیتے تھے کہ
اپنی قوت ارادی کو مضبوط کریں گے وہ اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنے
میں کامیاب رہتے تھے۔ اسلام میں روزہ جو واجب قرار دیا گیا ہے، در حقیقت
اسی راہ میں کی جانے والی مشق ہے۔ انسان کبھی کبھی کسی گناہ کی جانب کھنچا
چلا جاتا ہے۔ لیکن جب انسان اس گناہ کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے تو کیا وہ
واقعی بے اختیار ہو جاتا ہے؟ گناہ کی غلاظت میں ڈوب جانے کے علاوہ کیا
واقعی کوئ? راستہ اس کے پاس نہیں ہوتا؟ اکثر و بیشتر تو یہ ہوتا ہے کہ
فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن نفسانی خواہشات اور وسوسے اسے فیصلہ
نہیں کرنے دیتے۔ اگر انسان نے اپنی عمر ان وسوسوں کی رو میں بہتے ہوئے گزار
دی تو پھر بڑھاپے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا، یہ اس کے لئے بے حد
دشوار اور سخت ہوگا لیکن نوجوان میں اس کی ضروری طاقت و قوت موجود ہوتی ہے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ گناہ و معصیت سے دوری تو بڑھاپے کا کام ہے، جبکہ
بوڑھوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ان کے جسمانی اعضاءکمزور اور مضمحل ہو
چکے ہوتے ہیں اسی طرح ان کی روحانی طاقت بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ نوجوان
میں فیصلہ کرنے اورثابت قدم رہنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے- |