تیمارداری
(Muhammad Kaleem Ullah, )
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسان
کو صحت اور مرض دونوں پیش آتے ہیں مشت خاکی کبھی صحت مند ہوتا ہے اور کبھی
مرض اس کو گھیر لیتا ہے اس بارے میں ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی چند نصیحتیں ذہن نشین کرنی چاہییں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو… ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
……صحت اور تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو۔
لیکن آج انسان جس ڈگر پر چل رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے ، ہم اُس دھوکے کا
شکار ہیں کہ جس کی نشان دہی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان
فرمائی تھی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں
بہت سارے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں، پہلی تندرستی اور دوسری فراغت۔
انہی کی ناقدری کا نتیجہ ہے کہ آج جس کو یہ دو نعمتیں میسر ہیں وہ اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور بغاوت و سرکشی کی دلدل میں
گردن تک دھنسا ہوا ہے۔
مگر اللہ کریم کا فضل اور احسان یہ ہے کہ وہ جب تندرستی عطا فرمائے تو اس
کی نعمت ہے اور کبھی کسی مرض میں مبتلا کردے تو بھی انسان کو اپنے دائرے
رحمت سے باہر نہیں نکالتا بلکہ اس وقت بھی اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے
اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔
چونکہ انسان پر ایسے حالات عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں اس لیے شریعت
اسلامیہ نے ہماری ایسے امور میں بھر پور رہنمائی کرتی ہے۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی حقوق کو بیان فرماتے ہوئے مریض کی
تیمارداری کا ذکر بھی کیا ہے اور اس پر اجر وثواب کا تذکرہ فرمایا ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم میں ایک حدیث لائے ہیں : اللہ تعالیٰ
قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں مریض تھا تو نے میری تیمارداری کیوں
نہ کی؟ بندہ عرض کرے گا :اے اللہ! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالانکہ آپ رب
العالمین ہیں ( یعنی آپ بیمار ہونے سے پاک ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب
آئے گا کہ میرا فلاں بندہ مریض تھا تو نے اس کی تیمارداری نہیں کی کیا تجھے
پتہ نہیں کہ اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اسی کے پاس پاتا۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم
سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب کوئی شخص کسی مریض کی تیمارداری کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالی75000
فرشتوں کو مقرر فرماتے ہیں جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، )یہ
تیمارداری کی غرض سے جانے والا شخص ( جب قدم زمین سے اٹھاتا ہے تو اس کے
لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب قدم زمین پر رکھتا ہے تو اس کا گناہ
مٹادیاجاتا ہے اور اس کا درجہ بلند کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مریض کے
پاس (تیمارداری) کے لیے جابیٹھتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے
اور اس وقت تک اللہ کی رحمت میں ڈھکا رہتا ہے جب تک )مریض کی تیمارداری کر
کے (واپس نہیں آجاتا۔
امام احمد رحمہ اللہ نے اس سے ملتی جلتی ایک حدیث نقل کی ہے۔ حضرت انس رضی
اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تو تیمارداری
کرنے والے کا اجر آپ نے بتلایا ہے مریض کے بارے میں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریض کے گنا ہ ختم ہوجاتے ہیں۔
امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ آپ صلی ا للہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی
ساتھ نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص تین دن تک بیمار رہے وہ گناہوں سے ایسے پاک
ہوجاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے ابھی نکلا ہو یعنی اس کے ذمے کوئی گناہ نہ
ہو۔
امام ابو داود رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور ثواب کی
نیت سے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جائے تو اس کو جہنم سے ستر سال کی
مسافت کے برابر دور کردیا جاتا ہے۔
مریض کی تیمارداری کرنا ہمارادینی،اخلاقی اور معاشرتی حق ہے۔ بہتر ہے کہ
مریض کے پاس جاتے وقت کچھ)حسب استطاعت( پھل وغیرہ ساتھ لے لیں، مریض کو
جاتے ہی تسلی آمیز کلمات کہے، زیادہ دیر اس کے پاس نہ بیٹھیں۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ
تیمارداری کرنے والا مریض کے پاس بیٹھ کر سات مرتبہ یہ دعا کرے تو اللہ اسے
اس مرض سے شفاء عطاء فرماتے ہے: اَسْاَلُ اللہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ
الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَکَ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: مریض کی دعا کو خالی نہیں لوٹایا جاتا۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اس سے دعا کی درخواست کرو
کیونکہ اس کی دعا ملائکہ کی دعا کی طرح ہے (یعنی رد نہیں ہوتی)دوسری حدیث
میں ہے کہ مریض کی دعا قبول ہے اور اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ |
|