دنیا کی تاریخ میں بہت سے لوگ
جنہوں نے جنگیں لڑیں۔ علاقوں کو فتح کیا دو ردور تک اپنی بہادری کا سکہ
جمایا اور عظیم فاتح قرار پائیاور تاریخ میں حیات جاوداں پا گئے۔ اُن میں
چنگیز خان، سکندراعظم اور نپولین جیسے جنگجو شامل ہیں۔ مگر ان سب سے بڑھ کر
جس شخص نے فقط اپنی ذاتی قابلیت، محنت اور جرأت کے بل بوتے پر آدھی سے
زیادہ دنیا کی فوجوں کو شکست دی اور جسے بلاشبہ عظیم ترین قرار دیا جاتا ہے
وہ مشہور مسلمان جنگجو امیرتیمور ہے۔ وسطی ایشیا کا رہنے والا تیمور کسی
بادشاہ یا جنرنیل کا بیٹا نہیں تھا۔ ایک معمولی خاندان کا چشم و چراغ جس کی
گزر اوقات کے لیے معمولی زمین اور کچھ مویشی اس کا اثاثہ تھے۔ لیکن اپنی
ہمت اور فتوحات کے باعث وہ دنیا کا عظیم ترین فاتح قرار دیا جاتا ہے -
تیمور جب کسی شہر پر یلغار کرتا تو محاصرے کے پہلے دن اُس کے خیمے پر سفید
جھنڈا لہرایا جاتا جس کا مقصد یہ پیغام تھا کہ اگر شہر کے لوگ اطاعت قبول
کر لیں تو ان سے صلح صفائی کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا اور شہر اور اس
کے مکینوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔اگر اس شہر کے لوگ اس پیغام
کوقبول نہ کرتے تو دوسرے دن سرخ جھنڈا لہرا دیا جاتا جس کا مقصد یہ پیغام
تھا کہ ان کے سردارروں کے سوا باقی شہر اور شہری اگر آج بھی اطاعت قبول کر
لیں تو محفوظ ہیں البتہ سرداروں کے سر قلم کر دیئے جائیں گے۔ اب بھی شہر
والوں کیطرف سے کوئی حوصلہ افزا پیغام نہ ملنے پر تیسرے روز سیاہ جھنڈا
لہرایا جاتا جو اس بات کا پیغام تھا کہ اب تمام شہر تباہ اور شہری ہلاک کر
دیئے جائیں گے۔
تیمور کی آمد پر لوگوں پر اس قدر خوف طاری ہوتا کہ جس کا تصور محال
ہے۔تیمور نے ایک شہر فتح کیا تو اس کے ایک سپاہی نے قتل کرنے کے لیے بیس
لوگوں کو قطار میں کھڑا کیا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ تلوار تو خیمے میں
بھول آیا ہے۔ اس نے قیدیوں کو حکم دیا کہ اس کے آنے تک کوئی اپنی جگہ سے
نہیں ہلے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اس کے جانے کے باوجود کوئی اپنی جگہ سے
نہیں ہلا صرف ایک شخص بھاگا۔ باقی قتل ہونے کے لیے اس سپاہی کا انتظار کرتے
رہے۔
جنوری 1401ء کو تیمور نے مصر اور شام پر یلغار کی۔ حلب کی فتح کے بعد تیمور
کی فوجیں دمشق کی طرف بڑھیں۔ دمشق والوں نے صلح کی درخواست کی جسے تیمور نے
خوشی سے قبول کر لیا۔ صلح کی شرائط میں اہل دمشق نے پس و پیش سے کام لیا
تیمور چپ رہا مگر اسے اندازہ ہو گیا کہ شرائطِ صلح کو ٹالنے کا مقصد وقت
گزاری ہے تاکہ ایک نئی فوج تیار کرنے کا وقت مل جائے۔ تیمور نے اس کے
باوجود درگزر سے کام لیا مگر جب اس کی فوجیں دمشق کے قریب سے گزرنے لگیں تو
صلح کے باوجود دمشق والوں نے شام اور مصر کی متحدہ فوجوں کے ساتھ مل کر عقب
سے یک دم اس پر حملہ کر دیا۔ تیمور کو اس بات کی امید نہ تھی اس لیے
ابتدائی لمحات میں اس کی فوج میں کچھ افراتفری رہی مگر تیمور نے بہت دلیری
سے اپنے لشکر کو فوری ترتیب دے کر جوابی حملہ کیا اور تھوڑی دیر میں شامی
اور مصری فوجوں کو مار بھگایا۔ بچنے والے مصری فلسین کے راستے واپس مصر کو
دوڑے۔ اب مصر کے بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ وہ میدان جنگ میں تیمو رکا
مقابلہ نہیں کر سکتے تو اس نے تیمو رکو قتل کرنے کے لیے ایک فدائی بھیجا جو
پکڑا گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔
تیمور اب آگے بڑھنے کی بجائے پلٹ کر دمشق لوٹ آیا۔ اور دھوکہ دہی کے جواب
میں پہلے دمشق کو لوٹ مار کا نشانہ بنایاپھر قتل عام کیا اور پورے دمشق کو
آگ لگا دی گئی۔ یہ آگ کئی روز تک بھڑکتی رہی یہاں تک کہ ہر چیز خاکستر ہو
گئی۔ قتل وغارت میں مارے جانے والے مقتولوں کی لاشوں پر ان کے مکان جل جل
کر گرتے رہے اور ان کی لاشیں اُنہی کے نیچے دفن ہو گئیں۔ جب دمشق جل رہا
تھا تیمور جلتے ہوئے شہر کا جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک گنبد پر
پڑی۔ اس نے فوری طور پر اس گنبد کا نقشہ تیا رکرنے کا حکم دیا۔ یہ دمشق کی
جامع بنی امیہ کا گنبد تھا جو لکڑی کا تھا۔ یہ انتہائی خوبصورت اور شاندار
گنبد تھا اور تیمو رکو اتنا پسند آیا کہ وہ ایک مہینے تک جلتے شہر کے شعلوں
میں اسے روز غور سے دیکھتا رہا حتیٰ کہ شہر کی آتش زدگی کی زد میں آ کر وہ
گنبد بھی جل گیا۔ تیمور نے واپسی پر سمرقند میں جو عمارت سب سے پہلے تعمیر
کی وہ اس کی بیوی بی بی خانم کا مقبرہ تھا جس کا گنبد دمشق کی مسجد کے گنبد
کی ہوبہو نقل تھا۔ اس سے پہلے تاتاری گنبد چیٹی نوکدار وضع کے ہوتے
تھے۔دمشق کی مسجد کا گنبد ان سے بہت زیادہ خوبصورت اور خوشنما تھا۔ اس کی
شکل انا رجیسی اور گولائی اوپر کی طرف نوک دار چوٹی پر ختم ہوتی ہے۔
دمشق کی اس اموی مسجد کا وہ خوبصورت گنبد تو شہر کی تمام عمارتوں کے ساتھ
جل کر ختم ہو گیا مگر تیمور کی پسندنے اس گنبد کو امرکردیا۔ اس کے بعد
تیمور اور اس کی اولاد نے جتنی بھی عمارتیں تعمیر کیں یہ گنبد ان تمام
عمارتوں ایک لازمی جزو تھا۔ مغل اس گنبد کو لے کر روس گئے جہاں کے ہر گرجے
کا گنبد ویسا ہی ہے۔ مغل اسی گنبد کو لے کر ہندوستان آئے اور یہ گنبد مغل
بادشاہوں کے محلات کی زینت بنا۔ تاج محل کی خوبصورتی بھی اسی گنبد کی مرہونِ
منت ہے جسے ایک مغل آنکھوں میں سمو کر سمرقند اور اس کی اولاد آگرہ لے آئی۔
سچ ہے تاج محل جو دنیا میں محبت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے کی تعمیر کی
ابتداء اس دن ہوئی تھی جس دن ا اس گنبد کی دلکشی نے تیمور کو اپنے سحر میں
جکڑ لیا تھا۔ |