آج سے 10 سال قبل آٹھ اکتوبر2005
کو آنے والے زلزلے نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں ایبٹ آباد، مانسہرہ،
بالاکوٹ اور آزاد کشمیر کے چار اضلاع نیلم، مظفر آباد، باغ اور پونچھ میں
بسنے والے لاکھوں لوگوں کو نیست و نابود کر دیا تھا۔رمضان المبارک کے مبارک
دن تھے صبح کا وقت تھا ۔وہاں کے باسی اپنے اپنے روزمرہ کاموں کا آغاز کر
چکے تھے کہ ایسے میں زمین شدت سے لرزنے لگی ۔بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس ہونے
لگیں ۔چند لمحوں میں وہاں قیامت گزر گئی۔اسلام آباد جیسے شہر میں مارگلہ
ٹاور ز ، دکانات ،سرکاری عمارات اور سینکڑوں گھر سب کچھ اس زلزلے کی نذر
ہوگیا۔ بالاکوٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے نابود ہوگیا تھا۔ دیہات میں کوئی
مکان نہیں بچا۔کسی کا کوئی اثاثہ نہیں بچا۔ اس زلزلہ میں آزاد جموں و کشمیر
اور صوبہ خیبر پختونخوا کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
ایک محتاظ اندازے کے مطابق ایک لاکھ لوگ زلزلے کی نذر ہوگئے ۔اس زلزلہ نے
جو تباہی پھیلائی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ چھ ماہ میں عمارتوں کے نیچے
دبی لاشیں نکالنے میں لگے ۔اس دن پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ گئے تھے ۔
درجنوں مقامات پر تو پوری آبادیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو کفن
اور قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔ یہ اتنی خوفناک قدرتی آفت تھی کہ اس سے بچ
جانے والے لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں۔اس سانحے کے زخم ابھی تازہ ہیں
۔ہزاروں ایسے بدقسمت اب بھی زندہ ہیں ،جو اس زلزلے میں معذور ہو گئے تھے آج
بھی سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔
زلزلہ کے دوران سب سے پہلے جماعۃالدعوۃ کی طرف سے ریسکیو و ریلیف آپریشن
شروع کیا گیا۔زلزلہ کے چند منٹ بعد ہی ریسکیو آپریشن شروع کرنے پر
جماعۃالدعوۃ کی امدادی سرگرمیوں کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔جماعۃالدعوۃ کے
رضاکار خچروں اور ربڑ بوٹس کے ذریعہ دریائے نیلم کراس کر کے دور دراز پہاڑی
علاقوں میں پہنچ کرمتاثرین کو خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچاتے رہے ۔دوسری
جماعت جس نے سب سے زیادہ زلزلہ متاثرین کی مدد کی اس کا نام ہے ،جماعت
اسلامی اس کے علاوہ پاکستان کی نام نہاد سیاسی جماعتوں نے سوائے بیانات
دینے متاثرین کی کوئی خاص مدد نہیں کی اس سے ان کی عوام سے کتنی ہمدردی ہے
ظاہر ہوتی ہے ۔
قیامت خیز زلزلے کو 10 سال گزر گئے ۔ لیکن حکومتی وعدؤں اور دعوؤں کے
باوجود نیوبالا کوٹ سٹی ابھی تک نہ بن سکا۔ حکومتوں کی،بے حسی اور غلط
پالیسیوں کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہے ۔یہ ہی حال دیگر سب متاثرہ
مقامات کا ہے ۔
زلزلہ کے بعد پاکستان کی عوام کے علاوہ دنیا بھر سے اربوں ڈالرز کی امداد
پاکستان کو ملی تھی ،سوال یہ ہے کہ اتنی امداد ملنے کے باوجود (حالانکہ
امداد نہ بھی ملتی تو بھی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ متاثرین کی بحالی کے
لیے مدد کرتی)اربوں ڈالرز کی وہ امداد کہاں گئی؟بے شمار ملکی اور غیرملکی
رضاکار ادارے اور کارکن بھی دن رات مصروف رہے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیااس
سب کے باوجود زلزلہ زدہ لوگوں اور علاقوں کی صورتحال کیوں نہ بدلی ۔اس
حکومت کے خاتمے کے بعد ان منصوبوں کو جاری کیوں نہ رکھا گیا ۔مثلاََحکومت
نے زلزلے کے فوری بعدبالا کوٹ میں دوبارہ پختہ تعمیر پر پابندی عائد کر دی
تھی اور اعلان کیا تھاکہ موجودہ شہر سے 23کلومیٹر دور ’’بکریال‘‘ کے مقام
پر ’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر کیا جائے گا اورمتاثرین کو وہاں بسایا جائے
گا۔اس نئے شہر کاوزیر اعظم شوکت عزیز نے افتتاح بھی کیا ،کام بھی شروع ہوا
لیکن 10 سال گزرے ’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ کیا تعمیر ہوتا؟ اس کی طرف جانے والی
سڑک بھی نہ بن سکی اوراب یہ منصوبہ مکمل طور بند ہی ہوچکا ہے ۔اس منصوبے پر
اب تک 4 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔
سوچنے کی بات ہے کہ حکومت بدل جانے سے کیا ایسے منصوبوں کو ترک کر دینا
چاہیے ۔کیونکہ وعدے پرویز مشرف نے کیے تھے اس کے بعد ان کی حکومت نہیں رہی
انہوں نے جو وعدے عوام سے کیے تھے یا منصوبے شروع کیے تھے وہ آنے والی
حکومت نے بند کر دیئے ،کسی حد تک یہ ہی حال موجودہ حکومت کا بھی ہے ۔ایسی
سوچ کو ،ایسی پالیسی کو ،عوام دشمنی کے علاوہ کیا نام دیا جائے ۔اْس وقت کی
حکومت نے عوام سے آبادکاری کے جو وعدے کئے موجودہ اور اس سے قبل کی حکومت
ان کو پوراکرنے میں سنجیدہ نہیں ۔ان کو عوام سے غرض نہیں اپنے نام سے غرض
ہے ۔
مظفرآباد زلزلے میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔سنا
ہے اس شہر میں ترکی نے ایک عالیشان مسجد ،سعودی عرب نے یونیورسٹی اور
ہسپتال،متحدہ عرب امارات نے ہسپتال اس کے علاوہ سکول وکالج بھی یہ ہی ممالک
بنا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ سب سے زیادہ مدد جماعت اسلامی اور جماعۃ
الدعوۃ(حافظ سعیدکی غیر سیاسی جماعت)نے کی ہے عوام کی دی ہوئی امداد بھی
انہی جماعتوں نے متاثرین تک پہنچائی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت نے کیا کیا ہے؟؟سیاسی جماعتوں نے کیا کیا ہے؟؟ ۔اربوں
ڈالرز کی ملنے والی امداد کوہڑپ کرنے کے علاوہ ،بیانات دینے کے علاوہ حکومت
کو چاہیے تھاعوام کو رہائش ،روزگار ہی فراہم کرنے میں مدد کرتی ۔لیکن ایسا
کچھ نہیں ہوا ابھی تک یعنی دس سال گزر جانے کے بعد بھی سینکڑوں متاثرین
عارضی گھروں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں ۔ |