سائنسی علوم پر مشتمل مضامین جن میں طبیعات،
کیمیا، حیاتیات، شماریات اور کمپیوٹر سائنس وغیرہ شامل ہیں، ان کے عملی
امتحانات دراصل سائنس و ٹیکنالوجی کے بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور وطن
عزیز پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ بیس کیمپ بری طرح بدنظمی، بدعنوانی،
سفارش، رشوت اور اقربا پروری کا شکار ہیں۔ مذکورہ امتحانات کو کنٹرول کرنے
والے بورڈ اور امتحانی پالیسی ساز ادارے کرپشن میں سراپا غلطاں اس امتحانی
نظام پر معلوم نہیں کیوں خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں؟ ان کے فکری جرگے
(think tank) نہ جانے سوچنے سمجھنے سے کیوں بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں؟
حیرت ہے کہ جو بیماری روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ
تعلیمی نظام کی جڑوں کو کوکھلا کر رہی ہے، اسے کیوں اپنی عقدہ کشا نگاہوں
میں سمانے نہیں دے رہے؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں لیکن بقول شاعر
مانے نہ مانے آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جائیں گے
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ان عملی امتحانات میں کون کون سی خرابیاں پائی جاتی
ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
۱۔ممتحن کے متعلقہ ادارے میں پہنچتے ہی اس کی خوشامدانہ خدمت و مدارت شروع
ہو جاتی ہے۔ موسمی پھل، مشروبات، مرغِ مسلّم، آئس کریموں کے ذریعے اس کی
عزت نفس اور خوداری کو کمزور کر کے مائل بہ عطا کیا جاتا ہے۔ ان دنوں مقامی
اساتذہ خصوصاً ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ کرام کا جذبہ مہمان نوازی عروج کی
حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ پنجابی کا محاورہ "منہ کھاوے تے اکھ شرماوے "کے
مصداق ممتحن کا اختیار کم اور موسمی میزبانو ں کا اختیار بڑھ جاتا ہے۔ یہ
سب خاطر مدارتیں کرپشن اور بد عنوانی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس لیے کہ ممتحن
کو بورڈ کی طرف سے خورد و نوش، سفر اور رہائش کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔
۲۔بہت سے ممتحن خواتین وحضرات مقامی اور متعلقہ اساتذہ کے سامنے ہی طلباء و
طالبات کی جوابی کاپیوں پر نمبر لگاتے ہیں تاکہ میزبان مافیا کو اپنی نمک
حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے مطمئن کر سکیں۔ کیوں کہ سفارشوں کا دباؤ اتنا
زیادہ ہوتا ہے کہ ہر ممتحن اس دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ حالات جو بھی
ہوں مگر رازداری قائم نہ رکھنا اپنے فرائض کے ساتھ شرمناک خیانت ہے اور
خیانت کی اس برائی کو کسی بھی تاویل کے ذریعے اچھائی اور جواز میں نہیں
بدلا جا سکتا ۔بدقسمتی سے ہمارے عملی امتحانات اس اخلاقی اور منصبی خیانت
کا بد ترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔
۳۔جن طالب علموں کو میزبان اساتذہ ٹیوشن پڑھاتے ہیں ان کے نمبر زیادہ اور
جو کسی اور سے ٹیوشن پڑھتے ہیں ان کے کم نمبر لگوانے کی کوشش کرتے ہیں تا
کہ تمام طلبا و طالبات کو باور کرایا جا سکے کہ ان کے پاس جو ٹیوشن نہیں
پڑھے گا اس کو عملی امتحان کے کم نمبر لگوا کر سزا دی جائے گی۔ اس دوران
ٹیوشن بزنس کی رقابتیں بھی خوب کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک دوسرے کے مقابلے
میں چلنے والی اکیڈمیوں کے منتظمین اپنے اپنے منظور نظر طلباء و طالبات کو
زیادہ سے زیادہ نمبر دلوانے کے لیے غیر معمولی تحرّک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
۴۔ اگر کوئی ممتحن کسی حد تک اصول وضوابط کی پاسداری کرنے کی کوشش کرتا ہے
تو ٹیوشن مافیا کی طرف سے اسے ظالم اور ضرورت سے زیادہ سختی کرنے والا شخص
مشتہر کر دیا جاتا ہے اور کئی طرح کی آزمائشوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اولاً
کوشش کی جاتی ہے کہ اس ممتحن کی دوبارہ ڈیوٹی نہ لگے۔ وہ ممتحن جس ادارے سے
تعلق رکھتا ہے اس ادارے کے سربراہ کو یا متعلقہ سائنس اساتذہ کو دھمکی دی
جاتی ہے کہ اگلے سال وہ اس کے ادارے میں عملی ممتحن کی ڈیوٹی خود یا اپنے
کسی آدمی کی لگوائیں گے اور پھر اس سختی کا بدلہ چکائیں گے۔ اور پھر متعدد
امتحانی مقامات پر ایسا ہوتا بھی ہے۔
۵۔سائنس کے طلباء و طالبات کی چونکہ نوے فی صد سے زیادہ تعداد ٹیوشن پڑھتی
ہے۔ اس لیے طلباء و طالبات جن اساتذہ سے ٹیوشن پڑھتے ہیں ان سے عملی امتحان
میں اس مضمون کے نمبر لگوانے کی امید بھی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اس متعلقہ
مضمون کے تجربات کو سرے سے کرتے ہی نہیں یا پھر نیم دلی سے کرتے ہیں ۔اس
طرح طلباء طالبات کی نظروں میں عملی امتحان کی قدر واہمیت ہی کم ہو جاتی ہے
۔وہ اسے ایک ایسا امتحان تصور کرتے ہیں جس میں نمبر محنت سے زیادہ سفارش سے
لگتے ہیں ۔یہی تصور ان کو محنت کرنے سے روکتا ہے ۔
۶۔عملی امتحان کے پرچے میں تین نمبر زبانی سوالات کے اور دو پریکٹیکل کی
کاپی کے ہوتے ہیں ۔مگر طلباء و طالبات کی ایک بھاری تعداد خود کاپی تیار
نہیں کرتی بلکہ وہ بازار سے سو دوسو روپے کی بنی بنائی کاپی خرید لیتے ہیں
۔اصولی طور پر ممتحن کو کاپی چیک کرنے کے بعد پھاڑ دینی چاہیے مگر بہت سے
متعلقہ سائنس اساتذہ اور لیبارٹری اسسٹنٹ ممتحن سے اچھی اچھی کاپیاں رکھ
لیتے ہیں اور اگلے سال طلباء و طالبات کو یا بازار میں بیچ دیتے ہیں صورت
حال یہ ہے کہ اب بازارسے ہر مضمون کے پریکٹیکل کی ہر طرح سے بنی بنائی کاپی
مل جاتی ہے۔اسے ملک وقوم کی بد قسمتی کہیے کہ تعلیم میں بد دیانتی کا یہ
کاروبار عروج پر ہے ۔طلباء و طالبات کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کی ادا
کی ہوئی ٹیوشن کی رقم میں عملی امتحان کے نمبر لگوانا بھی شامل ہے ۔علاوہ
ازیں مذکورہ کاپی پر متعلقہ سائنس استاد کے دستخط کروانا لازمی ہوتے ہیں ۔مگر
اکثر یہ دستخط یا تو ایمرجنسی میں امتحان کے قریب جا کر کروائے جاتے ہیں یا
پھر طلباء طالبات اس قدر ان کی اہمیت کھو چکے ہیں کہ یہ دستخط کروانے کی
زحمت ہی گوارا نہیں کرتے ۔اکثر جگہوں پر اکیڈمیوں میں پڑھانے والے غیر
متعلق لوگ بھی اپنی اکیڈمی میں پڑھنے والے طلباء طالبات کی کاپی پر دستخط
کر دیتے ہیں اور نمبر لگوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں بعض اوقات
ایسے طلباءو طالبات سے واسطہ پڑتا ہے جو گستاخانہ لہجے میں اپنا تعارف
کرواتے ہیں کہ وہ تو جناب فلاں سائنس ٹیچر یا فلاں پروفیسر کے شاگرد ہیں
لہٰذا ان کو اس تعلق کی بنیاد پر نمبر دیے جائیں ۔یہ تعلق عموماً ٹیوشن کا
ہی ہوتا ہے ۔
۷۔عملی امتحان سے ایک دن پہلے جب بورڈ کی طرف سے مقامی امتحانی مراکز کےلیے
ممتحن کو جوابی کاپیاں اور چند دیگر متعلقہ کاغذات دیے جاتے ہیں تو بورڈ کے
چند اہلکار ساتھ ہی یہ بھی خوشامدانہ دھمکی کے لہجے میں جتلا دیتے ہیں کہ
وہ چونکہ ڈیوٹی وغیرہ لگوانے کے سلسلے میں ان سے تعاون کرتے ہیں اس لیے وہ
بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی چٹوں اور رقعوں کے ساتھ بھی ہمدردانہ سلوک کیا
جائے گا۔
۸۔امتحان کی "کلید (key)عموماً آغاز امتحان سے کچھ دیر پہلے کھل جاتی ہے
اور امتحان میں آنے والے تجربے کی بابت ضروری کوائف اور قیمتوں کو طلباء
وطالبات اسی وقت رٹاّ لگا لیتے ہیں ۔بعض دیانت دار ممتحنین "کی "کو عین
درست وقت پر کھولتے ہیں جس کا توڑ کرنے کے لیے طلباء وطالبات یا ان کے
پیچھے مافیا کے لوگ موبائل فون پر دوسری جگہوں سے "کی "میں دی گئی معلومات
وصول کر لیتے ہیں اور اس امتحانی نظام کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کرتے
ہیں۔
۹۔پرچہ شروع ہونے سے پہلے ممتحن کی جیب سفارشی چٹوں اور رقعوں سے بھر جاتی
ہے جسے ممتحن بعد ازاں ردّی کی ٹوکری یا کسی اور مناسب جگہ پر ٹھکانے لگاتا
/ لگاتی ہے۔ اس سے عملی امتحان کی بد نظمی اور بد دیانتی کا بخوبی انداز ہو
جاتا ہے ۔
۱۰۔جن طلبا ءو طالبا ت کی پشت پر سفارش ہوتی ہے وہ اعتماد کے ساتھ امتحان
گاہ میں آتے ہیں ۔عموماً ان کے نمبر بھی ان کی اہلیت وقابلیت سے زیادہ لگ
جاتے ہیں مگر جو طلباء وطالبات سفارش سے محروم ہوتے ہیں وہ امتحان گاہ میں
بھی اپنے احساس محرومی کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے آتے ہیں جہاں ان کو ان کے
استحقاق کے مطابق ملنے والے نمبروں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے بعض جگہوں پر
تو طلباء و طالبات کے پیچھے کسی والی وارث کے نہ پہنچے پر ان کو طعنہ بھی
دیا جاتا ہے ۔ان بے چاروں کا جرم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ غریب والدین کے
بچے ہوتے ہیں ۔بہت کم ممتحنین ایسے ہوتے ہیں جو بے رحم تعلیمی نظام کے
ہاتھوں پسنے اور پسماندہ رہنے والے ان طلباء و طالبات پر رحم کھاتے ہیں ۔
بہت دکھ ہوتا ہے جب ایسے غریب طلباء وطالبات کی ذہانت اور شوق کو غیر
منصفانہ اور متعفّن نظام امتحان کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے ۔بد دیانتی کی
تربیّت گاہوں کے تربیّت یافتہ یہ امیر زادے اور سفارش بردار عملی زندگی میں
کیوں نہ مسمار ان قوم کا کردار ادا کریں گے ؟کیوں ان کا احساس تفاخر ان کو
اپنے اور احساس محرومی رکھنے والوں کے درمیان خط منافرت کھینچنے پر مجبور
کر یگا ؟کیوں نہ وہ کام نہ کر کے بھی کام کے ثمرات سمیٹنے کی کوشش کریں گے
؟ کیا بد دیانتی کی ایسی تربیت گاہوں سے معمار ان قوم کی جگہ مسماران قوم
نہیں نکلے گے ؟طبقاتی تقسیم کو کیوں نہ ہوا ملے گی؟کیا ابھی وقت نہیں آیا
کہ اس امتحانی نظام کو بدل دیا جائے اور اس کی جگہ منصفانہ اور غریب پرور
نظام رائج کیا جائے ؟
۱۱۔بورڈ میں سائنسی مضامین کے تھیوری کے پرچوں میں دو تہائی کے لگ بھگ
طلباء وطالبات فیل ہو جاتے ہیں مگر عملی امتحان میں فیل ہونے والوں کی
تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔کیا یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال نہیں ہے؟
اعلان ِنتائج پر ایسے طلباء طالبات کی کوئی کمی نہیں ہوتی جو تھیوری میں
فیل ہوتے ہیں مگر عملی امتحان میں ان کے ۷۰فی صد یا اس سے بھی زیادہ ہوتے
ہیں ۔چنانچہ مذکورہ امتحانی نظام کی بد نظمی کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے
جس کے حواسِ خمسہ کو قدرت نے سلب کر لیا ہو ۔یہ حقیقت کیا امتحانات کے لیے
پالیسی تشکیل دینے والوں پر آشکار نہیں ہے ؟کیوں نہیں ؟مگر نہ جانے کیوں اس
کی طرف نظر عنایت نہ کر کے اور اسے جوں کا توں رکھ کر امتحانی نظام کی بد
حالی کا تماشا دیکھا جا رہا ہے ؟کیا یہ نظام اساتذہ ،طلباءو طالبات اور ان
کے والدین کو بد دیانتی کی تربیت نہیں دے رہا ہے ؟
۱۲۔تھیوری اور عملی امتحانات کی نگرانی کا اگر موازنہ کیا جائے تو تھیوری
کی نسبت عملی امتحان کی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔راقم الحروف
گذشتہ گیارہ سال سے وقتاً فوقتاً میڑک اور ایف ایس سی کے عملی امتحان میں
بطور ناظم امتحان فرائض انجام دیتا ہے ۔اس دورانیے میں امتحانی بورڈ کی طرف
سے ایک دفعہ بھی کسی معائنہ کار نے امتحانی مرکز کا دورہ کرنے کی زحمت
گوارا نہیں کی ۔مگر تھیوری کے امتحان میں نگرانی کی صورت حال اس سے قطعی
مختلف ہوتی ہے ۔یہاں معائنہ کرنے والی ٹیمیں خاصے تحرّک کا مظاہرہ کرتی
ہیں۔
اسباب وتجاویز۔
آئیے عملی امتحانی نظام کی بد انتظامی کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہیں
اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا علاج تجویز کرتے ہیں ۔
۱۔سب سے بڑا اور اہم سبب ملک میں ٹیوشن بزنس کی لعنت ہے جسے ختم کرنے کے
لیے با اختیار پالیسی ساز ادارے کوئی بھی مثبت اور مؤثر اقدام کرنے کے لیے
تیار نہیں ہیں ۔بلکہ سائنسی نصاب کو مشکل سے مشکل تر بنا کر اس لعنت کو
فروغ دے رہے ہیں ۔نصاب کی تبدیلی کے نام سے انگریز مصنفین کی لکھی کتابوں
سے پیرا گراف چرا چرا کر نصاب کے بچے کھچے تسلسل کو بھی ختم کر رہے ہیں
۔انگریزوں کی ایف ایس سی کے لیے لکھی ہوئی نصابی کتابیں اتنی مشکل نہیں ہیں
جتنی ہماری ایف ایس سی کی کتابوں کو کتربیونت کے ذریعے مشکل بنا دیا گیا ہے
۔اگر ہماری اور انگریز کی نصابی کتابوں کی انگلش کم وبیش ایک سطح کی بھی ہو
تب بھی ان کو ہمارے ملک کے طلباء وطالبات کےلیے رائج کرنا ان پر سرا سر ظلم
ڈھانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ہمارے اور انگریز طلباءوطالبات کی کسی بھی سطح
پر انگلش فہمی برابر نہیں ہے ۔برابر تو کیا ہمارے لیے انگریزی اردو کی نسبت
ہزاروں گنا مشکل ہے ۔انگریز طلباءوطالبات کی نسبت ہمارے طلباء وطالبات کو
نصاب فہمی کےلیے کئی گنا زیادہ توانائیاں ،وقت اور سرمایہ درکار ہے ۔اب تو
پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک بھی سائنس کا نصاب انگریزی اصطلاحات کو اردو
رسم الخط میں لکھنے کی وجہ سے غیر فطری اور نا قابلِ فہم بنا دیا گیا ہے
۔نصاب فہمی کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھی جاتی ہے ۔جن ممالک
کا سائنسی نصاب ان کی اپنی قومی زبانوں میں ہے وہاں یہ لعنت ہماری طرح نہیں
ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔اگر ہم بھی سائنسی نصاب کو اپنی قومی زبان
اردو کے سانچے میں ڈھال کر رائج کر دیں تو فہم و ابلاغ میں آسانی ہونے کی
وجہ سے ٹیوشن بزنس کا کاروبار کافی حد تک کم ہو سکتا ہے ۔جس سے عملی امتحان
میں ہونے والی بلیک میلینگ اور ٹیوشن مافیا کی سر پرستی کم ہو جائے گی۔عملی
امتحانوں میں ہونے والی بد نظمی اور بد عنوانی کی صورت حال یہ ہے کہ جو
نقصان عملی امتحان کے نہ ہونے سے طلباء وطالبات کو اٹھانا متوقع ہو سکتا ہے
وہ اس سے کئی گنا کم ہو گا جو موجود نظام کے تحت ہونے والے امتحان سے ہوتا
ہے ۔دوائی کے منفی اثرات جب مثبت اثرات پر غالب آجائیں تو ایسی دوائی کوئی
بھی طبیب تجویز نہیں کرتا ۔مگر ہمارے امتحانی نظام کاباوہ آدم ہی نرالا ہے
۔یہاں دوا کے نتیجے میں مرض بڑھاتا جا رہا ہے لیکن مریض کو حسب سابق اور
حسب معمول وہی دی جارہی ہے ۔
۲۔عملی امتحان میں نوٹ بک کے دو نمبر اور زبانی امتحان کے تین نمبر ہوتے
ہیں۔ان نمبروں کی عطائیگی کلّی طور پر ممتحن کی ثواب دید پر ہوتی ہے ۔اکثر
وبیشتر یہ پانچ نمبر انگریزی کے لفظobligeکا جامہ پہنا کر غیر منصفانہ
انداز سے نوازے جاتے ہیں ۔اس کے سدّباب کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ عملی
امتحان کی کاپیاں امتحانی بورڈ براہ راست تعلیمی ادارو ں سے اپنے پاس
منگوائیں اور دیانتدار ،بااعتماد اور اچھی شہرت رکھنے والے اساتذہ سے ان کی
جانچ پڑتال کروا کے طلباء وطالبات کو نمبر دیے جائیں ۔یہ نمبر دو کی بجائے
تین بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اس سے عملی امتحان کی نوٹ بک صحیح
طریقے سے نہ تیار کرنے ،بر وقت ان پر دستخط نہ کرنے اور بازار اور تجربہ
گاہوں میں ان کی خریدو فروخت کا رواج ختم ہو جائے گا ۔اساتذہ بھی بر وقت
اور درست انداز سے کاپیاں تیار کروائیں گے ۔رہا تین نمبر کا زبانی امتحان
تواسے ختم ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے ۔اس کی بجائے تجربے کے اندر ہی تجربے
کے بارے میں تحریری طور پر تین مختصر سوالات ایسے پوچھے جائیں جن کا تعلّق
رٹے سے نہ ہو بلکہ فہم وتجزیے سے ہو ۔
۳۔ہر ضلع کی سطح پر صرف ایک امتحانی مرکز قائم کیا جائے جس میں تمام تجربات
کا سامان ہر طرح سے مکمل اور تعداد کے اعتبار سے طلباء وطالبات کی ضروریا ت
کے مطابق ہو ۔اس میں عملی امتحان لینے کے لیے کچھ دیر تو زیادہ لگے گی مگر
امتحانی بورڈ کے لیے نگرانی کرنا آسان ہو جائے گا ۔علاوہ ازیں اگر ایک مرکز
سے ضروریات پوری نہ ہو تو ایک ہی شہر میں ایک سے زیادہ مراکز بنائے جا سکتے
ہیں ۔اس طرح یہ مراکز کڑی نگرانی کے تحت با آسانی چلائے جا سکتے ہیں ۔رہا
اس قدر سامان کی فراہمی کا مسئلہ تو یہ امتحانی بورڈ اپنی طرف سے بھی مہیا
کر کے بھی حل کر سکتا ہے ۔اس سے امتحانی مرکز بننے والی تجربہ گاہوں کا یہ
عذر ختم ہو جائے گا کہ ان کے پاس مکمل تجربات کا سامان نہیں ہے جس کی وجہ
سے ایک ایک تجربے کے سامان کے ساتھ بیک وقت چار چار پانچ پانچ طلباءوطالبات
کو تجربے کروائے جاتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں نقل کو روکنا مشکل ہی نہیں
ناممکن بھی ہوتا ہے ۔
۴۔تمام طلباء وطالبات کو الگ الگ تجربات تفویض کیے جائیں ۔ایک گروپ میں
زیادہ سے زیادہ بیس طلباء وطالبات ہوں ۔ اور سوالیہ پرچے میں بھی بیس
سوالات ہی ہوں جن کو رول نمبروں کی ترتیب کے مطابق امیدوں میں تقسیم کر دیا
جائے ۔ سامان کی انتطام کاری کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کسی مضمون کے
کل تیس تجربات ہیں تو ان کے سامان کو ایک بڑے کمرے یا ہال میں تیس مختلف
جگہوں پر پہلے سے ہی ترتیب سےرکھ دیا جائے تاکہ رول نمبروں کے مطابق تفویض
کار میں آسانی ہو اور سامان کی بار بار نقل و حمل کی قباحتوں سے بھی بچا جا
سکے ۔ہر امیدوار کو الگ الگ تجربہ تفویض کرنے سے نقل اور پوچھ تاچھ تقریباً
ختم ہو جائے گی ۔اس سے امتحانی بورڈ کو نئی ترامیم کی وجہ سے چند مشکلات کا
سامنا تو ہوگا مگر مجموعی طور پر یہ مشکلات عملی امتحانوں کے کام کو پورے
ضلع میں بکھیر کر کرنے کی نسبت خاصی حد تک کم ہو جائیں گی ۔
۵۔عملی امتحان میں معروضی سوالات شامل کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔کیونکہ
معروضی کا امتحان تو الگ سے تھیوری کے پرچے میں ہی ہو جاتا ہے ۔ ہاں !اگر
شامل کرنے ہی ہوں تو یہ ہر پرچے میں مختلف ہوں تاکہ نقل کے رجحان میں خواطر
خواہ کمی واقع ہو ۔ایک جیسے معروضی پرچوں میں امکانات زیادہ سے زیادہ ہوتے
ہیں جیسا کہ اب ہو رہا ہے ۔
چلتے چلتے اس حماقت کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جو آجکل پالیسی ساز جہلاء کے
جہلِ مرکب کی آئینہ دار ہے۔ وہ یہ کہ نہم اور گیارہویں جماعت کا امتحان تو
سالانہ بنیادوں پر لے لیا جاتا ہے مگر ان کا عملی امتحان بارہویں جماعت کے
عملی امتحان کے ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔بات یہ ہے کہ جب تھیوری کا امتحان ہوتا
ہے تو اس کے ساتھ عملی امتحان بھی ہو جانا چاہیے۔ یہ کیسی منطق ہے کہ
تھیوری کا امتحان تو ختم مگر اس سے متعلق عملی امتحان ایک سال بعد ہوتا ہے
جب طالب علم سب کچھ بھول چکا ہوتا ہے۔ اس سے سب سے بڑی خرابی یہ پیدا ہوئی
ہے کہ طلباء عملی تجربات تھیوری پڑھتے وقت نہیں کرتے بلکہ امتحان کے قریب
جا کر کرتے ہیں کیونکہ تھیوری اور عملی امتحان کا فاصلہ ایک سال کا کر دیا
گیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ایسے ہی حماقت خیز تجربات کا نام ہے ہمارا نظامِ
تعلیم۔
میری طرف سے یہ چند تجاویز ہیں۔یقیناً ان تجاویز میں ترمیم و اضافہ بھی ہو
سکتا ہے اور ان سے بہتر تجاویز بھی سامنے آسکتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ار
باب حل و عقد اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کریں اور اس کی بابت سوچنے اور
منصوبہ بندی کےلیے آمادہ ہوں ۔میرے نزدیک ہمارے تعلیمی نظام کو لگا ہو
ٹیوشن کا یہ دیمک ہماری غلط نصابی اور امتحانی حکمت عملی کی دین ہے ۔ جس
طرح کسی بھی نظام میں کام کے مراحل کو مشکل اور پیچیدہ بنانے سے اس میں بد
عنوانی کے راستے کھلتے ہیں ۔اسی طرح نصاب تعلیم اور نظام امتحان کی مشکلات
اور پیچیدگیاں ہی اس وباء کے پھیلنے پھولنے کی ذمہ دار ہیں ۔ جب تک ان کو
دور نہیں کیا جائے گا اصلاح کے پہلو سامنے نہیں آئیں گے ۔ہمار االمیہ یہ ہے
کہ ہم ان مسائل کو سطحی ذہینت کے ساتھ سوچتے ہیں ۔برائی کے درخت کو اکھاڑنے
کے لیے اس کے پتوں کو نوچتے ہیں ۔حالانکہ کوئی بھی بیماری اس وقت ختم ہوتی
ہے جب تک اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
نوٹ۔اگر کوئی اس خرابی کا ذمہ دار مکمل طور پر اساتذہ اور طلباء و طالبات
کو گردانے تو بھی مناسب نہیں ہے ۔اساتذہ اگر اپنی فرائض منصبی دیانت داری
سے ادا نہیں کرتے تو ضرور ان کا محاسبہ ہونا چاہیے ۔مذکورہ خرابی کےلیے سب
سے زیادہ ذمہ داری نصاب تیار کرنے والوں اور امتحانی نظام تشکیل دینے والوں
کی ہے ۔نصابی مشکلات اور امتحانی نظام کی پیچیدگیاں ہی در اصل عملی امتحان
کی بے قاعدگیوں اور بد نظمیوں کی وجہ ہیں ۔نصاب اور امتحانی نظام وضع کرتے
ہوئے ہر سطح کے اساتذہ سے وسیع تر مشاورت کی جانی چاہیے ۔بڑے پیمانے پر
تحقیقی سروے کروائے جائیں اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اعداد وشمار
اور تحقیقی کمیٹیوں کے نتائج کو اخبا رات کے ذریعے مشتہر کیا جائے ۔تاکہ
عوام الناّس کی وسیع تر رائے شامل ہو سکے ۔اس کام کےلیے انتہائی دیانت دار
افراد کا انتخاب از حد ضروری ہے ۔مگر افسوس ہے کہ زیادہ تر نصابی اور
امتحانی پالیساں بند کمروں میں بیٹھ کر تیار کر جاتی ہیں جو چند افراد کے
ذہنی رجحان کی عکاّس ہوتی ہیں۔ایسی محلاّتی پالیساں فقط محلاّت میں رہنے
والے چند فیصد لوگوں کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہیں ۔ملک میں رہنے والے
اٹھانوے فیصد لوگوں کے مفادات کو فقط دو فیصد لوگوں کے مفادات پر قربان کر
دیا جاتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ جتنی شدّومد کے ساتھ محلاّت میں بیٹھ
کر آمریت کا مظاہرہ کرتے ہیں ،باہر نکل کر اتنی ہی شدّومد کے ساتھ جمہوریت
کا راگ بھی الاپتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے پالیسی سازوں کو ہوش کے ناخن
لینے اور ملک کے وسیع ترمفاد میں تعلیمی اور نصابی پالیساں وضع کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔(آمین) |