سنجیدہ علمی انداز یا گمراہ کن طرز

ہمارے ہاں آج کل بہت سے ایسے موضوعات پر” تحقیقی وسنجیدہ“ گفتگو کا آغاز ہو چکا ہے جو نئے بھی ہیں اور اب سے کچھ عرصہ قبل ان موضوعات کو محض جذباتی دائروں میں بند رکھا جاتا تھا۔ ان مباحث و مسائل کو ہمارے بعض علمی وقلمی حلقوں نے خاص نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے اس حوالے سے متعدد سیمینار منعقد کیے، ان سیمینارز میں اس خاص نقطہ نظر کے حامل بلکہ اُس نظریے کے پرجوش حامیوں وداعیوں نے اپنے مؤقف کو جدید اسلوب اپناتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر قبضہ جمانے اور اپنے خاص نقطہ نظر کو الفاظ کی عمدہ ترکیب اور پُرکشش اسلوب نگارش سے حق ثابت کرنے میں اپنی دسترس میں موجود تمام اسباب وسائل اور ہر عوامی و خاص پلیٹ فارم کو استعمال میں لایا ہے۔ اس حلقے کا دعویٰ ہے کہ وہ نت نئی مباحث ومسائل کو روایتی نظر سے دیکھنے کے بجائے جدید سائنٹیفک طریقے سے پرکھتا ہے اور خالی روایتی گھسے پٹے طرز سے اس کا جائزہ لینے کے بجائے جدید سائنسی نقطہ نظر سے ان کی تہہ تک اترتا ہے اور پھر اپنے تمام وسائل اس مقصد کیلئے زیر استعمال لاتا ہے تاکہ ہر سطح پر ان کے اس طریقہ کار اور مقاصد و دعاویٰ کو سراہا جائے اور اسے قبولیت عامہ کے درجے تک پہنچایا جائے۔ ان کے اس طریقہ کار سے ہمارے بہت سے افراد خاص کر نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ بڑا متاثر اور ان کا مداح نظر آتا ہے اور ان معاملات میں اُس طبقے کے اخذ کردہ نتائج ہی کو درست اور حرف آخر قرار دیتا ہے لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ اور واقعی نہیں جتنا اسے سمجھ لیا جاتا ہے اور اس میں دوسروں کی رائے ہی درست سمجھ کر اُس کے دوسرے پہلوﺅں سے بھی نظر چرالی جاتی ہے۔ بلکہ یہی رویہ ہمارے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ اس سبب سے ہر نئے مدعی کو جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے ہی اپنے حمایتی مال جاتے ہیں اور غلط سے غلط نظریے کو بھی قدم جمانے کا پلیٹ فارم ہاتھ آجاتا ہے۔

ہمارے ہاں اس حلقے نے چند سالوں سے اور سابقہ وحالیہ چند مہینوں میں جن مباحث کو اپنی تحقیق و ریسرچ کا موضوع بنایا ہے اُن میں ”دہشت گردی اور غربت، دہشت گردی اور مدارس، دہشت گردی اور جنوبی پنجاب، دہشت گردی اور کالعدم جہادی تنظیمیں“وغیرہ موضوعات نہ صرف سرفہرست ہیں بلکہ ان موضوعات کے حوالے سے اپنے خاص نظریے کا پرچار ہی ان کا واحد مقصد ہے۔ بات آگے بڑھانے سے قبل یہاں دلچسپ لطیفہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا موضوعات میں موضوع سخن دہشت گردی کی کوئی علمی تعریف ان کے پاس نہیں ہے بلکہ ان کی تحریروں سے صاف جھلکتا ہے کہ ان کے نزدیک اس سے مراد عصر حاضر میں جاری”اسلامی جہاد“ ہے اور اس کا سبب فقط اتنا ہے کہ امریکہ ودیگر عالمی غنڈوں نے جہاد کو دہشت گردی قرار دیا ہے اس لیے ہمارے اس بزغم خویش تحقیقی حلقے نے بھی جہاد کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ ان کی کاوشوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرنا اور کہاں کہاں انہیں ٹھوکر لگی ہے اس کی نشاندہی کرنا اگرچہ کچھ مشکل نہیں مگر اس کی ضرورت نہیں اول اس لیے کہ جب ان کی اصولی سوچ ہی غلط ہے تو پھر صرف ان کی اصولی فکری غلطی کی نشاندہی حقیقت جاننے کیلئے کافی ہوگی ۔ تمام جزئیات و ذیلی واقعات کے تجزیے کی حاجت نہیں ۔ دوسرے اس لیے کہ ان میں سے اکثر خود اپنی غلطی سے واقف ہیں اور اپنے دل و دماغ میں یہ بات رکھتے ہیں کہ ہم جس سوچ اور نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش میں ہیں وہ غلط سوچ ہے جو صرف عناد حسد اور کج فہمی کا شاخسانہ ہے۔

اس حلقے کی پہلی بنیادی اور اصولی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ”جہاد“ کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیا ہے اور اگر یہ صاحبان اس حقیقت کے منکر ہیں تو پھر ان دونوں میں کوئی واضح حد فاصل کیوں نہیں کھینچ دیتے جس سے متلاشیان حقیقت یہ سراغ پا سکیں کہ جہاد کی حدود کیا ہیں اور دہشت گردی کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ان کی حالت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ اسلام کے مقابلے میں مشرکین و منافقین کی تھی وہ لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق کو فساد اور تفریق و انتشار کا باعث کہتے تھے اور پھر خود ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے تھے کہ جو چیز تفریق وانتشار کا باعث اسے ٹھکرا دینا چاہیے اور چونکہ یہ دعوتِ اسلام بھی شرک وکفر کے ایوانوں میں تفریق وانتشار کا باعث ہو رہی تھی اس لیے دعوتِ اسلام کو ٹھکراتے تھے کہ اس کی وجہ سے ہمیں اپنے آبائی دین سے ہاتھ اٹھانا پڑتا ہے۔ جس کیلئے ہم تیار نہیں، اسی طرح اس حلقے کی عقل پر بھی پردہ پڑ گیا ہے اور وہ یہ سوچنے سے قاصر ہے کہ اگر موجودہ نام نہاد عالمی طاقتوں کی کمزور اور نہتے ملکوں پر یلغار دہشت گردی نہیں ہے(تبھی تو یہ لوگ اس کا اقرار نہیں کرتے)تو پھر اپنے دفاع کیلئے یا کمزوروں کی مددونصرت کیلئے میدان میں اترنا کیوں دہشت گردی قرار پاتا ہے ؟ اور صرف یہی مسلمہ حقیقت نہیں جو ”حق دفاع“ کہلاتی ہے بلکہ ایک اور مسلمہ حقیقت بھی ہے جو موجودہ حالات نے ہماری نظروں سے اوجھل کردی ہے وگرنہ اگر وہ صورتحال پیش آجائے تو اسے بھی دہشت گردی قطعاً قرار نہیں دیا جاسکے گا ۔ وہ یہ کہ اگر اہلِ اسلام ،اسلام کی نشر واشاعت کیلئے پرامن اور دعوت واصلاح کے طریق سے قدم بڑھاتے ہیں مگر کچھ قوتیں چاہے وہ افراد ہوں، کوئی قوم ہو یا کوئی ملک ہو اس پرامن دعوت کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے تو اس کو زوروقوت سے راستے سے ہٹانا بھی جہاد ہی ہوگا نہ کہ دہشت گردی کیونکہ یہاں مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ جو طاقت، حق کے راستے میں رکاوٹ ہو اسے کاٹ دیا جاتا ہے جیسا کہ چوروں اور ڈاکوﺅں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی سزاﺅں کے حوالے سے پوری دنیا میں وضع کردہ قوانین اس دعویٰ کی صداقت کے شاہد عدل ہیں۔

دوسری غلط فہمی جو اس حلقے کی جانب سے پھیلائی جاتی ہے جس کے پس منظر میں تعریض اور طعن وتشنیع کا پہلو بھی کام کررہا ہوتا ہے وہ یہ کہ دہشت گردی کے پنپنے کا ایک اہم عنصر غربت ہے،غریب لوگ ،معاشی طور سے بدحال لوگ دہشت گردوں کے ورغلانے میں آکر ان کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ اس غلط فہمی کے سلسلے میں دو باتیں ذہن میں رہنی چاہئیں۔ اول یہ کہ اس قسم کا دعویٰ کوئی نیا نہیں بلکہ ہر دور میں حق اور سچ کی آواز پر لبیک کہنے والے غریب لوگ ہی کثرت سے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر انبیاء اکرام علیہم الصلوٰة والسلام کی تاریخ میں یہ واقعات ملتے ہیں کہ ان کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے والے”بڑے لوگوں“ کا ایک شیطانی وسوسہ یہی ہوتا تھا کہ ”اس“ پر ایمان لانے والے اکثر غریب ومسکین ہیں جنہیں”مختلف وعدوں“ کی امیدوں پر ”اس“ نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے وگرنہ اگر یہ حق اور سچ ہوتا تو ہم جو دنیاوی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں اور معاشی لحاظ سے نہایت مستحکم ہیں بھلا کیوں”اس“ کی اتباع سے محروم رہتے؟جہاد اور غربت کا شوشہ چھوڑنے والوں کی مثال اور حالت بھی انہی سے ملتی جلتی ہے گویا: پرانے شکاری، نیا جال

کیونکہ ان لوگوں نے دعویٰ وہی لے لیا البتہ ملمع ساز اسلوب نگارش نیا اختیار کر لیا۔ورنہ ان مدعیان سے کوئی یہ پوچھے جناب!مجاہدین، غریب لوگوں کو یقیناً معاشی لحاظ سے وہ کچھ نہیں دے سکتے ہوں گے جو اس وقت ان کی مخالف عالمی برادریاں دے سکتی ہیں،پھر آخر کیا وجہ ہے تہارے تمام منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں اور مجاہدین ہر بار دبانے کے باوجود ابھر ابھر سامنے آتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ بات یہ نہیں بلکہ یہ مجاہدین غریب لوگوں کو بڑے بڑے”جھوٹے وعدوں“ پر بہلاتے ہیں کہ جی جہاد سے یہ ملے گا اور وہ ملے گا وغیرہ وغیرہ اور ظاہر ہے ہم ایسے ”سہانے باغ“ کیسے دکھا سکتے ہیں ۔ تب سوال یہ ہے کہ جناب آپ یہ سہانے باغ کیوں نہیں دکھا سکتے۔ کیا اس وجہ سے کہ یہ جھوٹ میں شامل ہوگا؟ تو قطع نظر آپ کی”صداقت“ کے اتنا عرض ہے کہ جناب آپ کے زعم میں اس دہشت گردی(جہاد) سے جو بے انتہا جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں ایک اتنے سے جھوٹ سے کیا حرج لازم آتا ہے۔ اس موقع پر آپ کو یہ استدلال یاد آجانا چاہیے کہ جب میاں بیوی میں صلح کرانے کیلئے جھوٹ کی گنجائش ہے تو سینکڑوں ،ہزاروں ہی کیا دنیا بھر کی جانیں(کیونکہ اس دہشت گردی سے دنیا بھر کو خطرہ ہے) میاں بیوی کی صلح سے ہزار درجے زیادہ اہم ہیں بھلا ان کو بچانے کیلئے جھوٹ کی گنجائش کیوں نہ ہوگی؟اس لیے جناب آپ بھی مجاہدین کے مقابلے میں غریب لوگوں کو ان کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کیلئے ایسے ”سبز باغ“ دکھایا کریں۔ لیکن قارئین! ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ مجاہدین کے ”سبز باغ“ کی پشت پر قرآن وحدیث کی طاقت موجود ہے جو سعادت مندوں کو اپنی طرف پوری قوت سے کھینچ لیتی ہے اور انہیں سعادتوں سے نواز دیتی ہے وہ ایک ایسی سچائی ہے جسے لاکھ جھٹلانے کی کوشش کی جائے آسمان پر تھوکا اپنے منہ پر ہی آئے گا۔ جبکہ ان مخالفین جہاد حلقوں کے پاس سچائی نام کی کوئی چیز نہیں اس لیے لفظی ہیر پھیر کے چکر تو خوب چلالیں گے مگر میدان حقیقت میں غائب نظر آئیں گے۔

رہا ان مدعیان کا”دہشت گردی اور مدارس“ کا جھوٹا واویلا تو اس موضوع پر پہلے کئی نشستوں میں گفتگو ہو چکی ہے جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ”دہشت گردی اور جنوبی پنجاب“ ایسا موضوع ہے جس پر آئندہ کسی نشست میں بات ہوگی۔ انشاءاللہ
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344435 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.