ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں
میں سے ایک پیغمبر ایسے بھی گزرے ہیں جن کی قوم کی اللہ تعالیٰ نے اپنی
نافرمانی کی پاداش میں زبان بدل دی اور ان کو فہم و بلاغ کے عذاب میں مبتلا
کر دیا۔ایک ہی زبان بولنے والے جب ایک دوسرے سے بات کرتے تو ایک دوسرے کی
بات نہ سمجھ پاتے۔اس عذاب نے ایک ہی قبیلے اور ایک ہی خاندان کے لوگوں کو
ایک عجیب سے نفسیاتی عذاب میں مبتلا کر دیا۔آج ہم پر بھی یہ عذاب ایک دوسرے
اندز سے نازل کیا جارہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جنہیں لازمی انگریزی نے
پہلے سے ہی فہم و ابلاغ کے عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا اب اس کے ساتھ سائنس،
ریاضی اور معاشرتی علوم بھی انگریزی میں پڑھنا لازمی ٹھہرا ہے۔ چھٹی جماعت
تک جو بچے لازمی انگریزی کے ساتھ باقی تمام مضامین اردو میں پڑھ کر آئے ہیں
انہیں بھی یکدم سائنس، ریاضی اور معاشرتی علوم انگریزی میں پڑھنے پر مجبور
کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے ہمارے حکمرانوں کی کنپٹی پہ بندوق
رکھی ہو اور کہہ رہا ہو کہ فوراً اپنی قوم کو انگلش میڈیم بنا دو ورنہ یہ
گولی دماغ کے آر پار ہو جائے گی۔ کہیں پہ مشاورت کا نام و نشان نظر نہیں
آتا۔ اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ باہمی معاملات میں
آپس میں مشورہ کر لیا کرو۔ بزرگوں نے اسی لیے فرمایا کہ مشورہ تو دیوار سے
بھی کر لینا چاہیے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والے
دیوار سے بھی مشورہ کرنے کے روادار نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ماں باپ کی نافرمانی
ہے۔ انسان کا جو رشتہ ماں باپ سے ہوتا ہے وہی اپنی قومی اور مادری زبان سے
ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ بے تکلفی سے اظہارِ خیال کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
تحریری اور تقریری طور پر اس سے اظہارِ خیال کا یہ ذریعہ چھیننا اسے ایک
بڑے نفسیاتی عذاب میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ قوم
اپنی قومی اور مادری زبان کی قدر نہ کرنے کی پاداش میں انگریزی چاٹنے کے
عذاب میں ڈال دی گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کمرہ
جماعت میں قومی زبان اردو کے ساتھ ساتھ علاقائی یا مادری زبان کا استعمال
بھی کیا جائے تو فہم و ابلاغ بہترین انداز میں ہوتا ہے مگر حکومت پنجاب
کلاس روم میں ہر ممکن انگریزی بولنے کی ہدایات جاری کر رہی ہے۔ ہم اس مافوق
الفطرت شخص سے ملنا چاہیں گے جو انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب کو انگریزی بول
کر ہی معصوم بچوں کو سمجھائے۔ یونیسکو کی 2009 میں چھپنے والی رپورٹ مذکورہ
نازل شدہ عذاب کے نتائج کی کس طرح عکاسی کرتی ہے آئیے اسے اعدادو شمار کے
آئینے میں دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں پندرہ فیصد بچے پہلی جماعت سے سکول چھوڑ
جاتے ہیں، پچاس فیصد پرائمری پاس کرنے سے پہلے سکول سے بھاگ جاتے ہیں۔ صرف
دس فیصد میٹرک کا امتحان دے پاتے ہیں، ایک فیصد بی اے کا داخلہ بھیجنے میں
کامیاب ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف 23 فیصد پاس ہوتے ہیں باقی زیادہ تر
انگریزی میں فیل ہوتے ہیں۔ یہ خطرناک اعداد و شمار انگریزی لازمی کے عذاب
کا ہی نتیجہ ہیں۔ اس عذاب کی شدت میں اضافہ کیا رنگ لائے گا اس کا ندازہ
لگانا مشکل نہیں ہے۔ آئندہ دو سالوں میں 70 سے 80 فیصد بچے مشکل اور غیر
فطری نصاب سے گھبرا کر سکول چھوڑ جائیں گے۔ ابتدائی عمر میں سکول سے بھاگنے
والے چور، ڈاکو ، دہشت گرد اور معاشرے کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے تو اور کیا
کریں گے؟ ایک طرف انتہائی خطرناک صورتِ حال پیدا کی جا رہی ہے اور دوسری
طرف 4 اپریل 2010 کو جناب خادمِ اعلیٰ پنجاب کا تمام اخباروں میں چھپنے
والا اشتہار کہ " 2012 میں شرح خواندگی 100فیصد ہو جائے گی " کتنا مضحکہ
خیز ہے۔ جو تعلیم کش پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں ان سے تو ایک ہزار سال میں
بھی شرح خواندگی سو فیصد نہیں ہو سکتی۔ محترم خادمِ اعلیٰ کا یہ بیان بھی
ایک روپے میں روٹی فراہم کرنے جیسا ہے۔ تعلیم میں بہتری کبھی نہیں آ سکتی
جب تک آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی بینک اور یو ایس ایڈ کے چنگل سے
نجات نہیں ملتی۔ پنجاب کی بدقسمتی یہ ہے کہ تمام منصوبے انہی لہو چوس
اداروں کی وساطت اور امداد سے چل رہے ہیں۔ خادم، اعلیٰ صاحب کتنے آزاد ہیں
ذرا اپنے پروں کو تو تول کر دیکھیں اور پھر کریں اس طرح کی باتیں۔ ان کی
ایسی ہی باتوں سے وہ مصرعہ یاد آ رہا ہے کہ" جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا
دینے لگے" |