موت ایک اَٹل حقیقت ہے یہ ہر جاندار کے لیے ہے اور ہر جگہ
جلوہ گَرہے کوئی اس سے بچ نہیں سکتا اور نہ یہ کسی کوچھوڑ سکتی ہے ۔ اس کا
کام ہی رختِ ہستی کے پُرزے اُڑانا ہے ۔ یہ دُنیاایک بے وفا ساتھی کی مانند
ہے ہمارے حکمرانوں کے یہ تاج و تخت آج ایک کا ہے تو کل دُوسرے کا، اقتدار
کی یہ دیوی بظاہر خوشنما دُلہن ہے جس کے ہزاروں خاوند ہیں مگر ہمارے
حکمرانوں خاص طور پرمسلمان حکمران فرعونِ ثانی بنے بیٹھے ہیں اور اپنی طبعی
موت کو بھول چکے ہیں موت برحق ہے اور ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکنا ہے۔
۳ اکتوبر ۲۰۱۵ کو شاعرِمشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فرزند ڈاکٹر جسٹس
(ر) جاوید اقبال عکسِ اقبال اچانک ہم سے جُدا ہو گئے ہمارے قومی ہیرو کے
فرزند کی موت سے پاکستان کے تمام حساس دل لوگ غم سے نڈھال ہو گئے۔ ایک بڑے
باپ کے بڑے بیٹے کی موت پر ہمارے حکمرانوں کا رویہ قابل افسوس رہا جوکہ صرف
میڈیا پر حسب روایت تعزیت کے بیانا ت تک محدود تھا۔وزیر اعظم سے لے کروزراء
تک سب حلقہ این اے ۱۲۲ کی انتخابی مہم جوئی میں مصروف نظر آئے۔ چاہیے تو یہ
تھا کہ وزیرا عظم خود چل کر اُسی وقت اُن کے گھر جاتے اور ان کی نماز جنازہ
میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین موجود ہوتے، روح اقبال کو
سکون ملتا کہ وہ جس قوم کو خواب غفلت سے جگا کر گئے تھے وہ قوم آج بھی ان
کی اولاد سے وہی محبت اور عقیدت رکھتی ہے جو ان کا حق ہے مگر ہم محسن کُش
قوم ہیں ہم نے ہمیشہ اپنے ہیروز کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
فاطمہ جناح ہو یا ڈاکٹر جاوید اقبال ہم بے ضمیر اور مفادات پرست قوموں کی
صفوں میں کھٹرے نظر آتے ہیں ۔ کاش ہم ڈاکٹر جاوید اقبال کے سوگ میں دو دن
اپنا پرچم سرنگوں کر لیتے ، اپنی نوجوان نسل کو اچھی رویات کا درس کر جاتے
مگر ہم بے حس مردہ ضمیر ہو چکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائیں ہمارے
حکمرانوں کو ہدایت دیں ۔ دُعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر جاوید اقبال کو
غریق رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔
اے روح اقبال ہم شرمندہ ہیں ہم تیری اولاد کو وہ عزت و توقیر نہ دے پائے جس
کی وہ مستحق تھی۔ علامہ اقبال نے تو اپنی کتاب "جاوید نامہ" لکھ کر اپنے
بیٹے جاوید اقبال کی محبت کی نذر کر دی مگر ہم نے کیا کیا؟جسٹس جاوید اقبال
۵ اکتوبر ۱۹۲۴ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ۱۴ سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر
سے اُٹھ گیا۔ عظیم باپ کا عظیم بیٹا اپنے والد کا عکس تھا، گورنمنٹ کالج
لاہور سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی، ۱۹۴۸ میں ایم اے انگلش اور ایم
فلاسفہ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔۱۹۵۴ میں کیمبرج یورنیورسٹی
سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۵۶ میں بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری
حاصل کی اور اپنے کیرئیر کاآغاز لاہور ہائی کورٹ سے بطور ایڈوکیٹ کیا۔ بطور
جج اور بحثیت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ
سینئر جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بھی رہے۔ آپ سینٹ آف پاکستان کے ممبر بھی
رہے۔آپ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائیندگی کا اعزاز
بھی حاصل رہا۔ آپ کئی کُتب کے مصنف بھی تھے آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے
ہلا ل امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ بلا شبہ آپ بڑے باپ کے بڑے ہونہار بیٹے تھے
اﷲ تعالیٰ نے آپکو بے پناہ خدا داد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ پاکستان اپنے
قیمتی ہیرو کے قیمتی بیٹے سے محروم ہو گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے لوگ
صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال کا عکس ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا گو کہ
عظیم لوگ کبھی مرتے نہیں وہ ہمیشہ امر رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ محسن کُش
قومیں انہیں اپنے مردہ ظرف کی نظر کر دیتی ہیں جس طرح ہمارے موجودہ
حکمرانوں نے ان کی وفات پر دنیا داری کے تقاضوں تک انہیں اہمیت دی۔ اﷲ پاک
ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ |