قارئین کرام! آپ حیران ہوگئے ہوں گے۔ بھلا یہ کونسا موقع
ہے نئے سال کے مبارک باد دینے کا۔ ابھی تو اکتوبر چل رہا ہے۔ تو پریشان
ہونے کی ضروت نہیں ہے۔ یہ مضمون آپ کے لیے نہیں لکھا گیا۔ جی ہاں! آپ کیسے
میرے مخاطب ہو سکتے ہیں؟ آپ تو جنوری سے دسمبر تک کا حساب جانتے ہیں۔ آپ تو
صرف یہی جانتے ہیں کہ رمضان روزے کا مہینہ ہے اور دوعیدیں ہوتی ہیں۔آپ کو
تو شاید یہ بھی معلوم نہیں ہیں کہ اسلامی مہینوں کی تعداد کتنی ہے؟ یہ بھی
آپ کے علم میں نہ ہوگا کہ رمضان اسلامی مہینوں میں سے کونسے نمبر پر ہوتا
ہے؟ آپ کو یقینا اسلامی مہینوں کے نام بھی نہ آتے ہوں گے۔
قارئین کرام! ہم خود کو مسلمان ہو کہتے ہیں۔ اگر دنیا میں کہی بھی کوئی غیر
مسلم کسی قسم کی گستاخی کریں تو ہم احتجاجی مظاہرے شروع کر دیتے ہیں۔ تھوڑ
پھوڑ کرکے مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہماری مذہبی غیرت صرف
سٹرائکس تک محدود رہتی ہیں۔ ایک دن، دو دن، ہفتہ، دس دن تک ہمارے اندر
مذہبی جوش رہتا ہے۔ اور پھر ہم ایسے ہی خاموش ہو جاتے ہیں گویا کوئی بھرے
ہوئے غبارے سے ہوا نکال دے۔
قارئین کرام! ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ ہم رمضان کے مہینے میں پکے
مسلمان ہوتے ہیں، وہ بھی صرف نماز کے حد تک۔ اگر دیکھا جائے تو رمضان کے
مہینے میں نمازیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ فجر کی
نماز میں کبھی سردی کا بہانہ نہیں کرتے۔ گرمیوں میں کبھی چھوٹی راتوں کے
وجہ سے ہماری نمازیں قضا نہیں ہوتی۔ جیسے ہی رمضان کا مہینا نکل جاتا ہے تو
گویا نماز کی فرضیت ہی ختم ہو گئی ہو۔ نمازیں غائب ہوجاتے ہیں ۔ مسجدیں
ویران ہوجاتی ہیں۔ دینی جوش و جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور یوں رمضان اور چھوٹی
عید کو بھلا دیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد بعض خوش نصیب مسلمان مقامات مقدسہ کے سفر کی تیاریوں میں لگ
جاتے ہیں۔ گہما گہمی بڑھ جاتی ہیں۔ حج پر وازیں شروع ہو جاتی ہیں۔حاجی اپنے
منزل کے طرف رخ کرتے ہیں۔ جب حج کے دن قریب آجاتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے
مسلمان ہونے کا احساس ہوجاتا ہے۔ قربانی کی ٹینشن ہونے لگتی ہے۔ ریٹس کے
زیادہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ عید کا دن جیسے جیسے قریب آتا ہے، ہمارے
تبصرے بڑھنے لگتے ہیں۔ اور یوں خدا خدا کرکے کسی نہ کسی طریقے سے ایک
ناکردہ گناہ کا بوجھ سمجھ کر قربانی کا جانور خرید لیتے ہیں۔ عید کا آتا ہے
تو قربانی کرتے ہیں اور خود کو یوں محسوس کرتے ہیں گویا ایک پہاڑ سر سے اتر
گیا ہو۔
بڑی عید گزرجاتی ہے اور ہم اپنے روز مرہ معمولات کے بھیڑ میں گم ہوجاتے ہیں۔
کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں صرف کمانے اور وقت گزارنے
کے لیے نہیں بھیجا۔ کبھی اپنی اور اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں نہیں سوچا۔
کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمارا حشر کیا ہوگا۔ نماز کی
فرصت نہیں ملتی۔ قرآن قسم کھانے کے رہ جاتا ہے۔ جھوٹ کو کوئی گناہ نہیں
سمجھتا۔ دھوکہ کاروبار کا حصہ بنایا جاتاہے۔ ہر اس تقریب میں شرکت کو بڑی
عزت سمجھا جاتاہے جس میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام
تھوڑے جاتے ہیں۔ اﷲ اور رسول اﷲ کو تو ناراض کرتے ہیں مگر مخلوق کی ناراضگی
منظور نہیں ہوتی۔
وقت گزرتا جاتا ہے۔ دن چڑھتا ہے۔ رات ہوجاتی ہے۔ ہفتے گزرجاتے ہیں، مہینے
بیت جاتے ہیں۔ جب رمضان کا مہینا آجاتاہے تو ایک مرتبہ پھر ہم مجتہدین
اسلام ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی اسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ کوئی کہتا ہے ایک روزہ
کھا یا ہے۔ کسی کی نظر میں چاند تیسری کا ہوتا ہے۔ روزے رکھے جاتے ہیں۔
نمازیں پڑھنے لگتے ہیں۔ زکواۃ اداکرنے کے نام پر لوگوں کو قطاروں میں پورا
بٹھا کر ان کی تذلیل کو باعث ثواب سمجھتے ہیں۔
آج وقت ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے بارے میں سوچے کہ وہ کتنا مسلمان ہے؟ اس
کے اندر کتنا دین ہے؟ جس جنت کے انتظار میں ہے کیا اسی کا حقدار ہے؟ یقینا
ہم اس سوچ کے بعد اس جنت کے حقدار بننے کی کوشش کریں گے۔ جو عبادتیں ہم پر
فرض کی گئی ہیں انہیں فرض کے درجے میں اداکریں گے۔ اپنے معاملات کو قرآن و
حدیث کی روشنی میں چلائیں گے۔ اسلامی شعار کو اپنائیں گے۔ اسلامی تاریخ سے
باخبر رہ کر ایک ایک دن کے اسلامی واقعات کو یاد کریں گے۔ خود کو اسلامی
سانچے میں ڈال کر غیر مسلموں کو ایک ماڈل دکھا ئیں گے۔
قارئین کرام! اگر آپ میرے لکھنے کا مقصد سمجھ گئے ہیں تو پر اپ کو کوئی
حیرت اور تشویش نہیں ہوگی۔ ایسے تمام قارئین کے نام ایک پیغام! آپ سب کو
نیا اسلامی سال بہت بہت مبارک۔ |