سال نو مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا وقت ہے خوشیاں
منانے کا نہیں
’’السلام علیکم۔۔۔دوستو!جب انگریزی سال کی شروعات ہوتی ہے یعنی جنوری کا
مہینہ آتے ہی لوگ ایک دوسرے کو تحائف و مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں ۔ تو اب
یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی سال کا مہینہ محرم الحرام کیلئے کتنے لوگ
مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں‘‘ ۔
یہ عبارت ایک صاحب کے فیس بک ٹائم لائن سے من و عن نقل شدہ ہے ۔اس طرح کی
ہزاروں پوسٹ آج سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہے ۔ ہر کوئی اسلامی سال نو کی
مبارکبادیاں پیش کررہا ہے ۔ اس فہرست میں ناخواندہ طبقہ کے ساتھ اہل علم کا
بھی بڑا حلقہ شامل ہے جس میں مدارس کے فضلاء اور مفتیان کرام بھی برابر کے
شریک ہیں ۔بلکہ یہ حضرات ’’کل عام و انتم بخیر‘‘ جیسی عبارتوں کے ساتھ
مبارکبا د پیش کرتے ہیں یہ بتلانے کے لئے یہ خالص اسلامی طریقہ ہے۔
ان حضرات کی خد مت میں انتہائی ادب کے ساتھ یہ سوال ہے کہ کیا دور صحابہ
اور قرن اول میں سال نوپر مبارکبادی پیش کرنی کی کوئی مثال ملتی ہے ۔حضرت
صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں اس کی کوئی نظیر ہے ۔ براہ کرم ضرو ر
بتائیے گا ؟؟
اسلامی سال نو پر مبارکباد پیش کرنے کی وجہ سامنے یہ آئی ہے کہ عیسائی ،یہودی
اور دیگر مذاہب کے لوگ یکم جنوری کی آمد پر تحائف پیش کرتے ہیں ۔ خوشیاں
مناتے ہیں۔ رنگا رنگ تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ تو مسلمان اپنے شعار کو
زندہ رکھنے کے لئے یکم محرم الحرام کی آمد پر یہ سب کیوں نہ کریں ۔ سال نو
کا جشن کیوں نہ منائیں ۔ گویا جشن منانے کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی مناتے ہیں
تو ہم بھی منائیں ۔ دیگر مذاہب کے لوگ یکم جنوری کو رنگا رنگ تقریب کا
اہتمام کرتے ہیں تو ہم مسلمان بھی یکم محرم کو یہ سب کریں۔ یہ صحیح ہے کہ
اسلام نے ہر عمدہ چیز کو اخذ کرنے کا حکم دیا خواہ وہ کہیں بھی ہو ۔ لیکن
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے دین اسلام میں کسی بدعت سیۂ کا اضافہ کرلیا
جائے ۔ کسی قوم کے عمل کو اسلامی شعار بنالیا جائے ۔کارثواب سمجھ کر اس پر
عمل کیا جائے ۔مسلمانوں کی اس بے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ سال نو کی
آمد پر مبارکبادیاں پیش کرنے والے ۔ تحفہ و تحائف تقسیم کرنے والے اسے
اسلامی عبادت کا حصہ سمجھ کر کرتے ہیں ۔ ان کا گمان ہے کہ یہ عمل عین اسلام
کے مزاج کے مطابق ہے۔ باعث جرو ثواب ہے۔
کچھ لوگ مبارکبادیاں پیش کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح سے اسلامی
کلینڈر کی یاد تروتازہ ہوجاتی ہے ۔ اسلای تاریخ کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتا
ہے لیکن ان ہی لوگوں سے دو دن بعد آپ پوچھئے کہ آج قمری مہینہ کون سا ہے ۔
تاریخ کون سی ہے تو انہیں کچھ پتہ نہیں ہوگا ۔ اسلامی کلینڈر کے بقا کا
تعلق سال نو کی آمد پر جشن منانے سے نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ روزہ
مرہ کے استعمال میں اسلامی کلینڈر کو شامل کیا جائے ۔ اپنے معمولات اس کے
مطابق انجام دیئے جائیں۔ آفس اور دفاتر کے نظام میں قمری تاریخ کو نافذ کیا
جائے لیکن افسوس کہ اس جانب کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے ۔ مبارکباد پیش کرنے
تک ہی تمام جدوجہد محدودرہتی ہے ۔ تاریخ پیدائش و فات بھی وہ قمری ماہ کے
اعتبار سے یاد نہیں رکھتے ہیں۔ اکثر مدارس اسلامیہ میں بھی اسلامی کلینڈر
کا کوئی اعتبار نہیں رہ گیا ہے ۔ ان کے یہاں اس کے مطابق کوئی کام نہیں
ہوتا ہے ۔ مدارس کے علاوہ لوگوں کو تو اس سے کوئی مطلب ہی نہیں ہے کیوں کہ
ان کے نزدیک دینی واسلامی امور کی حفاظت صرف اور مدارس کے طلبہ اور اساتذہ
کی ہے اور ان کا یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ مدارس والوں کو کم ازکم اسلامی
کلینڈر کے اعتبار سے اپنانظام چلانا چاہئے ۔ ماہ وسال کی تبدیلی مبارکباد
پیش کرنے کی گھڑی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ اپنا محاسبہ اور جائزہ لینے کاوقت
ہوتا ہے کہ اب تک ہم کیا کررہے تھے ، گذرے ہوئے اوقات کا استعمال ہم نے
کیسے کاموں میں کیا ہے اور آئندہ کیا کرنا چاہئے ۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق
لے کر روشن مستقبل کی تعمیر کے لئے متفکر رہنا ، زمانہ سے سبق لینا اور
ماضی کی تلخ یادوں کو فراموش کرکے تابناک مستبقل کی فکر کرنا کسی بھی بیدار
قوم کی علامت سمجھی جاتی ہے۔کاش مسلم قوم بھی آج کی تاریخ میں اپنے خوفناک
ماضی اور بھیانک حال کو سامنے رکھتے ہوئے روشن مستقبل کے لئے کوئی لائحہ
عمل طے کرتی ۔ وقت کی تبدیلی کو اپنے حالات کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت
کرنے کے لئے کوئی جامع منصوبہ بندی تشکیل کر تی ۔ |