بیٹی
(Raja Nazeer Ahmed, Rawalpindi)
کل ایک پرائیویٹ چینل پر بلال
قطب صاحب کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موضوع جتنا سنجیدہ تھا اتنا
ہی اہم ۔ لاہور میں باپ بیٹے نے ملکر اپنی بیٹی کو صرف اس لیے قتل کر دیا
کیونکہ وہ گول روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ مظفر گڑھ میں ایک شخص نے اپنی
میڈیکل ڈاکٹر بیٹی کو صرف اس لیے قتل کر دیا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے شادی
کرنا چاہتی تھی۔ مذکورہ پروگرام میں بلال قطب صاحب نے دو سوشل ورکرز خواتین
کو مدعو کیا ہوا تھا جو ٹیلی مواصلاتی رابطہ میں تھیں جبکہ بلال صاحب کے
ساتھ دو شخص موجود تھے جن میں ایک علم دین تھے اور دوسرے ایک سیکولر سکالر۔
یہ واقعات ٹیڈی کی نظر سے اخبارات کے ذریعے بھی گزر چکے تھے، جہاں این جی
او زدہ خواتین نے مذکورہ واقعہ کو اپنی اپنی بساط اور اوقات کے مطابق
ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی پزیرائی کی،اسی طرح میڈیا نے بھی اپنی اپنی
ریٹنگ بڑھانے کے لیے مظلوم کی آواز بننا پسند کیا۔ بلال قطب صاحب ویسے
توایک درویش صفت آدمی ہیں اور اچھی باتیں کرتے پائے جاتے ہیں لیکن اس
پروگرام میں ان کا اورپروگرام میں موجود دیگر مفکرین کاجو رویہ حاضر مولوی
صاحب کے ساتھ تھا وہ قابل دید تھا۔ حاضرین کے رویہ سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ
مذکورہ واقعات میں قاتلوں نے سٹوڈیو میں موجود مولوی صاحب سے پہلے شرعی طور
پرقتل کا فتویٰ لیا اور اس فتویٰ کی روشنی میں اپنی لخت جگروں کو راہ عدم
کیا۔
جہاں بیٹیوں ، عورتوں ، بچوں اور حتیٰ کہ مردوں کا قتل گناہ عظیم ہے وہاں
کسی پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے، اپنی شہرت کے لیے اور معاشرے کو بدنام
کرنے کے لے ، کسی کی تزہیک کرنا بھی گناہ ہی ہے، اور ایسے واقعات کی آڑ لے
کر مذہب کوذمہ دارٹھہراناسراسر جہل ہے۔ ہمارے ہاں این جی او زدرہ عورتیں
صنف نازک کی رکھوالی پر مامور ہیں، جن سے نا صرف ان کو خود پزیرائی ملتی ہے
بلکہ ملک خداداد کے بارے میں مغرب کی رائے لینے کا بھی امکان پیدا ہو جاتا
ہے۔ یہاں یہ نام نہاد’’عورتیں‘‘ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ مغرب میں عورت کو
اپنی زندگی گزارنے کے لیے نہ صرف معاشرہ بلکہ اپنے آپ سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔
وہاں عورت کو شادی سے پہلے بچہ جننا پڑتا ہے اور اگر مرد راضی ہو تو شادی
کی جاتی ہے ورنہ انعام کے طور پر بغیر لائسنس کے بچہ جو جنا گیا عورت کی
ملکیت گردانا جاتا ہے۔ باپ اپنی ہی اولاد کو اپنی اولادتسلیم نہیں کرتے
نتیجہ میں اولاد جو بیٹی بھی ہو سکتی ہے اور بیٹا بھی اس خوبصورت رشتہ سے
محروم رہتی ہے، بعد میں اولاد کو ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے
کہ فلاں ہمارا باپ ہے اور ہم فلاں خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔
جس سوسائیٹی میں ٹیڈی رہتا ہے وہاں ایک بیٹی کا باپ ہونا اتنا بڑا فخر ہے
کہ دنیا میں شاید ہی کوئی رشتہ اس رشتہ جیسا ہو۔ بیٹی کی پیدائش سے لے کر
اس کے گور کفن تک کی رسومات باپ اور بھائیوں کے ذمہ ہیں اور بیٹی بوڑھی بھی
ہو جائے تو وہ اپنے باپ کے کندھے پر سر رکھ کر اور اس کے سینے پر لیٹ کر
سونا پسند کرتی ہے۔ بیٹی کے پاس دنیا میں باپ سے زیادہ مضبوط سہارا کوئی
نہیں ہوتااور خوش قسمتی یہ رشتہ صرف مشرق ہی میں پروان چڑھا ہے۔ بھائی رانی
کے رکھوالے ہوتے ہیں جنہوں نے اسے سکول سے بھی لانا ہوتا ہے اور سسرال سے
بھی، عیدشب برات پر اس کو سویاں پہنچانی ہوتی ہیں اور نواسے /بھانجے کی
پیدائش پر اس کو کالا جوڑا بھی دینا ہوتا ہے۔ ٹیڈی نے تو اس دفعہ ۱۴ اگست
پر اپنی چھوٹی بہن کو باقاعدہ پاکستان کا جھنڈا دیا تھا تاکہ وہ اپنے گھر
پر لہرا سکے۔
مغرب کاراگ الاپنے والے ذرا ٹھہر کر نبی اکرم ﷺ کا اپنی بیٹی کے ساتھ سلوک
ہی پڑھ لیں، جہاں بیٹی کی محفل میں آمد پر اپنی کالی کملی بچھائی جاتی تھی۔
ملک خداداد کا معاشرہ بھی نہ صرف انہی اصولوں اور رشتوں کی اثاث پر ہے بلکہ
اپنی اولاد کی پروٹیکشن ہر والد کی اولین ترجیحات میں ہے، جہاں باپ کوکا
فخر ہے اورباپ بیٹی کا۔ اس لیے نہیں کہ وہ کمزور ہے بلکہ اس لیے کہ اس کا
باپ اس دنیا میں اس کے لیے سپر مین ہے۔ تھوڑے کو بہتے پر ترجیح دے کر
موضوعِ بحث لانا کہاں کی دانشمندی ہے۔
اولاد کا قتل صرف ایک بیمار ذہن کی پیداوار ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ، اس
بزدلی کا ذمہ دار معاشرے کو کہنا یا مذہب کو ٹھہراناکسی طور درست نہیں۔
ابھی آج ہی کی بات ہے کہ ٹیڈ ی کی ملاقات ایک ایسے عمر رسیدہ شخص سے ہوئی
جو ابھی ابھی چلہ لگا کر واپس آیا تھا اور وہ اپنی اولاد سے صرف اس وجہ سے
ناراض تھا کہ وہ پینٹ پہنتے ہیں جو کافروں کا لباس ہے۔ موصوف اپنی اولاد کو
گھر سے نکال دینا چاہتے تھے لیکن امر مانع یہ تھا کہ گھر کرائے کا تھا ،
اور کرایہ ان کے بچے ہی ادا کرتے تھے۔ ٹیڈی نے ان حضرت صاحب کو نو ماہ کا
چلہ بطور نسخہ تجویز کیا،کہ ایسی نا ہنجار اولاد سے دور رہنا ہی نیکی کے
زمرہ میں آتا ہے۔ گھر سے اولاد خارج نہیں ہو سکتی تو کم از کم خود ہی منفی
ہو جائیں۔ موصوف نے ٹیڈی کا مشورہ ہاتھوں ہاتھ لیا اور ڈھیر ساری دعائیں
دیں جو ان کو اپنی اولاد کے لیے کرنی چاہئیں تھیں۔ حضرت کی رخصت کے بعد
ٹیڈی اس گناہ کا بوجھ لیے گھر آیا اور دیر تک رنجیدہ رہا۔ ایسے بیمار ذہنوں
کاعلاج مولانا طارق جمیل کے پاس موجود ہو سکتا ہے لیکن شاید ٹیڈی کے پاس
نہیں۔ہمارے معاشرہ میں اس ذہنی بیماری کی بھی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سر
فہرست تعلیم اور اولاد سے دوستی کا فقدان ہیں۔ علاج کے طور رپر ٹیڈی دنیاوی
و دینوی تعلیم کا مشورہ لکھتا ہے اور ایسے ماحول کا متمنی ہے جہاں والدین
اولاد سے اور اولاد والدین سے دوستی رکھے۔ |
|