گھور اندھیرے میں اک دیا

ہر سُو انسا ن ہی انسا ن ہیں ،لیکن انسا نیت نہیں، انسا نیت سسک رہی ہے۔ کہیں گلیو ں میں، کہیں چو راہو ں پر ۔ اس با ت کو ثا بت کر نے کیلئے اگر ضر ور ت محسو س کر و ں تو سمجھیں کہ راقم کے اند ر بھی انسا نیت نہیں ۔ انسانیت جب مر رہی ہے تو معا شر ے کی اس بھیڑ میں چند ایسے بھی ہیں جو زند ہ ہیں۔ یہ بظاہر تو سا نس لے رہے ہیں لیکن ان چند میں سے کچھ کی سا نس بہت سو ں کو مو ت کی طر ف دھکیل رہی ہے۔ کچھ اپنے شعو ر ، انسا نی رویے اور اخلا ق کی بنا ء پر زند ہ ہے جن کو مر دہ کر نے کے لئے ہر حر بہ بروئے کا ر لا یا جا رہا ہے۔ اس کو شش میں کو ن کو ن شا مل ہے ؟ تو بتا تا چلوں کہ اس میں غیر و ں کے بجا ئے گھر کے بھید ی زیا دہ حصہ ڈا ل رہے ہیں ۔ ان علم والو ں کو مر دہ کر نے کیلئے چند علم والے ڈر، خو ف سے سو ئے ہو ئے ہیں یا خو اب ِ غفلت میں ہیں یا پھر کہہ سکتے ہیں کہ جا ن بو جھ کر آنکھیں بند کیے ہو ئے ہیں ۔کچھ جن کو خد ا پر پختہ یقین ہے اور ان کو معلو م ہے کہ اس دنیا میں نا م اسی کا با قی رہتا ہے جس نے عملاََ انسا نیت کی بہتر ی کیلئے ایسے کا م اور کو شش کی ہو جس سے معا شر ے میں بہتر ی آ ئے۔ اورطر ز زند گی اس لیو ل پر نہ آ ئے کہ جس سے ہما را معا شر ہ پوری دنیا میں بد بو دار مثا ل بن کر رہ جائے۔ معا شر ے کی اصلا ح کر نے والے باذوق، اعلیٰ اقد ار اور درویش لو گ اپنا عمل وقف کر دیتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہو تے ہیں جو اپنی ذات سے نکل کر انسانیت کیلئے سو چتے ہیں ، معاشر ے کیلئے سو چتے ہیں۔ جب پورے معاشر ے کے مفا د میں سو چا جا تا ہے ۔ تو انا ء اور ذاتیا ت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے جو بازاروں ، چو راہو ں کے سٹیجو ں پر کھڑ ے ہو کر سر عام لمبی لمبی تقر یر ں کر کے اپنے حلقہ احبا ب میں اپنے شعو ر کی تعر یف کے عا دی ہو ں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ عمل کر نے والے ہمیں نظر نہیں آتے۔ بہت سے لو گ ہیں۔بہت سی مثا لیں ہیں جودرج کر سکتے ہیں ۔ مگر یہا ں پر با ت صر ف اتنی کہ اعمال کا دارو مد ار نیتو ں پر ہو تا ہے اور کسی مفکر نے کیاخو ب کہا ہے کہ ہما ری نصیحت کسی پر تب اثر کر تی ہے جب ہما ری سو چ، نیت اور عمل پا ک ہوں ۔ معا شر ے کی فلا ح کیلئے بہت سے نیک اور پا رسا لو گ مو جو د ہو ں ۔ وہی جن کے دعو ے بہت بڑ ے ،پھر یہا ں عقل نہیں ما نتی کہ ایسی کو ن سی وجہ ہے کہ تبد یلی نظر نہیں آ تی۔ خا ص طور پر علم ہو نے کے با و جو د جہا لت کا زور ہے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ آ تی ہے کہ ہم عو ام یہ سو چتے ہیں کہ مو لو ی نے اسلا م سنبھال لیا ، حکو مت نے انصا ف قا ئم کر دیا۔ پو لیس نے چو ری ڈا کے کنٹرول کر لیے ہیں اور علم ہما رے بچو ں کو سکول و کا لج سے مل جا ئے گا۔ کیا ہم سب کی ذمہ داری نہیں بنتی ؟ آ یا وہ ذمہ داری سے دست بر دار ہو جا تے ہیں صرف لو ازما ت پو رے کر کے، کہ مو لو ی اسلا م سنبھال لے گا ، حکو مت انصاف قا ئم کر دے گی ،پو لیس ڈاکے روک دے گی اور والد ین سکو ل کا لج کے قا ئم ہونے کے بعدیہ بھو ل جا تے ہیں کہ بچو ں کی پہلی درسگا ہ کیا ہے ۔ ۔ معاشرے میں بہتر ی لا نے کیلئے ایک ایک فر د کیانہیں کر سکتا ؟ برطانیہ ایک جد ید اور ترقی یا فتہ ملک ہے۔ جہا ں فیشن و ٹیکنا لو جی کا راج ہے۔ وہاں پر آپکو اپنے آ س پا س کے لو گو ں کو اسلا م کی راہ پر لا نا اور قر آ ن پا ک کو لفظ با لفظ تر جمے کیساتھ سمجھانے کی کو شش کرنا بہت ہی غیر معمو لی کا و ش ہے ۔

ایک طر ف نئے فیشن کی بھر ما ر ہو تو اس عو رت ذات کی اس دور میں اور وہ بھی برطانیہ جیسے ملک میں کا میا بی کو غیر معمو لی کا میا بی کہہ سکتے ہیں۔جو ایک زند ہ مثا ل ہے۔ اس طر ح معا شر ے میں دینی تعلیم کے فر و غ کیلئے جو کو شش کی جا رہی ہے اس سے بڑ ا جہا د آ ج کے دور میں نہیں ہو سکتا ۔محتر مہ فا ئز ہ غنی صاحبہ جو بچپن سے بر طا نیہ میں رہ رہی ہیں ان کی نیچر کو دیکھ کر محتر مہ سلمیٰ بتو ل صا حبہ جو پاکستا ن میں خو اتین میں اسلا می تعلیم کے فر و غ کیلئے نما یا ں نا م رکھتی ہیں۔ انہو ں نے محتر مہ فا ئز ہ غنی صاحبہ کو اپنی نظر سے پہچا ن لیا کہ وہ بر طا نیہ میں قرآ ن پا ک کی تعلیم کے معا ملے میں دوسر وں کی فلا ح کیلئے اچھا کا م کر سکتی ہیں ۔ اس با ت سے کو ن انکا ر کر سکتا ہے کہ ایک استا د کا انتخا ب غلط ثا بت ہو ۔ کچھ عر صہ سے محتر مہ فا ئز ہ غنی صا حبہ نے اپنے گھر میں ایسا نظا م ترتیب دے رکھا ہے کہ ہر ہفتے میں ایک دن ایک کلا س کا انعقا د کیا جا تا ہے۔ جس میں قریب اور مقا می شہر ی خو اتین آ تی ہیں اور قر آ ن پا ک کو تر جمے کے ساتھ پڑھایا جا تا ہے اور ساتھ ہی اسلا می تعلیم ، حد یث اور حضور پا ک ﷺ کی طر ز زند گی کے با رے میں درس دیا جا تا ہے۔ محتر مہ کے بقو ل انہو ں نے ایسی کلاس کا آ غا ز کیا توشروع میں صر ف چند عو رتیں آ تیں تھیں اور اب تعد اد میں بہت اضا فہ ہو گیا ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ انہو ں نے آ ہستہ آ ہستہ دلچسپی پید ا کی ، ایک بہت اچھی مثا ل دے کر کہ اگر کو ئی بہت تیز گاڑ ی چلا رہا ہو تو اس کی تیز رفتا ری آ ہستہ آ ہستہ کم کی جا تی ہے ۔اگر ایک دم بر یک لگا ئی جا ئے گی تو نقصا ن کا خد شہ ہو تا ہے۔ اسی طر ح خو اتین میں تر جمے کیساتھ قر آ ن پا ک پڑھنے کا شو ق بڑ ھتا گیا ۔ اوراسی طر ح وہ اپنا مشن جا ری رکھے ہو ئی ہیں۔
Aqeeel Arshad Butt
About the Author: Aqeeel Arshad Butt Read More Articles by Aqeeel Arshad Butt: 2 Articles with 1626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.