کیا انصاف کے دروازے سب کیلئے یکساں کھلے ہوئے ہیں؟؟

ہمارے معاشرے میں انصاف ایک جنس کی مانند ہے جو عدالت میں منڈی کے ان دلالوں کے ہاتھوں بولیاں لگا کر فروخت کیا جاتا ہے جو اسے حا صل کرنے کیلئے سب سے ذیادہ بولی لگا کر خرید لیتے ہیں۔ اگر ہم انصاف کے وسیع تر معانی پر غور کریں تو اسکا مطلب ٹھیک ٹھیک ، بالکل اور جلد از جلد ، عدل، دیانتداری ،راست بازی اور کیس حقدار کو اسکا حق دینا کے ہوتے ہیں۔ مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں عام آدمی کیلئے انصاف کے دروازے میں لگائے جانے والے قبضے اتنے زنگ آلود ہو چکے ہیں جو کمزور اور عام آدمی سے کھلنے نہ صرف محال ہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے اور انصاف کے اس زنگ آلود دروازے کو کھولنے کیلئے طاقتور ہونا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں با آسانی کھولا جا سکے ۔

انصاف کا تصور اپنے اندر وسیع معانی سموئے ہوئے ہے جو ہر معاشرے ، تہذیب اور ثقافت کے لحاظ سے اپنے اندر تغیر پزیری رکھتا ہے۔ اگر انصاف کو اخلاقی تناظر میں دیکھا جائے تو اسکی اساس اور بنیاد قانون، برابری، اخلاقی اقدار، قوت مدرکہ ،مذہب ، ایمانداری اور پاکیزگی پر ہے۔ اکثر عام طور پر گفتگو میں انصاف کو ریاستی طور پر دو گروہوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے ۔ فلسفیانہ طور پر مذہبی تعلیمات ، دستور العمل، تحقیق اور مطالعہ قوانین کے لاگو کرنے میں پائے جاتے ہیں ۔ اگر ہم تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انصاف ہر معاشرے کی ضرورت ہے اور اسے حاصل کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے جو ہر دور میں زیر بحث رہا ہے اور مختلف معاشروں میں اسکے مختلف نظریات رائج رہے ہیں۔ مذہب کی وکالت کرنے والے انصاف کو الوہیت اور معبد سے منسوب کرتے ہیں کہ انصاف اﷲ کا ودیت کردہ ہوتا ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں انصاف کے موضوع پر قانون قدرت پر بحث کرتے ہوئے جان لاک اپنے دلائل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یقینی طور پر حقوق یا اقدار انسان کو قدرتی طور پر ودیت کر دئے جاتے ہیں۔ اور کائیناتی طور پر انکا ادراک انسانوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ تاریخی طور پر اگر ہم قدرت کے قوانین پر نظر دوڑائیں تو یہ انسانون کے معاشرتی اور ذاتی رویوں سے تعلق رکھتا ہے جس میں انصاف حاصل کرنے کیلئے انسانوں کو قوانین کے تابع کر دیا گیا ہے۔ یہ قوانین انسانوں کے اخلاقی رویوں سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ قدرت کے قوانین کائیناتی طور پر وضع کئے جاتے ہیں ۔

ہمارے لئے انصاف کے اصول و ضوابط کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے کہ کیا ہمارے انصاف فراہم کرنے والے ادارے قدرتی انصاف ، معاشرتی انصاف اور قانون کی حکمرانی کے تحت معاشرے میں رہنے والوں کو انکی اصل حقیقت کے تحت انصاف فراہم کر رہے ہیں؟؟ آئیں ہم ان قوانین اور انصاف کی تعریف پر ایک نظر ڈالیں۔
معاشرتی انصاف معاشرے میں رہنے والوں کیلئے قانون کا بے عیب اور مناسب انتظام و انصرام اور بندوبست اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قدرتی قوانین کسی بھی معاشرے میں رہنے والے لوگوں کیلئے بلا امتیاز رنگ و نسل، بلا تفریق ذات پات، بلا تفریق جنس، بلا تفریق طبقات، بلا تفریق مذہب، بلا تفریق زبان سب کے ساتھ یکساں طور پرلاگو ہے جو بغیر کسی عناد اور تعصب اور بد گمانی کے انصاف کے تقاضے پورے کر رہا ہے۔

قدرتی انصاف کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ انصاف فراہم کرنے والا منصف اپنی عدالت میں دائر کردہ مقدمے کے دونوں فریقوں کو سننے کا یکساں موقع فراہم کرے اور اس میں کسی بھی قسم کا ابہام نہ پایا جاتا ہو۔ اور دونوں فریقین کو دلائل کے مکمل مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ منصف کا صادر کیا جانے والا فیصلہ کسی ایک فریق کیلئے قابل اعتراض نہ ہو۔دوئم یہ کہ ایسا کوئی فیصلہ انصاف کے تقاضوں پر پورا ہوتا ہوا نہیں سمجھا جائیگا جس میں منصف پر کسی بھی قسم کا دباؤ ہو، سفارش ہو، ذاتی عناد وابسطہ ہویا پھر کسی قسم کا لالچ جسمیں جنسی لذت کا عنصر، تحفے تحائف اور دولت شامل ہو۔

قانون کی حکمرانی کے تحت انصاف کسی بھی معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کیلئے یکساں طور پر فراہم کیا جائیگا۔ کوئی بھی ریاست کے قانون سے ما ورا قرار نہیں دیا جا ئیگا، تمام شہری قانون کی نظر میں یکساں ہونگے اور اس قانون کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہونگے۔ انصاف ہر کسی کو اسکی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کے تحت فراہم کیا جائیگا۔اسکے لئے وضع کردہ تین اصول ہیں ایک یہ کہ قانون کی پابندی اور سزا دینے کی ذمہ داری میں منصف کی اپنی کوئی رائے یا پسند یا نا پسند کی کوئی اہمیت نہ ہوگی یا پھر اسے کسی قسم کے کوئی صوابدیدی اختیارات حاصل نہ ہونگے۔ کسی کو سزا یا جزا کا حق صرف وہ قانون ہے جو ریاست میں سب پر یکساں لاگو ہے اور اسمیں ریاست کی مداخلت یاپھر ریاستی حکم بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔دوئم ریاست اور افراد کے مابین تمام جھگڑے صر ف وضع کردہ قوانین کے تحت ہی حل کئے جائینگے اور انکا تعین سختی سے قوانین کے تحت ہی ہوگا۔ سوئم یہ کہ ریاست میں رہنے والے تمام افراد اور شہریوں کے بنیادی حقوق جن میں تنظیم سازی، تحریر و تقریر کی آزادی جو قوانین قدرت میں ایک مضبوط جڑ کی حیثیت رکھتی ہے اور چلنے پھرنے کی آزادی وہ بنیادی حقوق ہیں جو کسی بھی ریاست میں رہنے والوں کیلئے مقدم اور معتبر سمجھتے جاتے ہیں ریاست کے آئین میں نہ ہی ان قوانین کو ڈھکے چھپے اندازمیں افراد سے چھپا کر رکھا جائیگا اور نہ ہی کوئی ان سے ما ورا ہوگا۔ تو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ پاکستان جس میں ہم رہتے ہیں جہاں انصاف کی راہ میں حائل ریاستی قوت خواہ وہ سول ہو یا فوجی ہو ہر دو صورتوں میں رکواٹیں ہوں ،جہاں انصاف کا قتل حکمرانوں کی چیرہ دستیوں سے شروع ہوتا ہو، جہاں اہل ہوس کیلئے یہ شعر صادر آتا ہو کہ ـ ’’ بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی ، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں‘‘ یہاں حوا کی بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کرنے والے ہوس پرست ، ہر روز مذہب کے نام پر بے گناہوں کو قتل کرنے والے، جہاں رات کا اندھیرا ہونے پر یا پھر کسی کی زور دار آواز پر حوا کی بیٹی کی چیخیں نکل جاتی ہوں، جہاں ہر روز قانون کو لونڈی بنا کر اس سے بلادکار کیا جاتا ہو، جہاں ہر ایک اس ملک میں اپنے آپکو غیر محفوظ سمجھتا ہو، جہاں مائیں اپنے بچوں کو اسکول بھیج کر انکی مشکوک واپسی کے خوف میں مبتلا رہتی ہوں، جہاں محافظ ہی چور ، ڈاکو اورعصمت دراز بن جائیں، جہاں انصاف کی خرید و فروخت ہوتی ہو ، جہاں ہر روز انصاف کو عدالت کی مقتل گاہ میں قتل کیا جاتا ہو، جہاں انصاف کی راہ میں سیاست کے روڑے اٹکائے جاتے ہوں، جہاں بے گناہوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہو اورقاتلوں ، زناہ کا ارتکاب کرنے والوں اور گھروں کو لوٹنے والوں کو با عزت بری کر دیا جاتا ہوبھلا وہاں ایک غریب اور بے بس کو سوائے رسوائی اور ذلت کے اور کیا ملے گا۔ جہاں پر بڑے بڑے خونخوار اژدھے اپنے پھن پھیلا کربرسا ہا برس سے اس جنگل میں خوف و ہراس کی کنڈلی جمائے بیٹھے ہوں وہاں بھلا کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔یہ طاقتور وں، سیاسی پنڈتوں اور جادو ئی قوت رکھنے والوں کی نشاط ثانیہ یا وہ دور ہے جہاں ہر روز انصاف کے نام پر کھلواڑ ہوتا ہے مگر انصاف کی وہ تمام حدود و قیود جو اس ملک میں رہنے والوں پر لاگوں ہوتی ہیں وہ یکساں نہیں ہیں، وہاں مردہ ضمیروں اور قانون فروشوں کی عدالتیں لگائی جاتی ہیں جہاں ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹا دیا جاتا ہے اور پھر پھانسی کے اس فیصلے کو صادر کرنے والے منصف اسے اپنی غلطی اور بے بسی کہہ کر قوم کو بہلانے اور پھسلانے کی کوششیں کرتے ہوں بھلا ایک عام آدمی ایسے ملک میں انصاف کی توقع کیسے کرسکتا ہے؟؟ جہاں جرم سر زد ہونے سے پہلے قانون کا شکنجہ تنگ کر دیا جاتا ہے اور جرم سر زد ہونے کے بعد مجرموں کو با عزت طور پر بریت سے نواز دیا جاتا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہر دو صورتوں میں انصاف کا طمانچہ منہ دیکھ کر مارا جاتا ہے کہ یہ ہے ہمارا پاکستان۔حالات خواہ کتنے ہی مخدوش اور خراب کیوں نہ ہوں انصاف کی فراہمی کسی بھی قوم کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے آتی ہے۔ امریکا کے صدر ونسٹن چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا کہ اگر امریکہ میں انصاف سب کو مل رہا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت امریکہ کو شکست نہیں دے سکتی۔

Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 141173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.