جعلی حکیموں اور عاملوں کا طریقہ کار

کچھ دن قبل ایک مشہور حکیم وعامل جاوید خان کو دیکھنے کے لئے کشمیر کے ضلع باغ کے علاقہ بیرپانی جانا ہوا،آج کل موصوف کا تذکرہ اور شہرت پورے پاکستان میں ہے، اس حکیم کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے ساتھ افریقہ کے مشہور طبیب جنات کی ایک جماعت کام کررہی ہے چنانچہ حکیم صاحب ہر مرض کا علاج اور جنات کے ذریعہ ہر قسم خصوصا دل کا آپریشن بھی کرتے ہیں۔ مذکورہ حکیم کی سب سے اہم اور متاثر کن بات ہے کہ حکیم صاحب نے تبلیغی جماعت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے چنانچہ سر پر سُنت کے مطابق تبلیغی بھائیوں والی پگڑی، عربیوں والا جُبّہ، شلوار ٹخنوں سے اوپر اور مونچھوں پر استرا بھی پھیرا ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ موصوف نے مریضوں کی انتظار گاہ میں ایک بڑا بینر لگایا ہوا ہے جس پر صرف ایک جملہ لکھا ہوا ہے: ’’اﷲ سے ہوتا ہے اﷲ کے غیر سے نہیں ہوتا‘‘۔ چنانچہ ہمارے ساتھ ایک بہت ہی سمجھدار شخصیت جو صرف اور صرف حکیم صاحب کو پرکھنے کے لئے گئی تھی اور وہاں پہنچتے ہیں انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ سب ڈھکوسلا ہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اس بینر پر نظر پڑتے ہی وہ بھی حکیم صاحب سے متاثر ہوگئے۔

حکیم جاوید کے ساتھ کئی لوگوں کا ایک پورا گروپ کام کررہا ہے، جن کی مختلف ذمہ داریاں ہیں، کچھ لوگ مریضوں کی رش کو کنٹرول کرتے اور لائنیں سیدھی کرنے پر مامور ہیں اور کچھ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے چند ایک جڑی بوٹیوں کو پیسنے اور پانی میں ابال کر مکس کرکے ڈیڑھ لیٹر والی بوتلیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔جو جڑی بوٹیاں کوٹ کر مریضوں کو دی جاتی ہیں وہ کسی خاص مرض کی نہیں ہوتی بلکہ اینٹی بائیوٹیک قسم کی ہوتی ہیں یا معدہ جگر کی اصلاح اورجسم سے گرمی ختم کرنے والی ہوتی ہیں۔ پانی مختلف قسم کی چار پانچ بالٹیوں میں بھرا ہوا ہوتا ہے۔ حکیم جاوید مریض پر ’’شُف‘‘ کرتا ہے اور پھر ایک زور دار تھپڑ سینے پر مارتا ہے اور ایک پرچی پر دوائی لکھتا ہے، لکھتا کیا ہے چند ایک لکیریں پھیرتا ہے جو حکیم اور دوائی دینے والے کے درمیان کوڈ ورڈ کا کام کرتی ہیں۔حکیم کے پنسل پکڑنے کے انداز سے ہی پتا چلتا ہے کہ موصوف ’’چِٹا اَن پڑھ‘‘ ہے۔ پھر دوائی دینے والا ڈیڑھ لیٹر کی بوتل دے کر شکرانہ بکس میں اپنی مرضی سے کچھ ڈالنے کا کہتا ہے، اسی طرح پھکی دینے والا پھکی دے کر شکرانہ بکس میں کچھ رقم ڈالنے کا کہتا ہے۔اگر کوئی شخص کم رقم ڈالے تو اسی وقت میٹھی میٹھی بے عزتی بھی سب کے سامنے کرکے شرمندہ کردیا جاتا ہے۔

آپریشن کے لئے ایک بے ضرر قسم کا انجیکشن لگایا جاتا ہے ، پھر بلیڈ کے ساتھ آپریشن والے مقام پر معمولی سا کٹ لگا کر چار پانچ تھپڑ رسید کیئے جاتے ہیں اور پٹی کردی جاتی ہے۔ بے چارے لوگ گاڑیاں بک کرکے کئی کئی گھنٹوں کا سفر کرکے وہاں پہنچتے ہیں، ظاہر ہے جو ایک بار اتنی دور جاتا ہے وہ دوبارہ اتنا سفر کرنے کی ہمت ہی نہیں کرتا جبکہ نئے نئے مریض ایک بار آزمانے کے لئے ہمت کرلیتے ہیں۔ اس طرح یہ فراڈ کاروبار جاری ہے۔

کچھ مردوں اور عورتوں کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ خود مریض بن کر باقی مریضوں کو جھوٹے قصے کہانیاں اور جاوید خان کی کرامات سناتے ہیں کہ ہمیں فلاں بیماری تھی ہم حکیم صاحب کے دم سے ٹھیک ہوگئے۔ مردان کا ایک سرجن ڈاکٹر دل کا مریض تھا حکیم صاحب نے جنات کے ذریعہ اس کے دل کا آپریشن کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ اس طرح کے کچھ مرد اور خواتین کو پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی چھوڑا ہوا ہے، جو مختلف پبلک مقامات مثلا پبلک ٹرانسپورٹ، ہوٹلوں، پارکوں، اور ہسپتالوں کی انتظار گاہوں میں لوگوں کو حکیم صاحب کی کرامات اورشفایابی کی داستانیں سناتے ہیں۔

حکیم جاوید کے ڈیڑے پر پہنچتے ہیں کچھ خواتین فورا حرکت میں آجاتی ہیں اور مریض خواتین کو گھیرنا شروع کردیتی ہیں، حکیم جاوید بظاہر کسی قسم کی رقم کا مطالبہ تو نہیں کرتا مگر ہدیہ اور شکرانے کے نام پر بے حساب اوپن چندہ بکس لگائے ہوئے ہیں جو صبح سے شام تک بھر جاتے ہیں۔ خصوصا حکیم جاوید کے منہ کے آگے رکھا ہوا بکس تو ہزار ہزار کے نوٹوں سے بھر جاتا ہے۔حکیم جاوید کے چیلوں نے تو یہ بات تک مشہور کی ہوئی ہے کہ ایک مرتبہ آرمی والے آئے اور حکیم جاوید کو اٹھا کر لے گئے لیکن دوسرے دن معافی مانگتے ہوئے اپنی گاڑی میں واپس لا کر چھوڑ دیا، یعنی راحیل شریف بھی حکیم صاحب کے مرید ہیں۔

ایسے جعلی حکیموں اور عاملوں کی بہتات ہے جو معروف اشتہاری مہم کی جگہ نفسیاتی طور پر متاثر کرنے والی اشتہاری مہم چلاتے ہوئے مارکیٹنگ کے لیے ایسے خواتین وحضرات کو استعمال کرتے ہیں جو خود شفایافتہ مریض بک کر پبلک مقامات پر تشہیر کرکے جعلی عاملوں اور حکیموں سے بھاری معاوضہ لیتے ہیں۔عوام کو کسی بھی دھوکہ دہی سے بچنے کے لئے ہر ایک کی بات پر یقین نہیں کرنا چہیے، اصل ذمہ داری تو حکومت کشمیر کی بنتی ہے کہ وہ اس فراڈ کو ختم کرے لیکن شاید کشمیری حکومت اس لئے کچھ نہیں کررہی کہ اس فراڈ کے چنگل میں پھنسنے والے زیادہ تر پاکستانی ہوتے ہیں اور حکومت کشمیر کو روزانہ لاکھوں روپے زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے جس سے وہاں کی حکومت چل رہی ہے۔
 
Syed Abdul Wahab Sherazi
About the Author: Syed Abdul Wahab Sherazi Read More Articles by Syed Abdul Wahab Sherazi: 7 Articles with 6000 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.