زندگی ہر ایک کو ملتی ہے، کسی کو
کم کسی کو زیادہ کوئی اسے با مقصد گزار کر مرجاتا ہے ۔کوئی بے مقصد زندگی
گزار کر مرتا ہے ۔وہ انسان جس کی زندگی بے مقصد ہے، وہ ایک حیوان کی طرح
جیا اور حیوان کی موت مر گیا ۔قرآن پاک میں ایسے انسانوں کو جو غور و فکر
نہیں کرتے ،سوچتے نہیں ان کو حیوان کہا گیا ہے ۔دوسرا وہ انسان ہے ،جس نے
با مقصد زندگی گزاری، اس کے لیے زندگی اور آخرت دونوں میں کامیابی ہے۔
ہمارا مقصد حیات کیا ہے، ہمارا مقصد حیات کیا ہونا چاہیے ؟ان سوالات کے
جواب سے پہلے ہم کو درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں ۔ہم اس دنیا میں
کیوں آئے؟۔ اﷲ نے ہم کو اس دنیا میں کیوں بھیجا ؟۔مرنے کے بعد ہم کہاں چلے
جاتے ہیں؟ ۔کیا ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے آتے ہیں؟ کیا ہم اس دنیا سے
اپنی مرضی سے جائیں گے؟ ۔اربوں ،کھربوں اس دنیا میں آئے اور مٹ گئے ،کتنے
حسین و جمیل لوگ زمین کی خوراک بن گئے ۔
کالم کی لمبائی مخصوص ہے اور باتیں بے شمار ہیں اس لیے میں اپنی گفتگو کو
مختصر رکھوں گا ،یوں بھی آپ صاحب علم ہیں تھوڑے کو زیادہ سمجھ سکتے ہیں ۔اﷲ
نے ہم کو کیوں پیدا کیا ۔اﷲ تعالی ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ اﷲ نے انسان کو
اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ۔اﷲ کی عبادت سے مراد حقوق اﷲ اور حقوق العباد
ہے ۔
پیدا کیا انسان کو درد دل کے واسطے ۔
ورنہ عبادت کے لیے کم نہ تھے کروبیاں ۔
ہماری زندگی کا اصل مقصد دوسروں کی بھلائی ہے، حقوق العباد ہیں ۔سارے قرآن
کا مطالعہ کر لیں ،سیرت رسول ﷺ پر غور و فکر کر لیں پھر اسے اگر مختصر کر
کے بیان کرنا ہو تو وہ ہے ۔محبت اﷲ سے اور اﷲ کی خوشنودی کے لیے اﷲ کے
بندوں سے ۔ہمارا مقصد حیات کیا ہونا چاہیے، سو باتوں کی ایک بات اﷲ کی
خوشنودی ۔یہ بنیاد ہو ہمارے ہر کام کی ،ہم ہر کام اس بات کو ذہن میں رکھ کر
کریں کہ کیا اﷲ ہمارے اس کام سے خوش ہو گا، اس کا بہترین طریقہ اسوہ رسول ﷺ
ہے ۔
ایک حدیث ﷺ کا مفہوم ہے، کہ اﷲ کی عبادت ایسے کرو کہ اﷲ کو تم دیکھ رہے ہو
یا کم از کم اپنے اندر یہ احساس پیدا کر لو کہ اﷲ تم کو دیکھ رہا ہے ۔اگر
ہم اپنے اندر یہ احساس پیدا کر لیں کہ اﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے ۔(جو کہ سچ مچ
دیکھ رہا ہے اس میں کیا شک ہے ) تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ جائیں ۔بس اپنے
اندر اس احساس کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
صاحبو ,اب حق و صداقت ،خدمت خلق اور حقوق العباد جیسے الفاظ صرف کتابوں میں
رہ گئے ہیں ،ہماری عملی زندگی سے یہ الفاظ کب کے نکل گئے ہیں ۔ان الفاظ پر
اب عمل کرنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔اس بات کو ہم بھول گئے کہ حقوق
العباد کی ادائیگی کے بغیر باقی تمام عبادات نا کافی ہیں ۔(سورۃ بقرہ آیت
177 کامفہوم ہے کہ نیکی یہ ہے کہ اﷲ ،قیامت،ملائکہ پر ایمان لانے کے بعد
رشتہ داروں ،یتیموں ،ضرورت مندوں کی مدد کرنا ، عہد پورا کرنا،سچ بولنا ،صبر
کرنا وغیرہ)
اس دنیا میں دو کردار متعین ہیں، ایک کردار رحمانی دوسرا شیطانی کردار ۔رحمانی
کردار خدمت خلق ،ملک و قوم کی فلاح ،محبت و عقیدت ،پیار و خلوص اﷲ کی
خوشنودی کے لیے کچھ کرنے کے جذبہ کا نام ہے ۔اسی طرح شیطانی کردار نفرت ،حسد
،بغض ،فساد ،ایذا رسانی ،دولت پرستی وغیرہ ۔اﷲ تعالی شیطانی کردار کو
ناپسند کرتا ہے ۔
حقیقی مقصد حیات کو پانے کے لیے اس بات پر غور و فکر کرنا ہو گا کہ ہماری
اصل کیا ہے؟ ہماری زندگی کا دارومدار کس چیز پر ہے ؟ ہم ہیں کیا ؟جسم پر
زندگی کا دارو مدار نہیں ہے، جسم موجود ہوتا ہے، جب موت آ جاتی ہے، تو جسم
مردہ ہو جاتا ہے، روح اس جسم کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، روح کو موت نہیں ہے، وہ
اس دنیا سے منتقل ہو جاتی ہے، اسے انتقال کرنا کہتے ہیں ۔موت ہمارے خاکی
جسم کو ہے، اس جسم کو جس سے ہم کو بہت پیار ہے، ،جسے ہم بہت بنا ،سنوار کر
رکھتے ہیں ۔جون ایلیا نے بہت خوبصورت شعر کہا ہے ۔
کتنے دل کش ہو تم کتنے دل جو ہیں ہم افسوس کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
ہماری زندگی کا دارومدار روح پر ہے ،روح اﷲ کا امر ہے، اﷲ کا امر کن فیکون
ہے ۔اب تک اربوں ،کھربوں انسان (مرد وزن ) اس دنیا میں آئے ،اپنا وقت گزارا
اور مر گئے، کوئی اپنی مرضی سے اس دنیا میں آیا نہیں ہے، اور نہ ہی اپنی
مرضی سے جب تک چاہے اس دنیا میں رہ سکتا ہے ۔
لیکن وہ زندگی کیسے گزارے اس پر اس کا اختیار ہے، اگر اس پر اختیار نہ ہوتا
تو پھر حساب ،جنت ،دوزخ کا وجود نہ ہوتا ،اسی اختیار کا ہی حساب ہونا ہے ۔اگر
زندگی اصولوں اور قواعد و ضوابط پر عمل کر کے گزاری جائے تو دنیا اور آخرت
دونوں میں کامیابی ممکن ہے۔اور مرنے کا بھی کوئی افسوس نہ ہو ۔اور اگر
بامقصد زندگی نہ ہو تو زندگی نے گزر تو پھر بھی جانا ہے ۔مگر پھر اک
پچھتاوا ہو گا اور یہ پچھتاوا تب ہو گا جب دوبارہ زندگی نہیں ملے گی ۔ |