فیفا سے اسرائیل کی معطلی رکوانے میں کرپشن اسکینڈل کا کردار
(Syed Yousuf Ali, Karachi)
امریکی احکامات پر بدھ کے
روز سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں فیفا کے نائب صدر سمیت6عہدیداروں کو حراست
میں لے لیا گیا۔گرفتار کئے گئے حکام 28 مئی سے شروع ہونے والے فیفا کے 2
روزہ سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے زیورخ پہنچے تھے۔ سوئس پولیس نے گرفتار
کئے جانے والے افراد کی حتمی تعداد یا نام نہیں بتائے تاہم فیفا حکام نے
گرفتاریوں کی تصدیق کردی ہے۔ گرفتار آفیشلز پر کرپشن کے ذریعے کروڑوں ڈالر
بنانے کا الزام عائد کیا گیا ہے، سوئس پولیس نے امریکی محکمہ انصاف کے
حوالے سے بتایا کہ فیفا آفیشلز میڈیا رائٹس، اسپانسر شپ اور ٹورنامنٹ کی
نیلامی میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے تھے۔ فیفا کے ارکان کو
رشوت کے طور پر پندرہ کروڑ ڈالر لینے کے جرم میں حراست میں لیا ہے۔دلچسپ
امر یہ ہے کہ گرفتار ارکان پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کی مدت دو
عشروں پر محیط بتائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی حکام نے زیورخ
میں ہونے والی فیفا کی 65ویں کانگریس سے عین دو روز قبل اچانک سوئس حکام کو
ان آفیشلز کی گرفتاری کی ہدایت کیوں کی۔
بی بی سی نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں فٹبال زیادہ مقبول
کھیل نہیں وہ کیسے اس عالمی کھیل کا کرتا دھرتا بن گیا؟ امریکی عوام کی ایک
بڑی تعداد تو فٹبال کو پسند بھی نہیں کرتی۔اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کھیلوں
کے حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جانا ایک فطری امر ہے کہ وہ فیفا کی مبینہ
کرپشن کے معاملے میں پیش پیش کیوں ہے؟ امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ وہ خود
اس کرپشن کی تحقیقات کرے گا ۔‘سوئٹزرلینڈ میں گرفتاریوں کے چند گھنٹوں کے
بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی نے رپورٹرز
کی جانب سے کئے گئے تابڑ توڑ سوالات کا جواب دیتے ہوئے وضاحت کی کہ امریکہ
نے فیفا کرپشن کے معاملے میں کیوں کارروائی کی ہے۔ایف بی آئی ڈائریکٹرکی
منطق تھی کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔جیمز کومی کا کہنا تھا
کہ’اگر آپ اپنی بدعنوان تنظیم کے ذریعے ہماری حدود میں آئیں گے چاہے وہ
ملاقاتوں کے ذریعے ہو یا پھر ہمارے بہترین بینکنگ نظام کے ذریعے ذمہ داروں
کو اس کرپشن کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
ایف بی آئی ڈائریکٹر کے دعویٰ کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ فیفا کرپشن بحران
ایسے وقت سامنے لایا گیا جب محض دو روز بعد فیفا کی سالانہ کانگریس میں ایک
تحریک پر بحث ہونی تھی جس میں عالمی فٹ بال سے اسرائیل کو معطل کرنے کا
مطالبہ کیا گیا تھا۔سوئس پولیس کو امریکی احکامات کا ایک نتیجہ یہ برآمد
ہوا کہ27مئی2015 کوکرپشن کے الزامات پر سات فیفا عہدے داروں کی گرفتاریوں
اور امریکہ حوالگی کے باعث فلسطین سے نسل پرستانہ رویوں کے الزام پر
اسرائیل کو عالمی فٹ بال مقابلوں سے خارج کرنے کے لئے ووٹنگ نہیں ہو سکی۔یہ
ووٹنگ 29مئی کو فیفا کی سالانہ کانگریس کے موقع پر ہونی تھی اور توقع کی جا
رہی تھی کہ 209رکنی تنظیم کے ارکان اس تحریک کے حق میں ووٹ دیں گے۔ فلسطین
فٹ بال فیڈریشن (پی ایف اے ) نے 20مارچ2015کو فیفا میں بحث کےلئے یہ تحریک
جمع کرائی تھی جس پر28-29مئی کو فیفا کی سالانہ کانگریس میں بحث اور ووٹنگ
کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
اس تحریک میں فٹ بال کی عالمی تنظیم کو بتایا گیا تھا کہ اسرائیل یکطرفہ
طور پر فلسطینیوں کو فٹ بال کھیلنے سے روکنے کے لئے رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ اس
کی جانب سے اپنی سرزمین میں فلسطینیوں سے نسل پرستانہ اور امتیازی سلوک کیا
جا رہا ہے۔تحریک میں واضح کیا گیا تھا کہ اسرائیل پر عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ
کھیلنے پر اس وقت تک کےلئے پابندی عائد کی جائے جب تک کہ فلسطین میں فٹ بال
کھیلنے والوں اور کھیل سے متعلقہ سامان کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی نہ بنا
دی جائے۔فلسطین میں فٹ بال کے میدانوں کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال کسی
رخنہ اندازی کے بغیر کی جا سکے۔آئی ایف اے خود اپنے لیگ میچز میںنسل پرستی
اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے۔انٹرنیشنل فٹ بال ایسوسی ایشن سے مطالبہ کیا
گیا تھا کہ وہ پی ایف اے کو فلسطین میں فٹ بال کی نمائیندہ تنظیم تسلیم
کرے۔
فلسطین فٹ بال فیڈریشن کا کہنا تھا کہ اسرائیل فٹ بال فیڈریشن موثر طور پر
ایک ریاستی تنظیم ہے جسے ریاست کنٹرول کرتی ہے۔ فیفا کی رکن ہونے کے باعث
یہ نسل پرستانہ اور امتیازی سلوک کامظاہرہ کر کے عالمی فٹ بال کے بنیادی
اصولوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہی ہے۔تحریک میں انکشاف کیا گیا تھا کہ
اسرائیل نے 2014میں غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں میں فٹ بالرز کو خصوصی طور
پر نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں16فٹ بالرز و کوچ اور13دوسرے کھلاڑی شہید ہو
گئے۔مزید تین فٹ بالرزبشمول سجی درویش، اودائی نفیظ جابر اور محمد القطری
کو مغربی کنارے پرگولیاں مار کر شہیدکیا گیا۔جنوری2014میں دو فٹ
بالربھائیوں 19سالہ جوہر نصر حلبیہ اور17سالہ آدم حلبیہ کو اسرائیلی فوجیوں
نے حفاظتی دیوار کے ساتھ گولیاں مار کر پوری زندگی کے لئے معذور کر دیا۔
اسرائیل نے تمام فلسطینی ایتھلٹس بشمول فٹ بالرز کی آزادانہ نقل و حرکت پر
پابندی عائد کر رکھی ہے۔بہت سے ایتھلٹس اور فٹ بالرزبشمول کھیلوں میں حصہ
لینے والے نوجوانوں کو چیک پوسٹس پر گرفتار کرکے جیلوں میں قید کر دیا گیا
جہاں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔مثال کی طور پر جولائی2009میں قومی فٹ
بالرمحمود سرسک کو کسی چارج کے بغیر گرفتار کر کے تین سال تک قید رکھا
گیاجہاں ان پر تشدد کر کے آئیندہ فٹ بال مقابلوں میں حصہ لینے کے قابل بھی
نہیں چھوڑا گیا۔ ان کی رہائی فیفا اور یو ای ایف اے کے دباﺅ پر عمل میں
آئی۔اپریل 2014میں ایک اور قومی فٹ بالرسمیع مرحبی کو گرفتار کرکے آٹھ ماہ
تک قید رکھا گیا جبکہ انہیں 2015میں ایشیائی گیمز میں شرکت کے لئے اجازت
دینے سے انکار کر دیا گیا۔
اسرائیل نے سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت ایتھلٹس اور فٹ بالرز کو نشانہ بنایا
جبکہ2008/9اور2012میں غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں میں کھیل کے میدانوں کو چن
چن کر تباہ کیاگیا۔2014میں نام نہاد ” آپریشن پروٹیکٹیو ایج“کے نام پر غزہ
میں فٹ بال کلبوں کی30عمارات اور پچز تباہ کر دیں۔اسرائیل میں فٹ بال کلبوں
بالخصوص بیطار کلب جس کی مقبوضہ یروشلم،تل ابیب اور دیگر اسرائیلی شہروں
میں برانچز ہیں ان کے میچز کے دوران انتہائی نسل پرستانہ رویوں کامظاہرہ
کیا جاتا ہے۔نومبر2014میں ایک فٹ بال میچ کے دوران بیطار کلب کے حامیوں نے
” ڈیتھ ٹو عرب “ کے نعرے لگائے۔فیفا کے اپنے چارٹر کے مطابق ایسے نسل
پرستانہ رویوں کے پیش نظر اسرائیل فٹ بال فیڈریشن پر فوری پابندی لگائی
جانی چاہئے۔
فیفا قبل ازیں1964میں جنوبی افریقن فٹ بال ایسوسی ایشن پرنسل پرستانہ
اقدامات کے باعث پابندی عائد کر چکی ہے۔1992میں28سال کے بعد یہ پابندی اس
وقت اٹھائی گئی جب جنوبی افریقی سول اینڈ اسپورٹنگ سوسائٹی نے نسل پرستی کو
مسترد کیا۔جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے کے لئے کئی معروف شخصیات نے
کردار ادا کیا۔ ان میں آرک بشپ ٹیوٹو بھی شامل ہیں جن کا کہنا تھا کہ
اسرائیل میں جنوبی افریقہ سے بھی بدتر نسل پرستی اور امتیازی سلوک ہوتا ہے۔
برطانیہ کی” ریڈ کارڈ اسرائیلی راسزم کمپین“نے تقریباً چار برس تک فلسطینی
فٹ بالرز کے حقوق کی جدوجہد میں مدد کی۔دوسرے متحرک گروپوں میں
یوروفلسطین(فرانس)، بی ڈی ایس (فرانس) ، بی ڈی ایس (اطالیہ) ، اور دیگر
ممالک کے گروپس شامل ہیں۔ ان میں بیلجیم، ڈنمارک ، جرمنی ، نیدرلینڈ ، آئرش
ری پبلک ، لکسمبرگ، شمالی آئر لینڈ ، ناروے ، اسپین ، سوئیڈن اور
سوئٹزرلینڈ قابل ذکر ہےں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ فلسطین میں فٹ بال کی
مقبولیت اور فلسطینی فٹ بال ٹیم کی بین الاقوامی سطح پر کارکردگی سے ایک
جانب تو اس کو دنیا بھر کے فٹ بال کھیلنے والے ممالک میں پذیرائی حاصل ہے
تو دوسری جانب اسرائیل اس کی مقبولیت سے خائف ہوکر نسل پرستانہ اور امتیازی
سلوک کرتا ہے۔
فٹ بال کھیلنے والے209 ممالک فیفا کے ارکان ہیں جن میں سے براعظم افریقہ
کے54 ،یورپ کے53، ایشیاءکے 46 ، شمالی اور وسطی امریکہ بشمول کیریبین کے35
، اوشیانیہ کے11 جبکہ جنوبی امریکہ کے10 ارکان ہیں۔فلسطین کو افریقہ ، یورپ
اور ایشیاءکے بیشتر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔اگر امریکہ عین فیفا کی65ویں
کانگریس کے موقع پر کرپشن اسکینڈل کو منظر عام پر نہ لاتا تو امکان تھا کہ
اسرائیل کو اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں کے باعث عالمی فٹ بال سے خارج کر دیا
جاتا ۔اس حقیقت کا علم تو خدا کو ہی ہے کہ یہ محض اتفاق ہے یا کہ سوچی
سمجھی سازش کے تحت گزشتہ دو عشروں میں ہونے والی کرپشن کوبے نقاب کر کے
اسرائیل کے خلاف ممکنہ پابندی کی تحریک کو ناکام بنایا گیا ہے تاہم ماضی
میں اسرائیل کے حوالے سے امریکہ کے انتہائی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ
اسرائیل کو بچانے کے لئے امریکہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔ |
|