کون کہتا ہے کہ پاکستان میں فٹ بال کا ٹیلنٹ نہیں ؟
(Syed Yousuf Ali, Karachi)
ہاجرہ خان،کلیم اللہ خان
اور محمدعادل کی عالمی شناخت ملک میں کھیل کی مقبولیت کی عکاس ہے
کرکٹ کے دیوانے ملک پاکستان میں عالمی سطح پر فٹ بال میں ملک کا نام روشن
کرنے کے بارے میں گفتگو کی جائے تو فوری طور پر ذہن میں کراچی کے ایک
پسماندہ علاقہ لیاری کا خیال آتا ہے ۔ تاہم یہ امر خوش آئند بھی ہے اور
باعث فخر بھی کہ29دسمبر1993کو شہر قائد میں پیدا ہونے والی اسٹرائیکر اور
ملک کی بہترین فٹ بال کھلاڑیوں میں سے ایک حاجرہ خان کو ساکر میں ان کی
کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہوئے تین پروفیشنل جرمن کلبوںبشمول ایس جی ایس،
ایف ایس وی گیوٹرزلوہینڈاور وی ایف ایل سنڈل فنگن نے بنڈس لیگا ساکر چمپیئن
شپ سے قبل ہونے والے پری سیشن ٹرائلز میں مدعو کیا ہے۔وہ کراچی کے ڈیا
ویمنز فٹ بال کلب (ڈی ڈبلیو ایف سی ) کی جانب سے کھیلتی ہیں جبکہ قومی فٹ
بال ٹیم کی کیپٹن بھی ہیں۔ 6جولائی2015کو تین ہفتہ طویل ٹرائلز پر جرمن
جانے والی حاجرہ خان آجکل تینوں کلبوں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں
۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مقامی کلب کے ہمراہ پریکٹس بھی کی۔جرمن روانگی سے
قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہاجرہ خان نے کہا کہ میرے ذہن پر ان ٹرائلز
کے حوالے سے کوئی دباﺅ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ سیزن کے لئے
اپنی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلبوں کو ناقابل تسخیر بنانے کے
لئے دنیا بھر سے ٹیلنٹس کو مدعو کیا ہے۔وہ لازمی طور پر بہترین ٹیلنٹ کا
انتخاب کریں گے۔ تاہم بنڈس لیگا کھیلنے والے تین ٹاب کلبوں کی جانب سے
ٹرائلز کے لئے مدعو کیا جانے کا موقع بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔برازیل
کے عظیم فٹبالر پیلے ہاجرہ خان کے آئیڈیل ہیں جبکہ خواتین کھلاڑیوں میں وہ
برازیل کی مارٹا کی مداح ہیں۔
بلوچستان یونائیٹڈ کی اسٹرائیکر نے کہا کہ وہ ٹرائل میں مسترد کئے جانے سے
قطعی خوفزدہ نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم کی کیپٹن کے لئے بیرون ملک
اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ۔ 3 جون 2014 کو قومی
ویمن فٹبال ٹیم کی نائب کپتان کی حیثیت سے ہاجرہ خان کسی بھی غیر ملکی
فٹبال کلب کی نمائندگی کرنے والی پہلی پاکستانی فٹبالر بن گئی تھیں۔ سری
لنکا میں ہونے والی ساو ¿تھ ایشین کپ میں انہیں مالدیپ کے منیجر نے کھیلتے
ہوئے دیکھا تھا جس کے بعد 2 مختلف کلبوں نے ان سے معاہدے میں دلچسپی ظاہر
کی تھی مگر ان کا معاہدہ مالدیپ کے صف اول کے ایس ایچ آر کلب کے ساتھ ہوا
جس کے تحت انہوں نے مالدیپ کی قومی ویمنز فٹبال لیگ میں کلب کی نمائندگی
کی۔ان کی ٹیم نے مالدیپ میں قومی سطح کی چمپئن شپ کھیلتے ہوئے 2 ٹرافیاں
حاصل کی ہیں اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔قومی ویمن ٹیم کی
نائب کپتان ہاجرہ خان نے 2008 میں پہلی بار قومی فٹ بال چیمپئن شپ میں حصہ
لیا اور سب سے زیادہ گول اسکور کئے۔ہاجرہ 3 بار سب سے زیادہ گول کرنے کے
ساتھ ساتھ قومی چیمپئن شپ کی بہترین کھلاڑی بھی رہ چکی ہیں۔ انہیں دو مرتبہ
بین الاقوامی میچز میں ہیٹ ٹرک کا اعزاز حاصل ہے جبکہ کراچی میں ایک نمائشی
میچ کے دوران ہاجرہ خان نے 8گول اسکور کئے۔ہاجرہ خان کلب فٹبال میں 100 گول
کرنے والی پہلی اور واحد پاکستانی خاتون پلیئر کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔
انہوں نے مالدیپ میں ایس ایچ آر کلب کی جانب سے لیگ کھیلی اور عمدہ
کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
ٹیم کے سلیکشن اور کسی ٹورنامنٹ کی تیاری کے لئے فیڈریشن کے اقدامات کے
حوالے سے پوچھے گئے سوال پر حاجرہ خان نے بتایا کہ ساف ویمن فٹ بال چیمپین
شپ کی تیاریوں کے سلسلے میں39پاکستانی خواتین فٹ بال کھلاڑیوں کا تربیتی
کیمپ مورخہ تین اگست 2012ءسے پاکستان فٹ بال فیڈریشن (پی ایف ایف ) ہاﺅس
لاہور میں شروع ہوکر چار ستمبر 2012 ءتک جاری رہا۔قومی ویمن فٹ بال ٹیم کو
7 ستمبر سے 17ستمبر 2012 ءتک سری لنکا کے شہر کولمبو میں ہونے والے ساف
ویمن فٹ بال چیمپین شپ کے لئے بھر پور ٹریننگ کروائی گئی۔خان ریسرچ
لیبارٹری کے یو ایف طارق لطفی(کوچ)، ریلوے کے محمد رشید(اسسٹنٹ کوچ)،
گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ آف سپیشل ایجوکیشن کی کرن الیاس غوری (اسسٹنٹ کوچ)اور
لاہور سکول آف اکنامکس کی عظمیٰ زیدی (مینجر/ اسٹنٹ کوچ)کی زیر نگرانی
کرائی جانے والی ٹریننگ میں لڑکیوں کی فٹنس پر سب سے زیادہ توجہ دی
گئی۔قومی ٹیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر حاجرہ نے بتایا کہ وہ فٹ بال
ٹیم کی کپتان ہیں۔جویان نہ صرف پاکستانی خواتین فٹبال ٹیم کی پہلی عیسائی
کھلاڑی ہیں بلکہ سب سے کم عمر بھی ہیں۔ انہوں نے فٹ بال کی دنیا میں اپنا
انٹرنیشنل ڈیبیو 17 سال کی عمر میں کیا۔ماہ پارہ فٹ بال ٹیم کی گول کیپر
ہیں اور نہایت پر کشش شخصیت کی مالک بھی ہیں۔ یہ بلوچستان یونائٹڈ کے لیے
بھی کھیلتی ہیں۔شاہ لیلا اس ٹیم کی فاروڈ کھلاڑی ہیں اور پاکستان نیشنل ٹیم
سمیت بلوچستان یونائٹڈ کا بھی حصہ ہیں اور سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ وہ
بلوچستان سے سینٹ کی رکن روبینہ عرفان کی بیٹی بھی ہیں۔سنیٹر روبینہ عرفان
کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہاجرہ نے کہا کہ وہ 2004 سے 2007تک
اورپھر2008کو پا کستان فٹبال فیڈریشن کی پریزیڈنٹ کے لئے پہلی خاتون
صدرمنتخب ہوئیں۔وہ بلوچستان فٹبا ل ایسو سی ایشن (شعبہ خواتین ) کی چیئر پر
سن بھی ہیں جبکہ بلوچستان فٹبال ایسوسی ایشن (میل وِنگ ) کی وا ئس پر
یزیڈنٹ منتخب ہو ئیں یہ صورت حال فٹ بال کے کھیل سے ان کی قلبی دلچسپی کی
عکاسی کرتی ہے۔سنیٹر روبینہ نے ہی بلو چستان سے پہلی خواتین فٹبال ٹیم
بنوائی اور اسی طر ح فاٹا،سندھ ،پنجاب، آزاد کشمیر اورخیبر پختونخوااور
کہیں دوسرے محکمو ں سے خواتین کی ٹیمیں بنوا کر اس کھیل کو پاکستان میں
فروغ دینے کےلئے اپنی توانائیاں صرف کیں۔
ہاجرہ خان کی عالمی افق پر آمد سے قبل بھاولپور میں رہنے والے محمد عادل نے
انٹرنیشنل فٹ بال میں شرکت کر کے پاکستان کا نام روشن کیا تھا۔ انہیں عالمی
سطح پر فٹ بال کھیلنے والے پہلے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل
ہے۔9جولائی1992کو پیدا ہونے والے محمد عادل بچپن میں سڑکوں پر گنے فروخت
کیا کرتے تھے۔ تاہم ایک فٹ بالر بننا بچپن سے ہی ان کی خواہش تھی۔ان کا
کہنا ہے کہ پیٹ پالنے کے لئے گنا فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ میں فٹ بال بھی
کھیلتا رہا اور اس سے اپنا تعلق ختم نہیں کیا۔ آخر کار محنت رنگ لائی اور
2010سے مقامی سطح پر فٹ بال کھیلنے والے عادل کو 2012میں قومی سطح پرپاک
الیکٹران اینڈ خان ریسرچ لیبارٹریز کی جانب سے کھیلنے کا موقع ملا۔خان
ریسرچ لیبارٹریز پر اپنے تین سالہ کیریئر میں عادل نے65میچز میں 24گو ل
بنائے۔مڈ فیلڈر کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے 2014میںکرغزستان کے کلب ایف سی
ڈور ڈوئی نے اس سے معاہدہ کر لیا۔ وہ آج کل کلب دوردوئی کرغزستان کی قومی
فٹ بال کا چیمپئن بھی ہے۔اس طرح عادل پاکستان پریمیئر لیگ کا وہ واحد
کھلاڑی بن گیا ہے، جسے بیرون ملک جا کر کھیلنے کا موقع ملا ۔ عادل کو یقین
تھا کہ کہ اس کا بیرون ملک جا کر کھیلنا پاکستان میں فٹ بال کے فروغ میں
اہم کردار ادا کرے گا۔
اس کا یہ یقین اس وقت پہلی بار حقیقت بنا جب سورش زدہ صوبہ بلوچستان کے
سرحدی شہر چمن سے تعلق رکھنے والے کلیم اللہ سے محمد عادل کے کلب ڈور ڈوئی
نے 2 سال کیلئے معاہدہ کرلیا۔کلیم اللہ نے کرغستان میں اپنی دھاک بٹھادی،
کرغستانی لیگ کے 16 میچز میں 17 گول داغے، اپنے کلب ڈور ڈوئی کو بھی چیمپئن
بنوایا اور خود کی قیمت بھی بڑھوالی۔ کلیم اللہ سے ڈور ڈوئی کلب نے 2016ءتک
کیلئے معاہدہ کیا تھا، پاکستانی سٹرائیکر کو کرغستان کے ڈور ڈوئی کلب نے 2
سال کھیلنے کے ایک کروڑ روپے ادا کئے۔کلیم اللہ کا کہنا تھا کہ یہ کارکردگی
میرے کیریئر کی ابتداءہے، گول پہ گول کرکے خود کو منوانا چاہتا
ہوں۔اسٹرائیکر کلیم اللہ پاکستان فٹ بال لیگ کی تاریخ کے ایک ایونٹ میں 35
گول کرنے والے پہلے کھلاڑی بھی ہیں۔کلیم اللہ اس سے قبل کرغیزستان کے صفِ
اول کے فٹ بال کلب 'دردوئی بشکک' کی طرف سے بھی کھیل چکے ہیں۔'دردوئی بشکک'
نے 2014ءمیں کرغیزستان کی فٹ بال لیگ جیتی تھی جس میں کلیم اللہ کو
ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے پر 'گولڈن بوٹ' کا ایوارڈ دیا گیا
تھا۔انہیں 2015ء کے سیزن میں کرغیزستان کا 'پلیئر آف دی ایئر' بھی قرار دیا
گیا ۔ گزشتہ برس انہوں نے کرغز کلب کے ساتھ اپنے معاہدے کی تجدید کی تھی جس
کے بعد وہ کرغزستان کے سب سے مہنگے کھلاڑی بن گئے تھے۔کلیم اللہ کو پاکستان
کا پہلاکروڑ پتی فٹ بالرہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔کلیم اللہ کی زندگی میں
نیا انقلاب اس وقت آیا جب ان کے خواب حقیقت میں تبدیل ہوئے اور18جون 2015کو
کلیم اللہ نے سہ جہتی امریکی لیگ سسٹم” سیکرامینٹوری پبلک آف دی یو ایس ایل
“ سے ابتدائی طور پر چار ماہ کے لئے معاہدہ پر دستخط کر دیئے۔ری پبلک ایف
سی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر گراہم اسمتھ کا یہ بیان کلیم اللہ کی اہمیت کی
عکاسی کرتا ہے کہ پاکستانی اسٹرائیکر سے ہمارا معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم
دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ اپنے کلب میں لانا چاہتے ہیں۔دوسری جانب ہاجرہ نے
اس یقین کا اظہار کیا کہ ملک میں ویمن فٹ بال کے لئے ٹیلنٹ کی کوئی کمی
نہیں ہے ۔ اگر نیک نیتی سے کھیل کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں تو
نہ صرف پاکستان کی قومی ٹیم بلکہ ویمن فٹ بال ٹیم بھی عالمی سطح پر دل خوش
کن نتائج دے سکتی ہے۔
(یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکا ہے) |
|