زلزلہ اور سود
(Abid Ali Yousufzai, Lahore)
لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
ہر طرف گہما گہمی تھی۔ کاروبار عروج پر تھے۔ سورج سر پر آچکا تھا۔ظہر کی
نماز ادا کی جاچکی تھی۔ بہت سے بد نصیبوں کو وقت کا پتہ ہی نہ چلا تھا۔ بعض
نے مصروفیت کی وجہ سے ترک کی تھی۔ کسی کو اگلے لمحوں کی پرواہ تھی نہ کوئی
خبر۔ ہر ایک اپنی دھن میں مست تھا۔ اور پھر اچانک زمین لرزنے لگی۔ چیخ و
پکار بلند ہونے لگی۔ اﷲ کا نام لیا جانے لگا۔وہ رب جس کے در سے ایک گھنٹہ
پہلے ان سب کو پکارا جارہا تھا۔ کسی نے توجہ نہ کی تھی۔ کسی نہ نظر انداز
کیا تھا۔ کوئی جان بوجھ کر انجان بن گیا تھا۔ اب، ایک گھنٹہ بعد سب اسی رب
کو پکارنے لگے۔ آہ و زاری کرنے لگے۔ زار و قطار رونے لگے۔ توبہ استغفار
کرنے لگی۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ اﷲ رب العزت نے مہلت کی رسی کھینچ لی تھی۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ وقت ان کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا ۔ یہ چند لوگ
تھے۔ باقی جو بچ گئے ہیں ان کو ایک جھلک دکھائی۔ انجام سے باخبر کیا۔ مہلت
دی۔ وقت بہت کم ہے۔ کسی بھی وقت سب کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہمیں جلدی
کرنا ہوگی۔ کچھ ہونے سے پہلے کچھ کرنا ہوگا۔ رب کے سامنے جانے کی تیاری
کرنی ہوگی۔ ورنہ انجام وہی ہوگا۔ جی ہاں ! جو بتایا جا چکا ہے۔ جو دکھایا
جا چکا ہے۔
قارئین کرام !اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔ قدرتی
آفات کے اسباب آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان
کیے جا چکے ہیں۔ ان سے بچاؤ کے طریقے بھی محسن انسانیت سرور کونین حضور
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتلائے ہیں۔ دنیا کو پیدا کرنے سے لے کر نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم تک جتنے بھی قدرتی آفات آئے ہیں۔ ان سب کو وجوہات سمیت اﷲ
رب العزت نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
مستقبل میں ایسے ممکنہ آفات سے خبر دار کیا ہے اور پیش آنے والے اسباب ذکر
کیے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پچھلے پندرہ سال میں وطن عزیز پر کئی قسم کے آفات آچکے
ہیں اور مزید بھی آسکتے ہیں۔ کئی بستیاں ، گاؤں اور شہر صفحہ ہستی سے مٹ
چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ موت کے نذر ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود کبھی ہم نے یہ
سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ آفات کیوں آتے ہیں۔ آخر ہم ایسے کون سے گناہ
میں مبتلا ء ہیں جن کی وجہ سے مصیبتیں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ہم میں سے
ہر ایک گناہ گار ہے۔ ہر ایک اﷲ رب العزت کا باغی ہے۔ ہر ایک نے قدرت سے
اعلان جنگ کیا ہوا ہے۔ انفرادی ہو یا اجتماعی ، امت مکمل طور پر بغاوت پر
اتر آئی ہے۔ 2001ء میں طالبان کے شرعی حکومت کے خلاف غیر مسلم پینل کا حصہ
بنے۔ 2005ء میں قدرت نے تاریخی زلزلے کی آفت میں گرفتار کیا۔ زلزلہ متاثرین
کی مدد کی آڑ میں غیر ملکی این جی اوز پاکستان میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بے
حیائی پھیلائی اور لوگوں کو بے دین کردیا۔ اس کے رد عمل میں تحریک طالبان
پاکستان پیدا ہوگئے جنہوں نے پورے ملک کو آگ لگادی۔ لال مسجد اور جامعہ
حفصہ میں معصوم طلبا و طالبات کو قرآن اور احادیث کے کتابوں سمیت شہید کیا
گیا تو 2010ء میں سیلابوں نے تباہی مچادی۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو ناموس
رسالت کا تحفظ نہیں۔ سود کے بارے میں یہ ریمارکس دیے جارہے ہیں کہ جس نے
لینا ہے وہ لے، اﷲ اس سے پوچھے گا۔ یاد رہے ! اﷲ رب العزت قرآن کریم میں
فرماتا ہے کہ جو سود کرتا ہے وہ اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار
ہو جائے۔ کیا یہ اس جنگ کی دعوت کا جواب تو نہیں جو پچھلے دنوں سپریم کورٹ
کے سینئر جج نے دی تھی؟ کیا ہم خود پر مسلط کردہ جنگ کے لیے تیار ہے؟
اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہمارے پاس وقت ہے۔ آئیں اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ
ہوجائیں۔ اپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی مانگیں۔اﷲ تعالیٰ سے توبہ و
استغفار کریں۔ سود سے توبہ کریں۔ ناموس رسالت پر جان قربان کرنے والے بن
جائیں۔ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کریں۔ یقینا اﷲ تعالیٰ سے جنگ ہمیں
دنیا و آخرت میں برباد کر دے گی۔ امن،ترقی اور خوشحالی چاہتے ہو تو اﷲ اور
اس کے رسول کے ساتھ دوستی کرنی ہوگی۔ قرآن اور احادیث کی روشنی میں زندگی
گزارنی ہوگی۔
|
|