ضرورت ہے سوچ بدلنے کی
(Chohdury Nasir Gujjar, )
انسان کو اشرف المخلوقات کا
اعزاز اس وجہ سے حاصل ہے کہ وہ اُسے اﷲ رب العزت نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت
عطا فرمائی ہے اُس صلاحیت کی وجہ سے انسان اچھائی اور بُرائی میں تمیز کرتا
ہے اخلاقی اقدار کا تعین کرتا ہے قوانین ترتیب دیتا ہے اپنے معاشرے کو خوب
سے خوب تر بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے چُھپے ہوئے رازوں کی تلاش میں مگن
رہتا ہے خالق حقیقی کو اسی عقل کی بدولت جانتا،پہنچانتا اور مانتا ہے اپنے
مقصد حیات کا تعین کرتا ہے جب انسان اپنی اس صلاحیت سے خود کام نہیں لیتا
تب بُرے حالات اُس کا مقدر بن جاتے ہیں زندگی عذاب محسوس ہونے لگتی ہے ۔اسی
عقل کا استعمال کرتے ہوئے انسان نے اپنے قصبہ،شہر اور مُلک کا نظام بنایا
اور اُس نظام کو چلانے کے لیے قوانین بنائے اُن قوانین پر عملدرآمد کرانے
کے لیے ادارے بنائے اسی عقل کی بدولت بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک
الگ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائی اور اس کا بنیادی مقصد مذہبی آزادی
اور استحصال سے چھٹکارہ تھا لیکن بد قسمتی سے ہمارے مُلک پاکستان میں
سچے،مخلص اور ایماندار حکمرانوں کو تلاش کر نے میں پاکستانی قوم نے اپنی
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پس پشت ڈال کرخود کو بھیڑ چال پرلگا رکھا ہے جس
کی وجہ سے مُلک پستی کا شکار ہے مذہبی فرقہ واریت عروج پرہے غربت ،بے
روزگاری اور نا انصافی کا دور دورہ ہے کرپشن کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں
آزمائے ہوئے کو بار بار آزمانا ہماری فطرت بن چکی ہے حق بات کہنے والے کو
بے وقوف سمجھتے ہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں اندھی تقلید
ہماری عادت بن چکی ہے جمہوریت ہر قیمت پر آمریت سے بہتر طرز حکومت ہے لیکن
ہم ذرا بھر نہیں سوچتے کہ آمریت کو بُرا بھلا کہنے والے بڑے بڑے لیڈرکیا
آمریت کی پیداوار نہیں؟عوام کی خدمت کے نعرے لگانے والے ہی کیا سب سے زیادہ
عوام کا استحصال نہیں کر رہے؟خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے والے کیا
قانون بنانے کے اہل ہیں؟کون سی ایسی بُرائی ہے جو ہمارے مُلک میں نہیں پائی
جاتی پھر بھی ہم زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ایسے لوگوں کو
ہم اپنا لیڈر کہتے ہیں جو کارگل کی جنگ میں شہیدوں کے خون کو بُھلا کر یہ
کہے کہ ہم نے انڈیا کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ کر اچھا نہیں کیا تھاایسے
لوگوں کو ہم لیڈر مانتے ہیں جو پاکستان میں انڈین آرمی اور را کو آنے کی
دعوت دیتے ہیں ایسے لوگوں کو محب وطن کہتے ہیں جنہوں نے اپنے مفاد کی خاظر
مُلک کی جڑیں کرپشن سے کھوکھلی کر دیں آخر ہم کیوں نہیں سوچتے کہ خالصتان
کا نعرہ لگانے والے سکھوں کی لسٹیں دشمن مُلک کو دینے والے محب وطن ہیں یا
غدار وطن۔پاکستان کو کیسی مملکت بنا دیا گیا ہے جہاں ایسے لوگوں کو دانشور
کہا جاتا ہے جنہیں سورت اخلاص بھی نہیں آتی جہاں زیادتی کی شکار حوا کی
بیٹی انصاف نہ ملنے پر خود کشی کر رہی ہے جہاں ماں اولاد برائے فروخت کا
بورڈ اُٹھائے پھرتی ہے جہاں قبضہ مافیا اور بدمعاشوں کی بلے بلے ہے جہاں
کسی پراجیکٹ کے سنگ بنیاد رکھنے پر ہی کروڑوں روپے اپنی تشہیر پر لگانے کے
بعد عوام کا پیسہ بچانے کی داد وصول کی جاتی ہے جہاں چوری کے شبے میں تو
ایک عام آدمی کو ننگا کر کے مارا جاتا ہے جب کہ کئی لوگوں کے قتل کا جس پر
الزام لگ رہا ہو وہ وزارت کے عہدے پا لیتا ہے عام آدمی پراگر جعلی دستاویز
کا جرم ثابت ہو جائے تو اُسے جیل بھیج دیا جاتا ہے جب کہ پوری قوم کو دھوکہ
دینے والے جعلی ڈگری والوں پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی
کوئی سزا دی جاتی ہے قرضہ لے کر کاروبار کرنے والے غریبوں سے ایک ایک پائی
وصول کی جاتی ہے جب کہ کروڑوں کے قرض لینے والوں کو قرضہ معاف کر دیا جاتا
ہے متعدد کیسوں میں مطلوب لوگوں کے ساتھ این آر او جیسے معاہدے کر لیے جاتے
ہیں تبدیلی کا لیبل لگا کر پرانے چہرے ہی نئے پاکستان کا خواب دکھا رہے ہیں
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے کوئی کُھل کر بات نہیں کرتاتعلیم کی
وزارت سنبھالنے والوں کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھتے صحت کے وزارت پر
موجود لوگ بیرون مُلک علاج کرواتے ہیں جب سرکار چلانے والے لوگوں کو خود
اپنی بنائی ہوئی چیز پر اعتبار نہیں تو وہ کس حیثیت سے سرکار میں موجود ہیں
یہ کیسی عوامی خدمت ہے جس میں عوام پر بے جا ٹیکسز لگا کر صرف اپنی خدمت پر
مامور کیا ہوا ہے پورے پاکستان میں کوئی ایک شہر ایسا دکھا دیں جہاں کے لوگ
ہر طرح سے خوشحال ہوں جہاں سرکاری ادارے ایماندار لوگوں سے بھرے ہوں جہاں
بنیادی سہولیات ہر شخص کو میسر ہوں جہاں پینے کا صاف پانی ہو جہاں گندگی
نام کی کوئی چیز نہ ہو جہاں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ایسے بہت سارے
حقائق ہیں جو شاید ہر کوئی جانتا ہے اور سب جاننے کے باوجود عقل سلیم سے
کام لینے کی بجائے گلا پھاڑ پھاڑ کر زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔یہ مُلک
پاکستان اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کے حصول میں بے شمار شہداء کا خون شامل
ہے بہنوں کی عصمتیں شامل ہیں بزرگوں کی محنت اور دعائیں شامل ہیں اس کی قدر
کرنا اور اس کی اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اپنے
مُلک کی سلامتی اور ترقی کے لیے ہمیں ضرورت ہے اپنی سوچ بدلنے کی۔۔۔ |
|