ناقابل قبول سچ
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
دنیا کے سیاسی افق پر سب سے
زیادہ طویل عرصے تک چھائے رہنے والے کیوبا کے سابق صدر فیڈل کاسترو 47 سال
تک بطور حکمران امریکہ کو للکارتے رہے۔ لاطینی امریکہ کے پسے ہوئے طبقات کی
آواز بنے رہے کیوبا میں مساوات پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے اور ضرورت مندوں
کے لیے اپنے طبی ماہرین دوسرے ملکوں میں بھیجنے کے ان کے اقدامات کو سراہا
جاتا رہا۔ 2005ء کے ّلزلے کے بعد کیوبا کے طبی ٹیموں نے آزاد کشمیر میں بھی
خدمات سرانجام دیں۔ اور پھر کیوبا کے طبی تعلیم کے اداروں میں کشمیری طلبا
کے لیے بھی دروازے کھولے گئے۔ کیوبا کے سابق صدر آنجہانی فیڈل کاسترو زندگی
کے آخری دنوں میں کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو گئے تھے انہیں جسمانی
تکلیف بھی تھی اور احساس بھی ہوگیا تھا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات
ہیں۔ مضبوط اعصاب کے مالک کاسترو جانتا تھا کہ ہر شخص کی طرح میری زندگی کا
بھی ایک دن خاتمہ ہونا ہے تاہم وہ اس سچ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا
ایک دن اپنے معالجوں کو بلایا اورکہا کہ مرنا نہیں چاہتا، کیا تم کوئی
تدبیر کر سکتے ہو، اگر کر سکتے ہو تو مجھے بچالو۔ ڈاکٹر اپنی تدبیریں کرتے
رہے مگر کاسترو کو بچانے میں ناکام رہے۔ زندگی کا خاتمہ ایسا سچ ہے جو ہر
شخص جانتا ہے مگر اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ زندگی کے خاتمے کی
تلخ حقیقت کو سمجھنے اور قبول کرنے والی ایک شخصیت کا نام سردار عبدالرحمن
ہے۔ آزاد کشمیر کی اعلیٰ سرکاری ذمہ داری سے 19سال قبل سبکدوش ہونے والے
عبدالرحمن نے راولا کوٹ میں متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو عوامی
مسائل کے حل کا شعور دیا، انہیں جینے کا حوصلہ دیا۔ وہ سفر زندگی کے اختتام
کی حقیقت سے آشنا تھے۔ سفر زندگی کے اختتام سے چند ماہ پہلے اس سچ کا ذکر
کرتے ہوئے کہنے لگے طبی سائنس نے غیر معمولی ترقی کرلی ہے۔ ڈاکٹروں نے کلون
ٹیکنالوجی کے ذریعے بھیڑ تک بنا دی ہے۔ جسم کی پیچیدہ مشینری کے ہر چھوٹے
پرزے تک ان کی رسائی موجود ہے مگر موت کا علاج ان کے پاس بھی نہیں ہے؟ موت
برحق ہے۔ یہ کہتے ہوئے رکے اور پھر مطمئن سے ہو کر بولے اچھا ہی ہے موت کا
ترقاق دریافت نہیں ہو ورنہ دنیا زیادہ مشکل اور انسانی مسائل زدہ ہو جاتا۔
زمین لوگوں کا بوجھ کیسے سہارتی؟ بڑھاپے میں انسانوں کی زندگی مشکل ہو جاتی
ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ہر روح کی طرح انسان کی زندگی کا خاتمہ نہ ہوتا تو
بڑھاپے میں کوئی ادھر پڑا ہوتا اور کوئی ادھر، انہیں کون سنبھالتا کون خیال
رکھتا، کون کھانا کھلاتا۔ اچھا ہی ہے زندگی کے خاتمے پر زمین انسان کو اپنی
گود میں لے کر سنبھال لیتی ہے اسی سچ کے سامنے سر تسلیم ختم کرتے ہوئے
17جون 2014کی شام بزرگوار عبدالرحمن بڑے اطمینان سے سفر زندگی کا خاتمہ کر
گئے۔ مرض کی شدت سے ہونے والی تکلیف پر افسردہ ہوئے چیختے چلاتے اور نہ ہی
پریشانی کا اظہار کیا بس لگتا تھا انہیں آنکھ لگ گئی ہے۔ 80سالہ زندگی میں
20سال پڑھائی کو دیئے 41 سال محکمہ تعلیم کی نذر کیے اور 19سال سماجی خدمات
کا سلسلہ جاری رکھا، پڑھائی کے 20سالوں میں بھارتی فوج کی قید میں رہ کر
کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا حصہ ڈالا اور محکمہ تعلیم میں خدمات کے دوران
مستحقین کو ان کا حق دینے کے جرم میں چھ ماہ پابند سلاسل رہے۔ سرخرو ہو کر
باہر آئے اور خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ بیماری کے باعث 22 سال سے وہیل
چیئر پر براجمان منگ آزاد کشمیر کے جناب محمد فاضل محکمہ تعلیم کے ریٹائرڈ
افسر ہیں ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میرے استاد گرامی جناب عبدالرحمٰن نے قوم
کے نونہالان کی آبیاری کرنے کی کاوش جس جانفشانی سے کی یہ انہی کا کام تھا۔
ہماری ساری نسل پر ان کے جس قدر احسانات ہیں انکا بدلہ نہیں چکایا
جاسکتا۔ہمیشہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس عبدالرحمٰن کا کردار بھی صاف و
شفاف تھا انہوں نے مال و دولت بنانے کے بجائے دوسروں کے کام آنے کا مشغلہ
بنا رکھا تھا 1995ء میں ناظم اعلیٰ تعلیمات کی ذمہ سے ریٹائرڈ ہونے والے
سردار عبدالرحمن کی زندگی ملازمت اور سیاست کے دو پاٹوں میں بٹی ہوئی تھی
وہ خدمت کے جذبے سے سرشار تھے، منفرد سیاسی نظریات رکھتے تھے، فیاضی،
بردباری،برداشت، مساوات اور اعلیٰ اخلاقی روایات ان کی شخصیت کے اہم پہلو
تھے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر معمولی فیاضی کے باعث ہر مہینے کی 5تاریخ تک ان کی
جیب خالی ہو جاتی تھی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی جیب خالی رکھ کر
دوسروں کی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔، زندگی کی تلخیوں اور محرومیوں کے شکار
افراد کو جینے پر اکساتے تھے ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ خدمت انسانیت کے انہی
اعلیٰ جذبات کے باعث اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا۔کیا کشمیر کا
خطہ ایک جدید فلاحی ریاست بن سکتا ہے ۔ یہ سوال ہر شخص کی دلچسپی کا مو ضوع
رہا ہے ۔ سردار عبدالرحمان بھی کشمیر کے لیے جدید فلاحی ریاست کا خواب دل
میں بسائے ہوئے تھے ان کے خیال میں کشمیر کی جغرافیائی اکائیوں میں یہ
صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایسی ریاست کا روپ دھار سکے جو یورپ کے کسی ملک کی
طرح ہو ، جہاں ہر شخص کی جان و مال ، عزت وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست ہو
۔ ایک ایسی ریاست جہاں پر امیر اور غریب کے بچے کو تعلیم صحت اور کیریئر
بنانے کے یکساں مواقع میسر ہوں ۔ ان کے انہی خیالات کے باعث آزاد کشمیر کے
قوم پرست نوجوان ان کے زیادہ قریب تھے ۔ ریٹائرڈ منٹ کے بعد متحدہ محاذ کے
نام سے تنظیم قائم کی ۔ راولا کوٹ احاطہ کچہری میں دفتر قائم کیا اور تواتر
کے ساتھ آخر دم تک دفتر میں بیٹھے رہے ۔ متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے انہوں
نے عوامی مسائل کے حل کے لئے جدوجہد شروع کی ۔ آزاد کشمیر بالخصوص پونچھ
میں لوگوں کو یونیورسٹی ، میڈیکل کالج اور نئے ہسپتالوں کے قیام کا شعور
دیا ۔ متحدہ محاذ کا دفتر سیاسی ، سماجی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ۔
نوجوانوں اور سیاسی امور سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے متحدہ محاذ کا دفتر
اہمیت کا حامل تھا کیونکہ دفتر میں انہیں نئے خیالات اور حالات سے آگاہی کے
علاوہ چائے بسکٹ سے تواضح اور اخبارات کے مطالعے کا موقع بھی ملتا تھا ۔
کتابوں اور اخباروں کے ڈھیر میں پھنسے رہنے والے عبد الرحمان کے مطالعے کی
میز پر رکھی چائے کی پیالی کبھی بھی خالی نہیں ہوئی ۔ ان سے ملنے آنے والا
کوئی بھی شخص ان کے دستر خوان کی برکت سے محروم نہیں ہوا ۔ ان کی شخصیت کے
کئی پہلو اور کئی دریچے تھے جہاں افکار اور خیالات کی بھرمار تھی ۔ ان
پہلوؤں میں فیاضی ، خدمت اور حوصلہ افزائی کا عنصر غالب تھا چند ماہ قبل
انہیں بتایا گیا کہ ان کے ایک عزیز کو فوج میں کرنل کے رینک میں ترقی مل
گئی ہے ۔ کچھ لمحے خاموش رہے، اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا اس وقت کرنل کا
والد دنیا میں موجود ہے اور نہ ہی اس کی والدہ یہاں ہیں ہم کس کے ساتھ خوشی
منائیں ؟ ایسا کریں کیک وغیرہ لے آؤ خود ہی مل کر خوشی مناتے ہیں ۔ اب جبکہ
وہ اس دنیا میں موجود نہیں تاہم انکی روشن روایات موجود ہیں یہ روایات
ہماری کامیابی اور نیک نامی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔
|
|