تعلیم کا معیار کیوں نہیں رہا؟
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
پاکستان میں تعلیم کا جو حشر ہو
رہا ہے وہ ایک ایسی گھناونی سازش ہے کہ جس کی مثال شاید انگریز دور کے
متحدہ ہندوستان مین بھی نہ ملتی ہو۔ جس قوم کے راہبر حضور نبی کریم ﷺ نے
اپنے لیے سب سے زیادہ خوبصورت لفظ معلم انسانیت پسند فرمایا ہو اور آج
مملکت خداد اد پاکستان میں تعلیم کو جس طرح امتیازی گروہوں میں تقسیم کردیا
گیا ہے یہ آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل کی خلاف ورزی ہے۔ گلی
محلے میں وہ لوگ جو جو سبزی بیچتے تھے انہوں نے 3,4 مرلے کے گھر میں ڈربہ
نما سکول بنا رکھے ہیں جہاں اساتذہ کی ذمہ داری آٹھویں پاس اور میٹرک فیل
وہ لڑکیاں انجام دے رہی ہیں جن کا اپنا مستقبل تاریک ہے۔ اور یہ سکول محکمہ
تعلیم کی ناک تلے خوب ترقی تررہے ہیں۔ چند سو روپے فیس، کتابوں کی من مانی
قیمتیں کاپیوں کی مد میں بچوں کے والدین کی جیب پر ڈاکہ ، اور بچوں کی
تربیت کا یہ عالم کے بچے گھر آ کر اپنی ٹیچر اور سکول مالک کے معاشقو ں کے
قصے سناتے ہیں۔ اگر اعداد وشمار اکٹھے کیے جائیں تو پتہ چلے گا کہ اِس طرح
کے سکول جو گلی محلے میں کھلے ہوئے ہیں اْن کے مالک جو ہیں وہ ایک سے زائد
شادیاں رچائے بیٹھے ہیں ۔ تعلیم و تربیت اور مشنری جذبے سے عاری یہ سکول
نسل کو تباہ و برباد کررہے ہیں ۔ اِس سے ذرا وپر جائیں تو دیکھتے ہیں نسبتاٌ
گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ خواتین و حضرات نے سکول کھول رکھے ہیں۔ اْن کی
فیس ایک ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں۔ ایسے سکول چند مرلے یا کسی مارکیٹ کے
اوپر چند دکانوں میں کھلے ہوتے ہیں۔ یہ سکول زبردستی کتابیں اور کاپیاں خود
دیتے ہیں اور منافع کی شرح 100% سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اِن سکولوں میں سٹاف
میٹرک ، ایف اے ، بی اے وغیرہ ہوتا ہے اور تعلیمی میعار یہاں بھی ناقابل
بیان ہے۔ انتہائی قلیل تنخواہ مثلاٌ بی اے 1200 روپے ماہانہ اور آٹھ آٹھ
پریڈ پڑھوائے جاتے ہیں اِن حالات میں کوالٹی کا تو جنازہ ہی نکالے گا۔ اکثر
میٹرک کے بچے خواتین اساتذہ کے قابو نہیں آتے اور وہ لڑائی مار کٹائی میں
مصروف عمل رہتے ہیں اوپر سے موبائل نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہیاور جلتی پر
تیل کا کام کیا ہے۔ خصوصاٌ خواتین کو دو یا ڈھائی ہزار روپے کی خاطر سخت
مشقت کرنا پڑتی ہے۔۔ وہ مشقت صرف نشستن اور برخاستن تک محدود ہوتی ہے۔
تعلیم و تربیت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ آئے دن فنکشن کرکے سکول کے
طلبہ و طالبات کا دل بہلایا جاتا ہے اور بچوں سے فنکشن کے نام پر پیسے
بٹورے جاتے ہیں۔ اِن فنکشنوں میں انگریزی اور ہندوستانی ثقافت کی پرموشن کا
فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو ہندوستانی اور انگریزی گانوں پر
ڈانس کروایا جاتا ہے۔ ان سکولوں کی آؤٹ پٹ گھر بیٹھی رشتوں کے انتظار میں
بے چاری غریب خاندان کی لڑکیوں کی صبح کے وقت کی مصروفیت اور پھر ان سکولوں
کے بچوں میں سے ٹیوشن کے لیے بچوں کو متوجہ کرکے گھر بلوا کر ٹیوشن پڑھانا
ہے۔ اب اگر ہم بیکن ہاؤس، ٹرسٹ سکول ، سٹی سکول ، شویفات ، ایل جی ایس ،
سلامت سکول سسٹم ، کی طرف آئیں تو یہاں پر ایک بچے کے ماہانہ تعلیمی
اخراجات و آمد و رفت کے اخراجات وغیرہ ۔ کتابیں کا پیوں کی مد میں کل ملا
کر تقریباٌ 25000\= روپے سے بھی زائد تک بنتے ہیں ۔ اِس میں ایچی سن شامل
نہیں ہے۔ مذکورہ بالا سکولوں میں امیر افراد کے بچے یا سرکاری ملازم جن کی
زندگی کا اوڑھنا بچھونا حرام کی کمائی ہے اْن کے بچے پڑھتے ہیں ۔ یہ ہی بچے
ہوم ٹیو شن کے لیے 15 سے 20 ہزار روپے بھی خرچ کرتے ہیں۔ اب ذرا سرکاری
سکولوں کی حالت زار پر غور کیجئے ۔ سرکا ری سکولوں کے اساتذہ اپنے صدر مدرس
کو باقائدہ طور پر ماہانہ بنیادوں پر بھتہ دیتے ہیں تاکہ وہ اْن کے ٹیوشن
پڑھا نے کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے ۔ ہر کلاس انچارج صدر مدرس کی آنکھ کا
نارا ہوتا ہے اور وہ بچوں کو مار پیٹ کر یا کسی طرح بھی ترغیب دے کر ٹیوشن
پڑھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اور یوں یہ کاروبار صدر مدرس کی حصہ داری سے زور
شور سے جاری ہے اِ س لیے صدر مدرس کو قطاٌ پرواہ نہیں ہوتی کہ کلاس میں
سکول ٹائم میں پڑھائی کا میعار کیسا ہے۔ سرکاری سکولوں میں ہیڈ ماسٹر تمام
کلاسوں میں مختلف من پسند پبلشرز کی امدادی کتب لگواتے ہیں اور اِس میں
بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں ۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ سرکاری
سکولوں میں اساتذہ سکول ٹائم میں بھی ٹیوشن کے حساب سے کام کرواتے ہیں ۔
اور ٹیوشن کے وقت کی پڑھائی کو compensate کر ر ہے ہوتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں انتہائی تعلیم یافتہ ایم اے ، ایم ایڈ اساتذہ تعنیات ہیں
اور ان تنخواہوں کا اگر جائزہ لیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عام ٹیچر جس کی
سروس ۱۰ سال ہے اور وہ بی اے بی ایڈ ہے وہ 50 ہزار روپیسے بھی زیادہ تنخواہ
لے رہا ہے ۔
صدر مدرس لاکھ روپے سے بھی زیادہ تنخواہ وصول کرتا ہے اسکے علاوہ اساتذہ سے
ٹیوشن پڑھانے کا بھتہ علیحدہ اور امدادی کتب میں کمیشن بھی لاکھوں روپے تک
پہنچ جاتی ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے۔ کہ سکول میں چھٹی ہوتے ہی وہی
اساتذہ۔ وہی بچے اْن کمروں میں ٹیوشن ورک میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ گویا ماد
ہ پرستی نے معلمی کے پیشے کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ جو سرکاری سکول
مارکیٹوں کے پاس ہیں اْن کے صدر مدرس باقائدہ مارکیٹوں میں موجود دکاندار
کی گاڑیاں سکولوں کے اندر پارک کرواتے ہیں اور ان سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔
سرکاری سکول میں موجود ہونے والی پڑھائی اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ تھوڑے
سے وسائل رکنے والا شخص بھی سرکاری سکولوں کا رخ کرنے میں بے عزتی کرتا ہے۔
حالانکہ سرکااری سکولوں میں اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ لیکن افسوس
اخلاق نہیں رہا ، جس سے معیار تعلیم اخلاقی گراوٹ کی حد تک گر چکا ہے۔ ان
ہی سرکاری سکولوں سے جہاں حکومت اربوں روپے کا بجٹ خرچ کرتی ہے بہترین
نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ لیکن اْستاد خود بھی پیسے کمانے کی دوڑ میں
شامل ہو چکا ہے۔ اْسے تو ہر حال میں کنگ میکر رہنا چاہئے تھا لیکن وہ اپنا
فرض چھوڑ کر خود کنگ بننے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ تعلیم اور کاروبار کو
ایک پیمانے پر نہیں پرکھنا چاہیئے ۔ آیئن پاکستان کے آٹیکل 25-A میں تو
یہاں تک لکھ دیا گیا ہے ۔ کہ حکومت کا فرض ہے کہ 16 سال کی عمر تک کے بچوں
کو مفت تعلیم د ی جائے ۔ رونا صرف مفت تعلیم کا نہیں ۔ یہاں تو اذیت ناک
امر یہ ہے کہ discrimination Class نے مساوات کے داعی اسلامی ملک میں تعلیم
جیسے اہم شعبے میں افسوس ناک صورتحال اختیار کرلی ہے۔ آزادی ، رواداری
مساوات امن و آشتی اچھی تعلیم و تربیت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں ۔ یہاں
سرکاری ، پرائیویٹ ادارے ۔ مدارس ، میٹرک او لیول ، کیمبرج کیا کچھ ہماری
قوم کے ساتھ مذاق نہیں ہو رہا۔ ایلیٹ کلاس اور متوسط طبقے اپنے لیے اِس
Discrmination کی وجہ سے نچلے طبقے کے افراد کو اپنا دشمن بنا چکے ہیں ۔
یکساں نظام تعلیم جس کا مقصد اعلیٰ تعلیم و تربیت ہو بغیر کسی مذہب ، نسل
اور کلاس کے سب کی پہنچ میں ہو۔ جب راہبر ہی راہزن کا روپ دھار لیں تو منزل
تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیو ں کی فیس بھی Bs اور Ms وغیرہ
کے لیے لاکھوں روپے ہے۔ ہے۔ گویا یہ ہمارے معاشرے میں یونیورسٹی اور
کارخانے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ۔ تعلیم تو ایک مقدس فریضہ ہے اور ہمارے
دین کی اساس ہی لفظ ’’ اقراء‘‘ پر ہے۔ پھر یہ تعلیم اور کاروبار دونوں کو
ہم معنی کیوں بنا دیا گیا ہے۔ خدارا تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیجیئے بچے
خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، امیر ہوں یا غریب تعلیم سب کی پہنچ
میں ہونی چاہیئے اور یکساں نظام تعلیم وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ آئین
پاکستان کے زندگی کے تمام شعبہ جات میں مساوات کا علم بردار ہے تو تعلیم کے
معاملے میں اتنی زیادہ Discriminatiion سمجھ سے بالا تر ہے۔ مملکت خداداد
پاکستان میں علم جیسے بنیادی شعبے میں روا رکھا جانے والا یہ امتیاز مختلف
سوچ اور خیال کے طبقات کو جنم دے رہا ہے۔ اس کلاس Differance کی بناء پر
معاشرتی تفاوت، نفسیاتی رویوں میں تبدیلی اور Rulling کلاس کا غریب افراد
سے رویہ کیا یہ سب کچھ مساوات ہے۔ یکساں نصاب ، یکساں تعلیمی ادارے ، یکساں
مواقع یہ سب کچھ کون کرے گا ۔ دانش سکولوں کا قیام بہت اچھی بات تعلیم کی
خدمت ہے لیکن ذرا غور فرمایئے بجائے اس کے کہ خادم اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں
امتیاز کو جائز جانتے ہوئے غربا و مساکین کے لیے ایچیسن کے مقابلے میں دانش
سکول کھولے ہیں ۔ ہمارے ملک میں سیاست دان زیادہ تر سیاسی نعروں پر زندہ
رکھتے ہیں ۔ قوم کی تعلیمی حالت کو درست کرنے کے لیے ایک لانگ ٹرم منصوبہ
بندی درکار ہے۔ میڈیا اور اہل رائے افراد جن کی معاشرے میں نفوذ پذیری بہت
زیادہ ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور پوری
قوم کے لیے یکساں نظام تعلیم اور تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع سب کو
میسر آنے چا ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو چارٹر دے کر ڈگریاں تقسیم کرنے کا
اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن جتنی مہنگی تعلیم وہ دے رہے ہیں اور جو طبقہ وہاں
سے وہاں سے فیض پا رہا ہے وہ یقینا 10 ہزار رہو پے روپے کمانے والے مزدر
بیٹا نہیں ہے۔ Bs, Ms ڈاکٹر آف فارمیسی ، MBBS ،BDS وہ آسانی سے کر سکتا ہے
جس کے پاس لا کھوں ر وپے ہیں۔ کیونکہ پرائیویٹ ادارے ہر شہر میں ہر طرح کی
ڈگریاں دینے کے مجاز ٹھرے ہیں۔ اُن کی فیسوں کا یہ حال ہے کہ وہاں صرف
ایلیٹ کلاس کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں۔ کیا یہ آئین پاکستان کے انسانی بنیادی
حقوْ ق کے آرٹیکل کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے۔سرمایہ دراہ نظام کے ظالمانہ
نظام نے ترقی پزیر م مالک میں عموماً اور ہمارے ملک میں خصوصاً ہر شعبے کو
اپنا یرغمال بنا رکھا ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی سو چ
اور فری مارکیٹ کے نام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ پاکستانی نظامِ تعلیم کو بچانے
کے لیے ایک بھرپور تعلیمی ایمر جنسی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی قومی تحریک جس
کا سلوگن بس ایک ہی ہونا چاہیے کہ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی۔ روحانی تربیت
کا گہوارہ سمجھے جانے والے ادارے جن کو صفہ جیسے نبی پاکﷺ کے قائم کردہ
اداروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ محض صرف مادہ پرستی سے بھر پور پیسہ کما نے
والی دکانیں بن کر رہ گی ہیں۔نبی پاک ﷺ کو اﷲ پاک نے خود براہ راست علم سے
نوازا۔ اور آقا نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد کہ میں معلمِ انسانیت بنا کر بھیجا
گیا ہوں۔ لفظ اقراء سے دین کی مساعی کا آغاز ہوا۔ قرانِ پاک ایک الہامی،
علمی ، تحقیقی ، تاریخی ۔ سبق آموز، ہدایت کا سرچشمہ کتاب ہے۔ صاحب قران کی
فضیلت یعنی نبی ﷺ کی عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ نبی پاکﷺ نے کہا اے صحابہؓ یہ
میں نے جو آپ کے سامنے بات کی ہے یہ قرانِ پاک ہے۔اور اگر آپﷺ نے یہ
فرمادیا کہ صحابہ یہ بات حدیث ہے تو صحابہ اکرامؓ نے اُس بات کو حدیث تسلیم
کیا۔ جب آقا کریمﷺ کی ٹصدیق سے قران پاک کو قران تسلیم کیا جارہا ہو تو پھر
اس لاریب کتاب کی عظمتوں کا عالم کیا ہو گا۔اور تصدیق کرنے والی ہستی نبی
پاکﷺ کی عظمتوں ، رفعتوں کا عالم کیا ہو گا۔ہمارے معاشرے میں تعلیمی ماحول
میں مشنری جذبے کی کمی ہے، علم حاصل کرنے والوں کے درمیان محبت خلوص جیسے
الفاظ بے معنی بن کر رہ گے ہیں۔ اسا تذہ کا روپے پیسے کی دوڑ میں شامل ہو
جانا ایسے ہی ہے کہ سانپو ں کی طرح معاشرہ اپنے ہی انسانو ں کو نگل رہا ہے۔
اشرافیہ نے اپنی رہائیش کے لیے علحیدہ اُونچی اور خاردار تاروں کی فصیلوں
میں اعلیٰ درجے کی رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں اسی طرح اُنھوں نے اپنے لیے
علحیدہ تعلیمی نظام اور علحیدہ تعلیمی ادارے قائم کر لیے ہیں۔ یہ تو انصاف
اور مساوات پر مبنی معاشرے کی حالت نہیں لگتی البتہ یہ تو چھوت چھات کے
قائل اُس معاشرے کی کہانی لگتی ہے جس سے ہم نے آزادی ہی اس مقصد کے لیے حا
صل کی تھی ہم مساوات، رواداری اور ا پنے رب پاک کے احکامات کے مظابق معاشرہ
تشکیل دیں گے جو کہ اطیواﷲ واطیوالرسول کے عظیم نصب العین پر قائم ہو گا۔
جہاں لارڈ میکالے کی سوچ سرایت نہ کر سکے گی جہاں ما دہ پرستی کی بجائے اُس
نظام کا بول بالا ہوگاجو کہ ہمارے نبی پاکﷺ نے ہمیں دیا۔ پاکستانی معاشرے
میں زبردست خالص علمی و فلاحی تحریک کی ضروت ہے۔اس مقصد کے لیے ہارے پاس
نبی پاکﷺ کا اسوہ حسنہ اور اُن پر نازل کردہ الہامی کتاب موجود ہے۔ صرف عمل
کی ضرورت ہے۔ اس مْقصد کے لیے ایسے بیدار مغز افراد کی ضرورت ہے۔ جو روحانی
اقدار کا پرچار کرنے والے بھی ہوں اور اُن کو حضر ت امام غزالیٰؒ، داتاعلی
ہحویری،ؒ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی نسبتوں کا بھرم رکھنا آتا ہو ۔نبی پاک ﷺ
کے سچے عاش ہی پوری قو م کا بھرم رکھ سکتے ہیں۔ |
|