یہ درست ہے کہ انسان کی فنکاری
بعض اوقات قدرت کو شرما دیتی ہے اور وہ اپنے ہاتھوں سے ابدی تصویریں بنا
جاتا ہے۔ فطرت نے ریت کے ٹیلے بنائے ہیں اس نے اہرام مصر جیسی عمارتیں
بنائی ہیں فطرت کی شب تاریک میں روشنی کرنے کیلئے اس نے چراغ ایجاد کیا۔ یہ
ذوقِ تسخیر فطرت ہے جو انسان کو ہر لمحہ محوِجستجو اور سراپا اضطراب بنائے
رکھتا ہے اور اس کے اس ذوق کے سامنے عناصر لرزہ براندام ہیں اس ساری مادی
ترقی اور خاکی عروج کے باوجود انسان بہرحال انسان ہے اورقدرت کے سامنے بے
بس اور لاچار ہے اور قدرت قادر و مختیار۔ قدرت کی آزمایشوں کا مقابلہ یہ
فانی انسان نہیں کر سکتا اور جب قدرت اپنا اظہارکرتی ہے تو اس کے رُوبرو
انسان عاجز و بیچارہ نظر آتا ہے،زلزلے آتے ہیں پل بھر میں آسمان سے باتیں
کرتی ہوئی عمارتیں زمیں کے ساتھ ہموار ہو جاتی ہیں۔جھکڑ چلتے ہیں مضبوط
بنیادیں ہل جاتی ہیں جس سے بچاوٗکی تمام تدابیر رائیگاں نظر آتی ہیں ۔ ہم
تمام تر ترقی کے باوجودکوئی ایساطریقہ دریافت نہیں کر سکے جس کے ذریعے ان
قدرتی آفات کو روکا جاسکے۔زلزلے کے متعلق مختلف مذاہب میں مختلف روایات
زبان زدعام ہیں ان کا حقیقت سے کیا تعلق ہے اس بحث میں ہمیں نہیں پڑنا
چاہیے تاہم سائنیسی تحقیقات کی رو سے زمین پر اس وقت زلزلہ آتا ہے جب زیر
زمین ارضی( پلیٹس) اپنے مقام سے سرکتی ہیں ۔ یہ ایسی تباہی ہے جو چند سیکنڈ
کے اندر کسی بھی ملک اور شہر کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے ۔زلزلہ کے بعد
آنے والے آفٹر شاکس قدرے کم شدت کے ہوتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ آفٹرشاکس کا
انحصار زلزلہ کی شدت پر ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے اکتوبر کا مہینہ پاکستانیوں کو ایک ایسے سانحے کی یاد دلاتا ہے
جسے شاید برسوں تک بھلایا نہ جا سکے یہ تباہ کن زلزلہ اسی ہزار لوگوں کی
جانیں لے گیا، دو لاکھ سے زائد افراد زخمی ہوئے اوراتنے ہی خاندان بے گھر
ہوگئے ۔ اس بار بھر اکتوبر کے ہی مہینے کی چھبیس تاریخ کووطن عزیز کے
باسیوں کے اندر صف ماتم بچھاگئی۔ ریکڑ اسکیل پر 8.1 ریکار ڈ زلزلے کی شدت
نے پورے ملک پر لرزہ طاری کر دیا لوگ خوف کے مارے عمارتوں ،دفاتر اور گھروں
سے کلمہ طیبہ کاورد کرتے ہوئے کھلے میدانوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ زلزلے
کی شدت سے جھولتی ہوئی عمارتیں دیکھ کر قیامت صغریٰ کا منظر آنکھوں میں
گھومنے لگایہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ شدت کا زلزلہ تھا زلزلے کی
گہرائی 193 کلومیٹر بتائی گئی جبکہ اس کا مرکز ہمسایہ ملک افغانستان تھا
۔2005ء میں آنے والا زلزلہ 7.6 شدت کا تھا تاہم معجزانہ طور پر جتنے نقصان
کا اندیشہ تھا اتنا تو نہ ہوا مگر پھر بھی خیبر پختون خواہ میں بہت زیادہ
مالی نقصان ہوا سینکڑوں افراد چھتوں سے محروم ہو گئے۔300 سے زائد ہلاکتیں
اور ہزاروں زخمیوں کی اطلاعات جو کہ عمارتوں کا ملبہ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ
بڑھتی جا رہی تھیں پاک فوج اور سول انتظامیہ خاصی متحرک نظر آئی تاہم کہیں
کہیں سے انتظامی غفلت اور لاپرواہی کی رپورٹ بھی میڈیا پر آئی تاہم اتنی
بڑھی تعداد میں تباہی کے پیش ِنظر حکومتی سطح پر ہر ادارہ متحرک رہا خاص
طور پر ہسپتالوں میں زخمیوں کی دیکھ بھال میں خاطر خواہ بہتری آئی ۔
پاکستان اور ہندوستان کافی عرصے سے زلزلہ کی فالٹ لائنز پر بتائے جا رہے
ہیں جہاں پر عموماًزیادہ زلزلے آتے ہیں۔ اولین فالٹ لائن ہندستان اور
پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے افغانستان، ایران اور پھر
ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ میں یوگوسلاویہ سے فرانس تک جاتی ہے ۔
دوسری فالٹ لائن براعظم شمالی امریکہ کی مغربی ریاست الاسکا کے پہاڑی سلسلے
سے شروع ہو کر جنوب کی طرف میکسیکو سے گزر کر لاطینی امریکہ کے ممالک
کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے چلی تک پھیلی ہوئی ہے۔ تیسری فالٹ لائن
جاپان سے شروع ہوکر تائیوان، فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور انڈونیشیا تک
جاتی ہے۔ اس حوالے پاکستان میں حکومت کو تعمیرات کے حوالے سے سائینسی
بنیادوں پر پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ تعمیرات میں مناسب منصوبہ بندی کے
ذریعے زلزلوں میں ہونے والے نقصانات پر کسی حد تک قابوپایا جا سکتا ہے لہذا
حکومت کو چاہیے کہ وہ تعمیرات کے حوالے سے چاروں صوبوں میں زلزلے کے حوالے
سے خصوصی اقدامات کو مدنظر رکھ کر گھروں ، عمارتوں ، دفاتر اور سکولوں
وغیرہ کی تعمیرات کا ایسا شیڈول جاری کرے جس سے پاکستان میں آنے والے زلزلے
کے نقصانات کو اگر روکا نہیں جا سکتا تو کم از کم کسی حد تک کم کیا جا سکتا
ہے۔مذہبی حوالے سے بھی اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنی زندگی قرآن و سنت کے حوالے
سے گزار کر اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا جا سکتا ہے ہم مصیبت میں اﷲ تعالیٰ
کو یاد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ موت ہمارے سر پر منڈلا رہی
ہوتی ہے بعدازاں پھر ہم اپنی بداعمالیوں پر رواں دواں رہتے ہیں۔ بقول شاعر
ـ" ذرا سی زمین کیا ہلی سب کو خُدا یاد آگیا" |