شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ اور امت مسلمہ

علامہ اقبال ؒ عالم اسلام کی عظیم ترین ہستی کا نام ہے ایسی ہستی صدیوں بعد پیدا ہواکرتی ہے اگر یہ کہہ دیا جائے اس مفکر،مدبر،انقلابی ،نظریاتی شاعر کی الحامی،دردر دل سے لبریز،عارفانہ،مجددانہ،فقیہانہ شاعری سے برصغیربالخصوص پاکستان نے کوئی رہنمائی،درس عبرت،راہ راست نہیں سیکھی تو بے جا نہ ہوگااگر دوسرے شعراء کے اشعار پر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے توپتہ چلے گا کہ ماسوائے چند ایک کے کثیر الجہتی شاعر نہیں تھے جو تھے وہ علامہ اقبال کے سامنے بچوں کی حیثیت رکھتے ہیں اکثر کی شاعری عورت ومرد،لڑکے ولڑکی کے عشق کے گردمحو گردش نظر آتی ہے مگر قدرت نے علامہ اقبال ؒکے دل ودماغ میں امت مسلمہ سے بے پناہ،حد درجہ عشق و محبت ،جنون کی حد تک مسلمانوں کی اصلاح کا جذبۂ صادق موجذن کر رکھا تھا اگر ہماری قوم علامہ اقبالؒ کی شاعری ،شخصیت کو اپنا آئیڈیل سمجھ کر اسے اپنے لئے مشعل راہ بنا لیتی تو آج ملک اس خطرناک،افسوس ناک،المناک موڑ پر کھڑا نہ ہوتا،اقبالیات کے ماہرین کی تحریرات متعدد بار پڑھنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے ان کا کہنا ہے کہ اقبال کی شاعری امت کیلئے پیام صبح ،نوید انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ علامہ ؒ کی شاعری قرآن وحدیث،اسلام ،خلفائے راشدین ؓ کے نظام خلافت ،اعمال صحابہ ؓ،اہل بیتؓ،اولیاء اﷲؒ کی تعلیمات کی توضیع وتشریع اور ترجمان ہے آپ ؒ کی شاعری میں عشق رسولﷺ ،عشق قرآن،مومن، خودی،فقر،شاہین،عشق،علم وعمل کا عنصر غالب ہے جس نے ادب کو نئی اصطلاحات سے متعارف کروا کر اسلام کی وکالت اورمغربی تہذیب کابڑی شد ومد سے رد کیا ہے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں تما م طبقات کو خطاب کیا آپ ؒ نے شاعری کے ذریعے مسلمانوں کی لازوال ترقی، خوشحالی کے موضوع پر خلوص دل سے رہنمائی کی ہے جس کی جھلک آج بھی دیکھی جاسکتی ہے ارباب علم ودانش مسلمانوں کو علامہ اقبال کی شاعری اور انکی شخصیت کو بطور آئیڈیل بنانے کو ہر وقت درس دیتے نظر آتے ہیں

٭علامہ اقبال ؒ کو حضور ﷺ سے بہت زیادہ عشق تھا حضور ﷺ کا تذکرہ سنتے ہی آپ ؒ کی آنکھیں پرنم ہوجاتیں،آپؒ کے معتدد دوست آپ ؒ کے عشق رسولؐ کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں سچا عاشق رسولﷺ ہونے کی وجہ سے آپ ؒ کو دربار رسول ؐ سے کئی بار سلام آیا ،جب ہندو گستاخ رسول کو غازی علم دین شہید ؒ نے جہنم واصل کیا تو آپ ؒ نے تاریخی جملہ ارشاد فرمائے کہ لوہاراں دا پتر بازی لے گیا اسیں دیکھے دے ای رہ گے، اس بات کا عملی ظبوت ہے کہ علامہ ؒ بھی اس گستاخ کو قتل کرنے کا عزم رکھتے تھے ۔غازی علم دین شہید ؒ کے اس جرأت مندانہ اقدام کے بعد علامہ اقبال ؒ نے شمع رسالے کا پروانہ بن کر غازی علم دین شہید کا بھر پورساتھ دیا ۔عشق رسول ﷺ کے ترانے شاعرانہ انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں
قوت عشق میں ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسم محمدﷺ سے اجالا کر دے
کی محمد ﷺ سے وفا تونے، توہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا،لوح وقلم تیرے ہیں

٭قرآن فہمی کا جو مقام علامہ اقبال ؒ کو نصیب ہوا اسے بڑے بڑے علم وفضل کے حاملین بھی نہ پا سکے قرآن مجید کے حقیقی پیغام کو شاعری میں ڈھال کر شاعری کی طرف رغبت کرنے والوں کو انوکھے انداز میں درس قرآن دیا اگر یہ کہہ دیا جائے کہ علامہ کی شاعری قرآن مجید وسنت رسولﷺ کی عملی تشریح ہے تو بے جا نہ ہوگا قرآن فہمی کا جو انداز علامہ اقبالؒ نے اپنا اس سے قبل اسے کسی شاعر نے ایسے نہیں اپنایاان کی دلی خواہش تھی کہ ہر مسلمان قرآن وسنت کو حقیقی معنوں میں سمجھے ۔ رجوع الی لقرآن ہر مسلمان میں بدرجہ اتم دیکھنا چاہتے تھے آپ ؒ نے قرآن کی جانب راغب ہونے کا کچھ اس طرح درس دیا ہے
قرآن میں ہوغوطہ زن ، اے مرد مسلماں اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ راز کسی کونہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن
٭انہوں نے بچوں کیلئے پہاڑ اور گلہری،جگنو ،بچے کی دعا جیسی متعدد نظمیں پیش کرکے انہیں غرور وتکبر ،خود نمائی کی بجائے عاجزی، انکساری ،نیکی،خدمت خلق،بڑوں کے احترام کا درس دیا
٭علامہ اقبال ؒ قو م کے نوجوانوں کو مستقبل کا سرمایہ سمجھتے تھے اپنی شاعری میں نوجونوں کو مستقل طور پر اپنا موضوع بنایا اسی لئے ان کی خوب رہنمائی کی جس کی جھلک پیش کی جاتی ہے
کبھی اے نوجواں مسلم!تدبر بھی کیاتونے ؟ وہ کیاگردوں تھا،توجس کا ہے اک ٹوٹا ہواتارا
تجھے اس قوم ے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالاتھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
پرواز ہے دونوں کی اسی فضا میں ایک کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
جاوید نامہ میں اپنے بیٹے ہی کو نہیں بلکہ امت کے نوجوانوں سے یوں گویا ہیں
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں سفال ہند سے مینا وجام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر میرے ثمر سے مئے لالۂ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
مزید فرماتے ہیں کہ
جوانوں کو سوز جگر بخش دے میرا عشق ،میری نظر بخش دے
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
٭ہرمسلمان فرد کو ملت کا قیمتی ہیرا خیال کرتے ان سے ہم کلام ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لیکر تاب خاک کاشغر
٭قابل تقلید شاعری میں طالبعلموں کو پورے درد سے اسطرح خطاب کرتے ہیں
جوپایہ علم سے پایا بشر نے فرشتوں نے بھی وہ پایہ نہ پایا
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
٭اسلامی نظام خلافت کی اہمیت علماء کرام میں یوں بیان کرتے ہیں
ٓٓملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
٭آپ ؒ کا نظریہ تھا کہ خلافت اسلام کانظام سیاست اور جمہوریت یہود ونصاریٰ کا نظام سیاست ہے جمہوریت کومسلمانوں کاقاتل قرار دیتے تھے آپ ؒ کی شاعری میں اس کا جا بجا بیان ہوا ہے آپ ؒ نے کھل کر انسان ساختہ ،باطل،طاغوتی نظاموں کے خلاف اپنی شاعری میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سیاستدانوں سے طرز حکمرانی پہ کلام کررہے ہیں کہ
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ،ممبری،کونسل،صدارت بنائے خوب آزادی نے پھندے
اسلامی نظام کا تعارف اور اسکی اہمیت ،اسے قائم کرنے کی تلقین ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ
تا خلافت کی بنا،دنیا میں ہو پھر استوار لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر
عقل ہے تیری سپر،عشق ہے شمشیر تیری مرے درویش !خلافت ہے جہانگیر تیری

شاعر مشرقؒ کی شاعری اہلیان پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کی بہت بڑی ضرورت ہے مسلمان علامہؒ کی روحانی ،فکری،انقلابی شاعری کو مشعل راہ بنائیں علامہ اقبال ؒ کی شاعری پر غور وفکر کرنے سے پاکستان اپنی نظریاتی اساسی منزل پاسکتا ہے جو آج تک حاصل نہیں کی جاسکی کیونکہ آپ ؒ نے مسلمانوں کی دکھتی ہوئی رگ کو خوب سمجھا اور انکے مرض کی صحیح تشخیص کرکے تصور پاکستان کی صورت میں نسخہ بھی دے دیا علامہ ؒنے قیام پاکستان میں عملی طور پر حصہ لیا اوراپنی شاعری کے بل بوتے پر پورے خلوص کی تنہائیوں ،درد ،محبت کے ساتھ انگریز کے نظام کو زمیں بوس کرنے کیلئے ان تھک کاوشیں کیں تحریک پاکستان میں انقلابی روح بیدار کرنے کیلئے شاعری کو بطور آلہ استعمال کیا جسمیں علامہ اقبال ؒ کو سو فیصد کامیابی ملی آپ ؒ کی شاعری ہر دور کیلئے راہ حق کی نشان منزل ہے اب جبکہ مسلمانان پاکستان بحرانوں کا شکار ہیں ہر طرف سے دشمنوں نے پوری طاقت،منصوبے،جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر ہمیں گھیر لیا ہے اس حصار کو توڑنے کیلئے قوم کے ہر فرد کو علامہ اقبال ؒ کی شاعری سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی کیونکہ علامہ اقبال ؒ ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے دنیا آج بھی فیض حاصل کر رہی ہے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.