’’لاہور سے ملحقہ صنعتی علاقے
سندر اسٹیٹ میں چار منزلہ فیکٹری زمین بوس ہو گئی…… سینکڑوں مزدور دب گئے……
بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ……‘‘ ٹی وی چینلز نے دھماکہ خیز انداز میں
خبریں چلانا شروع کیں تو بے شمار دل دھک دھک کرنا شروع ہو گئے۔ چار منزلہ
دیوہیکل عمارت جب زندہ انسانوں پر گری ہوگی تو ان پر کیا گزری ہو گی…… کتنے
ہوں گے جو اس ناقابل بیان بلکہ خیالات کے بھی پرخچے اڑا دینے والے تصور کو
دل و دماغ میں لانے سے قاصر ہوں گے۔ ہاں،نیچے دب جانے والوں کا تو شاید اب
جسم کا کوئی حصہ بھی نہ مل سکے…… ناز ک اندام انسان کو تو کانٹا
چبھے،ناقابل بیان تکلیف دیتا ہے اور جب تک وہ کانٹا نکل نہ جائے، تن بدن کو
سکون نہیں ملتا۔ جب ہزاروں من سیمنٹ اور لوہے کی چھتیں، دیواریں اور وہاں
نصب آہنی مشینری گری ہو گی تو کیسی قیامت بیتی ہو گی……؟کہنا شاید پھر بھی
کچھ آسان ہو لیکن یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنا مشکل ہے……ہاں، شاید دیکھ بھی
لیں لیکن یہاں سے لوگوں کو نکالنا پڑ جائے تو کیا ہو گا……؟ اف میرے خدا! بس
سب دست بدعا ہی ہو سکتے ہیں کہ الٰہی! سلامت رکھنا۔
سندر اسٹیٹ فیکٹری کا حادثہ تھا یا قیامت صغریٰ۔ اسی قیامت کی خبر ملتے ہی
ہلکے زرد رنگ کی جیکٹیں پہنے اور داڑھی کی سنت سے مزین چہروں والے نوجوانوں
کی ایک فوج قطار اندر قطار یہاں آن کھڑی ہوئی جس کی کمان فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن لاہور کے انچارج محمد زبیر کے پاس تھی۔ سامنے ناقابل بیان منظر
تھا ، فیکٹری کی چار چھتیں ایک دوسرے پر گری پڑی ہیں اور نیچے دبے انسانوں
میں سے چند ایک کے کراہنے، رونے اور جان بچانے کے لئے ان کی دہائیاں دل چیر
رہی تھیں تو رات کے اندھیرے گہرے ہو رہے تھے ۔یہاں پہنچنے والے ان لوگوں کے
پاس خالی اور ننگے ہاتھ پاؤں کے علاوہ تو کچھ نہ تھا۔ اب یہ کیسے ہو کہ چار
چھتیں توڑکر ہزاروں من کے طوفانی ملبے کو ایسے ہٹایا جائے کہ نیچے دبے
لوگوں کو زندگی ڈور پھر سے بندھ جائے۔یہ جوان فیکٹری ملبے سے ٹکرانا شروع
ہائے تو ان کے ہاتھوں کی چمڑی ادھڑنے لگی۔ پاؤں چھلنی ہوئے، پسینے چھوٹے،
جسم میں ورم پڑے۔ ان کے خون کے قطروں سے کنکریٹ اور لوہا سرخ رو ہونا شروع
ہوا اور پھر…… ڈیڑھ گھنٹے کی جاں گسل جدوجہد کے بعد 40 فٹ تک راستہ بنا کر
محمد عثمان جیسے ’’خدائی خدمت گاروں‘‘نے ایک کے بعدایک زندگی کو باہرنکال
کر دکھا دیا۔دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی تھیں کہ یہ سب کیسے ہو
رہا ہے……؟ ٹی وی چینلز نے خبریں دکھائیں تو ہر کیمرے کے سامنے FIFکے رضاکار
جسم و جان کی فکرسے آزاد دوسروں کو بچانے کی دھن میں سرگرداں نظر آنے لگے……
ان کا ٹی وی سکرین پر نظر آنا تھا کہ ان کے باہر کی دنیا میں بیٹھے دشمنوں
کے پسینے چھوٹنا شروع ہو گئے…… اوئے! یہ کیا؟ ان کی تو میڈیا کوریج پر
پابندی لگوائی تھی…… پھر یہ نظر کیوں آ رہے ہیں…… کوئی مرتا ہے تو مرے،
زندہ رہے تورہے، لیکن ان کا تو ہم جود جہان دنیا کو دکھا نہیں سکتے…… فوری
حکم نامہ آیاتو ناقابل قبول نام، ناقابل قبول وضع قطع رکھنے والوں کو’’
ہاتھ پاؤں باندھ‘‘ کر دور تماشائی بنا دیا گیا۔ ایک طرف ڈوبتی سسکتی
زندگیاں تھیں تو دوسری طرف مجبوری کی زنجیروں میں جکڑے فیصلہ ساز۔ زندگی
بچانے کے لئے زمین کا سینہ چیرنے والی آہیں، زاریاں اب ڈوبتے سورج کی طرح
ماند پڑ ،روحیں پرواز کر رہی تھیں لیکن ان فدائیوں کوبچانے کی اجازت نہ
تھی…… اندر دبے کچھ لوگ مو بائل فون سے کالیں کر کے باہرپیاروں کو زندگی کی
بھیک کیلئے صدائیں دے رہے تھے کہ اسی طرح طویل رات بیت گئی۔ اگلی صبح ان
لوگوں کو اجازت ملی تو دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنے آہنی جذبوں سے
کنکریٹ کو چیر پھاڑناشروع کیا اور 17 زندہ جانوں کو موت کے منہ سے کھینچ کر
سب کے سامنے لا کر رکھ دیا…… لیکن یہ کیا……؟ پھر سے حکم تھا کہ تمہارے پاؤں
میں زنجیر ہے…… تم بس پرے ہی رہو۔ انہی گھڑیوں میں مسیحائے امت حافظ محمد
سعید بھی آن موجود تھے۔ عزم و ہمت کے پہاڑ، حوصلہ و جرأت کی چٹان نے اپنے
جاں نثاروں کو حکم دیا کہ جو سرکار کا حکم ہے ،سر آنکھوں پر، سب اکٹھے ہو
جاؤ…… یہاں آئے سبھی لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور جب کبھی،جہاں کہیں ضرورت
پڑے، موقع ملے ،آواز لگے تو اس جنگ میں کود جاؤ…… حافظ محمدسعید سیدھے جناح
ہسپتال پہنچے، زخمیوں کی تیمارداری کی…… ورثاء کودلاسہ دیا۔ یہ کیسا کرب و
بلا کا منظر تھا کہ لاہور سے کتنے ہی کارکن اور ان کی گاڑیاں زلزلہ زدہ
صوبہ خیبر میں مصروف عمل تھیں لیکن یہاں بھی آناً فاناً دو سو آن موجود
ہوئے توپچاس گاڑیاں ساتھ کھڑی تھیں۔ لوگوں کوملبے سے نکالنے پر پابندی لگی
تو شریف ہسپتال اور جناح ہسپتال میں معلوماتی بناکر لواحقین کی رہنمائی
شروع کر دی ۔
وہی جو روکنے والے تھے، اب یہ انہی سمیت سب کے لئے کتنے دنوں سے تین وقت
مسلسل نان جویں کا اہتمام کر کے ان کے پیٹ کی بھوک بجھا رہے تھے۔ کسی جاں
بلب کے لئے خون کے عطیہ کا لمحہ آیا تو13 نے اپنے جسم کی زندگی کے قطرے
سپرد کر دیئے۔ ہسپتالوں میں ہر طرف کسمپرسی تھی۔ غربت و عسرت کے ماروں نے
اپنے معصوم لخت جگر فیکٹری بھیج رکھے تھے۔ایسے کہ جگر گوشوں کے مسلے ہوئے
ٹکڑے بھی لے جانے سے قاصر تھے۔ یہی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار آگے
بڑھے، دوچار نہیں ،25ایسی میّتوں کو غسل دے کر کفن پہنایا اور تابوتوں میں
رکھ کر آگے پہنچایا کہ جنہیں میت کہنا آسان اور سمجھنا مشکل تھا ۔ حالت یہ
تھی کہ دو رضاکار اس مشن و کاوش میں بے ہوش ہو کر گر گئے۔ قیمت پوچھو تو
لکڑی کا ساڑھے چار ہزار کا تابوت،غریب کیسے خریدے اور پھر لاش کے ٹکڑے دور
دراز کیسے لے کر جائے؟ کہ یہ تو کہہ سکے کہ اپنے بچے کو آپ دفنایا ہے۔
تابوتوں کا انتظام کرنے کے بعدجو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز حاضر
تھیں۔سرگودھا سے لے کر مظفر گڑھ تک یہ ایمبولینسیں جا رہی تھیں۔ روکنے والے
تو روک کر مطمئن ہو چکے تھے کہ ہم اب انگلی اٹھانے کو جواب دے سکتے ہیں کہ
دیکھو! جو تم نے کہا ،ہم نے کر دکھا یا۔ ۔اب وہ کہیں دکھائی نہیں دے
رہے……جناح ہسپتال میں ایک غریب دوڑتا آیا،بتانے لگا کہ 12ہزار میں
ایمبولینس بک کروا کر آیا ہوں، بس تابوت لو اور چلو…… محمد زبیر فوراً گویا
ہوئے کہ جب ہم موجود تو 12ہزار کی کیا ضرورت……فوریFIFایمبولینس حاضر ہوئی
اور تابوت لے کر روانہ ہو گئی۔ وہ جو اپنے جگر گوشوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر
جا رہے تھے، اب جھولیاں اٹھا اٹھاکران تھک خدمت گاروں کودعائیں دیتے، حافظ
محمد سعید کے لئے رب کے حضور آنسوؤں کے نذرانے دے کر التجائیں کرتے جا رہے
تھے۔ دوسری طرف ملبے کے ڈھیر تھے۔ تیسرا دن طلوع ہو رہا تھا کہ نیچے دبے
لوگوں کی دفن ہوتی سسکیوں کو دیکھ کریہ رضاکار پولیس سے کہہ رہے تھے کہ اگر
ہمارے دشمن راضی نہیں تو ہمFIFکی جیکٹیں اتار دیتے ہیں، بس ہمیں آگے جانے
دو……لیکن کچھ بن نہیں پا رہا تھا کہ بے تحاشا بھاری مشینری کے استعمال،
سرکتی کنکریٹ کی چھتوں اور گرتے ستونوں نے آہستہ آہستہ قبرستان کی سی
خاموشی طاری کر دی۔ تین دن رات مکمل ہو گئے…… کوئی اگر مسلسل کھانا لانے
اور کھلانے والا ہے تو یہی کہ جنہیں بغیر زنجیر کے باندھا گیا تھا ۔ تین دن
رات جاگ کر دوسروں کے لئے اپنا آپ داؤ پر لگانے والے اب آرام کیلئے گھروں
کو تو پہنچے لیکن دل قاش تو جگر پاش پاش تھے۔ محمد زبیر کہنے لگے کہ نیند
کیسے آئے……؟ لیٹتے ہیں توملبے تلے دبے زندگی کی بھیک مانگتے ،بے کسوں کی
منتیں، زاریاں دماغ میں ہتھوڑے بن کر ضربیں لگاتی ہیں اور نیند کوسوں دور
بھاگ جاتی ہے۔ اگر کوئی سہارا وتشفی ملتی ہے تو ان درد ماروں کے ترسیدہ
ہونٹوں اوربرستی آنکھوں سے نکلی دعاؤں سے ملتی ہے کہ جو وہ آج تک ہمارے لئے
فیکٹری کے ملبہ پر، اس کے چار اطراف، ہسپتالوں میں اور پھر اپنے گھروں سے
فون پر ہمارے لئے کرتے ہیں۔اسی متاع گراں مایہ سے جینے کی جنگ جاری ہے اور
بس…… |