میرا کیا قصور ، تم نے کیوں سوچا تھا کہ ایسا ہی ہو گا ؟
یہ وہ جواب ہے جو آپ کو اکثر سننے کو ملتا ہے جب آپ نے کسی کو کوئی کام کہا
ہو اور جب کچھ وقت بعد پتا چلے کہ کام یو ہوا نہیں اور پھر آپ کی جو حالت
ہو وہ آپ کو پتا ہی ہے.
ہوتا یہ ہے کہ ہم کسی کو صرف کام کا نہیں کہتے بلکہ ساتھ میں ہو جانے ہی
امید بھی نتھی کر آتے جو اصل وجہ ہے مسلے کی. کام ہو جانے کی اچھی امید
لگانا ایک فطری عمل ہے اور امید ٹوٹ جانے میں غصّہ یا رونا آنا بھی فطری
بات ہے . تو پھر قصور کس کا نہ آپ کا، اس اسکا جس کو کام کہاں ، قصور صرف
ہے امید کا.
تو دوستو سادہ سا حل ہے یہ ہے کہ کسی بندے کو بھی کام کہنے کے بعد اپنی
امید ایک چھوٹی سی دعا کے ساتھ نتھی کر کے رب کو بھیجا کریں صرف، پھر
دیکھیے گا کام کیسے ہوتا اور اگر پھر بھی نہ ہوا تو اپنی یقین والی الماری
سے ایک بھروسہ اٹھایے گا جس پے لکھا ہو کہ اس کام کے ابھی نہ ہونے میں کوئی
رب کی مصلحت ہے. نہ تو پھر آپ چڑچڑے ہو کر شکل بگاڑیں گے نہ ہی غصّے سے رنگ
برنگ ہو گے. تبھی تو جناب علامہ محمد اقبال صاحب نے بھی فرمایا کہ " پوستہ
رہ شجر سے امید بہار رکھ"
سمجھ آ گئی ہو تو ذرا چھوٹے ، بڑے سب دوستوں کو بھی بتا دینا اور کہنا کہ
پرامید شخص پریشانی میں بھی کامیاب ہونے کا موقع نکل لیتا ہے کہ تب الله
بھی ایسے ہی لوگوں کی مدد جلدی کرتا ہے جو مایوس نہیں ہوتے ہیں. اس لئے صرف
اور صرف اپنے رب پہ امید رکھنا کیوں کہ
مالی دا کم پانی دینا، پر پر مشکاں پا وے
خالق دا کم پھل پھول لانا، او لاوے نہ لاوے |