کتاب میلہ پروگرام کے مطابق اختتام کو پہنچا۔ کراچی میں
آج اس علمی ، ادبی، کتابی دلچسپی کا آخری دن تھا۔ لوگ پہلے دن کی طرح جوق
در جوق چلے آرہے تھے۔ ہم نے آج بھی اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے لیے کتاب
میلے کا رخ کیا۔ فیضؔکے تمام شعری مجموعوں پر مشتمل مجموعہ ’’نسخہ ھائے وفا‘‘
جنگ پبلی کیشن کے اسٹال پر ملا۔ دیکھ کر خوشی ہوئی سوچا کہ چلو یہ مجموعہ
پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر مل جائے گا۔ معلوم ہوا کہ جنگ صرف اپنی ہی مطبوعات پر
یہ ریاعت دے رہا ہے دیگر اداروں کی کتب پر مشکل سے بیس فیصد ، فیضؔ کے اس
مجموعہ پر وہ بھی نہیں۔ کافی بحث مباحثہ کیا لیکن ہاتھی کے دانت دیکھنے کے
اور دکھانے کے اور والی مثال ہے۔ بڑے بڑے اشتہار ، لوگوں کے جم غفیر کا
واویلا ، زیادہ سے زیادہ ریاعت دینے کے دعوے اور حقیقت اس کے برعکس۔ پیاسے
کو تو پانی پینا ہی ہوتا ہے ، ہم اس مجموعہ کو ہر صورت میں لینا چاہتے تھے
سو منہ مانگی قیمت دی ۔ کتاب میلے کی بعض کتابیں ایسی تھیں کہ جن پر کوئی
ڈسکاؤنٹ نہیں دیا جارہا تھا اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کتب کی ڈیمانڈ
بہت ہے۔ان میں سے ایک فیض ؔ کا یہ شعری مجموعہ ’نسخہ ھائے وفا‘ بھی تھا۔
اچھی کتاب کے مل جانے کا سرور سب کچھ بھلا دیتا ہے۔پہلے دن ہم صرف ایک ہال
کے اسٹالوں پر گھومے تھے، ابھی دو ہالوں کے اسٹالوں پر سجی کتابوں کو دیکھ
کر اپنی علمی پیاس بجھانا تھی، آخری دن بھی تھا اور ملتان سے ہمارے ایک
عزیز عبد الحمید خالد نے فرمائش کی تھی کہ ہم صبیح رحمانی جو ایک خوش فکر و
خوش ادا اور خوش نظر و خوش نوا نعت گو ہیں کے اسٹال ’’نعت ریسرچ سینٹر‘ پر
حاضری دیں۔ فصیح رحمانی شام چار تا سات اپنے اسٹال پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔
ہماری خوش قسمتی کہ ہم اسی وقت ہال نمبر دو میں پہنچے فصیح رحمانی نعت
ریسرچ سینٹر کے اسٹال پر موجود ایک صاحب سے گفتگو میں مصروف تھے ان سے فارغ
ہوئے تو ہم نے اپنا تعارف، حمید صاحب کی فرمائش کا ذکر بھی کیا، وہ فوراً
پہچان گئے،اخلاق سے ملے، کچھ دیر ہی بیٹھ سکا ، اس لیے کہ ایسے معروف لوگ
اگر پبلک پلیس پر ہوں تو ان سے ملنے اور قربت کا شرف حاصل کرنے والوں کی
لائن لگی ہوتی ہے۔ ہمیں ان کی شہرت اور مصروفیات کا ادراک تھا، اس لیے جلدی
جلدی بعض موضوعات پر گفتگو ہوئی، انہوں نے اپنے نعت ریسرچ سینٹر کی تفصیل
بتائی، اپنے جاری کردہ رسالے’نعت رنگ’ کے پچیس شماروں کا ذکر کیا، ایک
کتابچہ بھی عنایت فرمایا جس میں نعت رنگ کے ان شماروں کا مختصر تعارف درج
ہے۔ ہم نے سرسری طور پر وہاں پر رکھے ہوئے ان شماروں پر طائرانہ نظر
ڈالی،یہاں نعت ریسرچ سینٹر کی شائع کردہ کتب بھی رکھی تھیں ان کو بھی
دیکھا۔اپنے نبی ﷺ سے عشق ہمارا ایمان ہے ،شاعری اور نعتیہ شاعری میرا
خاندانی ورثہ ہے، میرے خاندان میں متعدد نعت گو شاعر ، صاحب دیوان شاعر
گزرے ہیں اور اب بھی اس صنف ادب میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ میں بھی کچھ کر
لیتا ہوں، اپنے آپ کو شاعر وں کے صف میں شمار ہرگز نہیں کرتا، نثر نگاری پر
ہی اکتفا ہے، شخصیت نگاری میرا مخصوص شعبہ ہے ، کئی احباب کی شخصیت و شاعری
پر کتب آچکی ہیں۔ اپنے جدِ امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ جو نعت گو شاعر اور
صاحب دیوان شاعر تھے، ان کی شخصیت اور شاعری پر ایک کتاب مرتب کی جو 2013 ء
میں شائع ہوچکی ہے۔ شخصیت نگار کی ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اصل موضوع
سے ادھر ادھر اکثر نکل جاتا ہے ، اس کی اپنی شخصیت تو کسی بھی حوالے سے اس
میں ضرور آہی جاتی ہے۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ ایسا نہ کروں پھر بھی نہ
دانستہ طور پر ایسا ہوہی جاتا ہے۔ صبیح رحمانی سے گفتگو کے حوالے بات ہورہی
تھی۔ انہوں نے بتا یا کہ وہ خود شاعر بھی ہیں اور نعت پڑھتے بھی ہیں، ان کی
خوش ادائیگی کی کیا بات ہے۔ انکا کہناتھا کہ نعت ریسرچ سینٹر قائم کرنے کا
مقصد نعت ِ رسول مقبول ﷺ کا فروغ ہے۔ وہ اس موضوع کو تحقیق کے نقطہ نظرسے
اہمیت دیتے ہیں، نعت کے کسی بھی موضوع پر اگر کوئی تحقیق کی خواہش رکھتا ہے
تو وہ اوران کا ادارہ اس کی رہنمائی اورمعاونت بھر پو ر طریقے سے کرتے ہیں۔
انہوں نے بتا یا کہ ایسے کتنے ہی محقق ہیں جنہوں نے نعت کے موضوع پر ایم فل
کیا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے پی ایچ ڈی تحقیق کا موضوع تھا’اردو نعت
پاکستان میں‘‘ ۔فصیح رحمانی جب یہ گفتگو کررہے تھے تو میری نظروں کے سامنے
اپنے دوست ڈاکٹر شاہ محمد تبریزی کا مقالہ آگیا ۔ ان کے مقالے کا موضوع
ہے’عہد نبوی ؑ کی نعتیہ شاعری‘ ، میں نے فصیح رحمانی کو اپنے دوست کے اس
مقالے کے بارے میں بتا یا۔ ابھی چند روز قبل ہی میں ڈاکٹر تبریزی کے گھر
گیا تھا اور ان کے اس مقالہ کو دیکھ کر میں اپنے مقالے پر کیے ہوئے کام کو
بھول گیا۔ دو جلدوں میں ، ہر جلد ایک ایک ہزار صفحات پر مشتمل۔ اس موضوع پر
یہ اولین کام ہے جو ڈاکٹر تبریزی نے انتہائی محنت، جانفشانی، طویل جدوجہد
کے نتیجے میں کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس کام میں بائیس سال صرف ہوئے، واقعی
ہوئے ہوں گے، جس نوعیت کا اور جس قدر ضخیم یہ کام ہے ، آسانی سے اور چند
سالوں میں ممکن نہیں۔ یہ علمی و تحقیقی جائزہ سات ابواب پر مشتمل ہے اس میں
ڈیڑ سو سے زائد صحابہ کرام ؒ کا نعتیہ کلام یکجا کیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب اس
مقالے کو چھپوانے کی سعی میں ہیں اور یہ کام اس پائے کا ہے کہ اسے طباعتی
صور ت میں سامنے آنا بھی چاہیے تاکہ عشق نبی ﷺ میں شرشار دیوانوں کے علم یہ
آسکے کہ نبوی عہد میں نعت کی کیا صورت تھی، نعت کہنے والے کون کون لوگ تھے،
ان میں مسلمان بھی تھے غیر مسلم بھی،اس دور کی نعت تھی کیا، الفاظ کیا تھے،
شاعری کا رنگ و روپ کیا تھا،ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے لگ رہا تھا کہ وہ جلد
اپنے اس مقصد کو حاصل کر لیں گے۔اس لیے کہ انہوں نے مجھے تقریظ لکھنے کو
کہا۔
فصیح رحمانی نے اپنی گفتگو میں بتا یا کہ وہ ملتان میں رہبر صمدانی اور
سرور صمدانی سے واقف ہیں، ان دونوں بھائیوں کو جو میرے چچا زاد بھائی ہیں
کو شاعری واثت میں عطا ہوئی ہے۔ ان کے والد تابش ؔ صمدانی ملتان کے نامی
گرامی معروف نعتیہ شاعرتھے ، ان کے دادا خلیل صمدانی ،پردادا شیخ محمد
ابرہیم آزادؔ جو میرے بھی پردادا ہیں بیکانیر ،راجستھان کے نامی گرامی صاحب
دیوان شاعر گزرے ہیں۔ فصیح رحمانی ’نعت رنگ‘ کے مدیر بھی ہیں ، خود بھی
مضامین لکھتے ہیں دیگر لکھنے والوں کو بھی اس جانب متوجہ کرتے ہیں۔ انہوں
نے ایک قیمتی لائبریری بھی قائم کی ہوئی ہے۔ وہ کسی ادارہ میں اعلیٰ عہدہ
پر فائز ہیں، پہلے بھی کئی اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ نعت پڑھنا
ان کا شوق اور شاعری ان کی صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت ہے۔صبیح رحمانی کا
ایک شعر
ایک اِک گام پہ روشنی کرو مدحت کے چراغ
نعت کی روشنی پھیلاؤ جہاں تک پہنچے
فصیح رحمانی کے حوالے سے ایک بات یہاں لکھنا چاہتا ہوں جومیں وقت کی تنگی
کے باعث اس وقت ان سے نہ کہہ سکا، البتہ اپنے سعود ی عرب جانے کا ذکر ضرور
ہوا۔ میں نے ایک مضمون ’خانہ کعبہ میں اﷲ کے مہمانوں کی بہار‘ کے عنوان
لکھاتھا جو25ستمبر2014ء کو ہماری ویب پر آن لائن ہوا۔ اس مضمون میں فصیح
رحمانی کے حوالے سے جو کچھ لکھا اسے یہاں نقل کر رہا ہوں۔ ’’خانہ کعبہ میں
حاضری اور روضہ رسول ﷺ پر سلام عرض کرنے کی خواہش کس مسلمان کے دل میں نہیں
ہوتی۔ میرے دل میں بھی یہ خواہش تھی جو الحمد اﷲ پہلی بار ۲۰۱۱ء میں پوری
ہوئی۔ اپنی اس آرزو کا اظہار میں نے اشعار میں اس طرح کیا تھا ، دو اشعار
ہے تمنا کرلوں طوافِ کعبہ ایک بار
پھر چاہے میرا دم ِ آخر ہو جائے
عطا ہوجائے آبِ زم زم کا ایک گھونٹ ہی
تشنہ لبی میری اب تو تمام ہو جائے
خوب خوب مانگا، دل کھول کر مانگا ، بے جھجک مانگا، اپنے لیے اوروں کے لیے ،
جن جن احباب نے دعاؤں کے لیے کہا ان سب کی دعائیں نام لیے بغیر کیونکہ یہ
ممکن نہیں تھا کہ سب کے نام لیے جاسکتے، دعائیں کیں۔ جس لمحہ میں طواف کعبہ
کررہا تھا اور حاجی صاحبان میرے ارد گرد تھے یکا یک میرے لبوں پر سید فصیح
ر حمانی کا یہ کلام آگیا
کعبہ کی رونق کعبہ کا منظر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
دیکھوں تو دیکھے جاؤں برابر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو
لایا کہا ں مجھ کو میرا مقد ر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
تیرے کرم کی کیا بات ہے مولا، تیرے حرم کی کیا بات ہے مولا
تا عمر کر دے آنا مقدر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر
فصیح رحمانی کی خو ش الحانی و خوش نوائی تو اپنی جگہ دل کو مسحور کردینے
والی ہے ہی ان کی شاعری میں بھی رچاؤ ہے، درد ہے ، جاذبیت ہے، سریلا پن ہے،
ادب ہے ، احترام ہے، اپنے بنی ؑ کی چاہت اور عشق رچا بساہوا ہے۔ ان کا کلام
حمد اور نعت مقبول زدِ خاص و عام ہیں۔ فصیح رحمانی سے قربت کی یہ پہلی
ملاقات تھی جو بہت خوش گوار رہی ساتھ ہی یاد گار بھی ۔ وہ جو خدمت علم و
ادب، خصوصاً نعت رسول مقبولﷺ کے حوالے سے کررہے ہیں قابل تعریف ہے۔ کتاب
میلہ جو اپنے سلسلے کا گیارواں میلہ تھا سابقہ میلوں سے ہر اعتبار سے
کامیاب رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علم و ادب سے، کتاب سے محبت و عقیدت کا
یہ سلسلہ یعنی کتاب میلہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے اسے ملک
کے تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پھیلانا چاہیے۔منتظمین ِ میلہ خاص طور پر
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلر ز ایسو سی ایشن ، نیشنل بک فاؤنڈیشن کے تمام
عہدیداران قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے کراچی جیسے شہر میں عوام کو بہت
مختلف اور معلوماتی تفریح مہیا کی اور کتابوں سے محبت کا احساس دلایا جس
میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہے۔(16نومبر2015) |