زخموں کی کہانی لکھی ظلموں
کی زبانی
ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا، یہی ہے ریت۔ کوئی نئی بات نہیں، کوئی انوکھا
واقعہ نہیں ہے۔ خلق خدا کے حق میں نغمہ سرائی جرم تھی، جرم ہے،جرم رہے گی۔
خلقِ خدا کی گردنوں پرسوار اس وقت بھی یہی کرتے تھے اب بھی یہی کرتے ہیں
اور آئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے۔ کوئی نئی بات نہیں، یہ ہوتارہاہے،ہوتارہے
گا۔ آپ زمینی خداؤں کو للکاریں گے تو وہ آپ کو ہار پھول پیش نہیں کریں گے۔
یہی ہوگا۔آپ آئینہ دکھائیں گے اوروہ اپنی مکروہ صورتوں کودیکھ کر آپ
کوپتھرماریں گے۔گولیاں داغیں گے۔ڈیزی کٹربم برسائیں گے۔ فاسفورس بموں کی
برسات کریں گے لیکن اپنے قلم کوخلقِ خدا کی امانت سمجھنے والے کبھی بازآئے
ہیں نہ آئندہ آئیں گے۔اس لئے کہ وہ جانتے ہیں:
ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں
دراصل یہاں ہرفرعون یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ بس وہی ہے عقل و فکرکاعلمبردار…بہت
ضروری ہے وہ۔اس کی ہدایت ورہنمائی ہی نجات کا سبب ہے۔بس وہی''میں''
کاچکر۔نحوست کاچکر۔اسی لیے وہ پکارتارہتاہے۔وہی ہے اعلیٰ وارفع، وہی ہے رب
اوررب اعلیٰ بھی۔ خودفریبی کی چادرمیں لپٹا ہوا۔موت…موت تواسے چھوبھی نہیں
سکتی ۔دنیاجہاں کوتباہ وبربادکردینے کے سامانِ حرب سے لیس خد ّام اس کی
حفاظت پرمامورہیں۔چڑیابھی پرنہیں مارسکتی۔ دور دورتک کوئی سوچ بھی نہیں
سکتاکہ اسے گزندپہنچاسکے۔ جیسے وہ موت کوبھول بیٹھتاہے،خودفریب سمجھتاہے کہ
موت بھی اسے بھول جائے گی لیکن ہوتاکچھ اورہے۔ سب کچھ ہوتاہے…محافظ
بھی،سامان حرب بھی،محلات بھی،سازوسامان بھی،آفرین بھی،واہ واہ بھی… سب کچھ
ہوتا ہے۔ اورپھرنیل ہوتاہے،لہریں ہوتی ہیں، منہ زورلہریں…رب حقیقی کے حکم
کی پابند،اورجب وہ گھِرجاتا ہے پھردوردورتک کوئی نہیں ہوتامددگار،تب وہ
آنکھ کھولتاہے اورپکارنے لگتاہے''نہیں نہیں،میں ایمان لاتاہوں،ہاں میں موسیٰ
وہارون کے رب پرایمان لاتاہوں۔''لیکن بندہوجاتاہے در۔ کسی آہ وبکاسے نہیں
کھلتا ۔اورپھروہ غرق ہوجاتاہے۔ موت اس کی شہ رگ پردانت گاڑدیتی ہے۔ختم شد۔
نشانِ عبرت۔ داستان در داستان۔
لیکن ہوتاکیاہے؟فرعون مرتاہے،فرعونیت نہیں مرتی۔ اس کے پیروکارآتے ہیں،آتے
رہیں گے۔ پھروہ پکارنے لگتے ہیں،ہمارامنصوبہ کامیاب رہا۔ ہم ہیں اعلیٰ
وارفع۔ ہمارے پاس ہیں وہ دانش وبینش جوبچالے جائے گی سب کو۔ بس ہمارے پیچھے
چلو۔ ہماری پیروکاری کروکہ نجات اسی میں ہے۔مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے
اس زعم میں مبتلارکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔اس کی مرضی سے چلتاہے کاروبار
حیات… لیکن پھرایک اوردریاہوتا ہے اورانجام وہی۔
چنگیزخان سے کسی نے سوال کیاکہ تم نے آدھی دنیا کوتاخت و تاراج کیا۔ تمہارے
سپاہی جب کسی شہرپرحملہ کرتے توظلم وستم کی انتہا کردیتے،جیتنے کی سرشاری
میں بوڑھوں پرتشدد کرتے، بچوں کوذبح کرتے اورعورتوں سے زیادتی کے بعد گھروں
سے تمام اشیاء لوٹ کرانہیں آگ لگادیتے۔ تم تواس قدرظالم تھے کہ ایک دفعہ
کسی شہرمیں فتح کے بعد تمہیں علم ہوا کہ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کولاشوں کے
ڈھیرمیں چھپاکرزندہ بچ جانے کی کوشش کی تھی توتم نے انہیں ڈھونڈ نکالنے
کاحکم دیااوران کے سرقلم کروادئیے لیکن اس کے بعدتمام منگولوں کویہ حکم دے
دیا گیاکہ ہرمارے جانے والے کاسرقلم کردیاجائے تاکہ زندہ اورمردہ کی شناخت
ہوسکے۔خود تمہاراقول ہے کہ مجھے اپنے دشمنوں کو نیست ونابودکرنا،ان کواپنے
قدموں میں گرتے دیکھنا،ان کے گھوڑے اورسازوسامان چھین لینااوران کی عورتوں
کے نوحے اوربین سننا میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے لیکن سوال کرنے والے
نے پوچھاکہ تمہاری زندگی میں کبھی کوئی ایساموقع بھی آیا کہ تمہیں کسی
پرترس آیاہو،تم نے رحم کھایاہو۔ چنگیزخان نے اثبات میں سرہلایااورکہاہاں
ایک دفعہ ایک شہرکولوٹنے کے بعدجب میں وہاں سے نکل رہاتھا تومیرے خوف سے
عورتیں اپنے بچوں کوگودمیں لئے بھاگ رہیں تھیں کہ اچانک ایک عورت
کاشیرخواربچہ اس کے ہاتھوں سے دریامیں گرگیا اوراس نے دردمندانہ طریقے سے
روناپیٹناشروع کیاکہ مجھے اس پرترس آگیا۔ میں نے اس بچے کودریا میں سے اپنے
نیزے پراچھالا،نیزہ اس کے جسم کے آرپارہوگیا اورپھر میں نے اسے روتی ہوئی
ماں کے حوالے کردیا۔
ظالموں کاجذبۂ رحم ایک اورلمحے میں بھی ابھرکرسامنے آتاہے جب لاشوں کے
انبارمیں انہیں اپنے سب سے پیارے شخص کی لاش نظرآجائے۔ تیمور جو شہروں
کوفتح کرتاتواپنے ظلم کی نشانی کے طورپر مرنے والوں کی کھوپڑیوں
کواکٹھاکرتااوران کے میناربنواتا،پھران پرانہی انسانوں کی چربی کالیپ
کرواتااوررات کوان کھوپڑیوں کوآگ دکھاکرروشن کیاجاتا کہ دوردورتک لوگوں
کوعلم ہوسکے کہ تیمورنے یہ شہرفتح کرلیا لیکن اس کی آپ بیتی پڑھی جائے
توایک مقام ایساآتاہے جب وہ پھوٹ پھوٹ کررویا۔ دیواروں سے
سرٹکراتارہا،لاشوں کے انبارکودیکھ کربین کرتا رہا۔ اس سے کچھ بن نہیں
پارہاتھا۔ بس سپاہیوں کواکٹھاکیااورکوچ کا حکم دے دیا۔یہ وہ لمحہ تھاجب دلی
میں کشت وخون جاری تھا کہ اس کے سامنے اس کے چہیتے اورلاڈلے بیٹے کی لاش
لائی گئی۔
جدیددورکاچنگیزخان بھی سکون سے رہناچاہتا ہے لیکن اس کا ماضی نے اس کاسکون
بربادکردیاہے۔آرام فوم کے گدوں پرسونے سے ملتانہیں ہے،لاکھ توپ وتفنگ پاس
ہو،اپنوں سے بھی ڈرتارہتا ہے۔سائے سے بھی ڈرجانے والا۔ناموری کے شوق میں
ایسی ایسی بے ہودہ حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں اُس سے کہ بس۔چہارجانب بچہ
جمہورے واہ، واہ کرتے رہتے تھے لیکن اب اس کے اعتراف کے بعد خلقِ
خداتھوتھوکررہی ہے۔دادوتحسین کے لیے نت نئے ڈرامے اوراداکاری کرتارہا… لیکن
اب تومستقل ذلت لکھ دی گئی ہے۔ میں غلط کہہ گیا ہوں،وہ اب اپنی ذلت ورسوائی
کاسامان ساتھ لیے پھرتا ہے اوردیکھتے ہی دیکھتے وقت کاگھوڑااسے اپنے سموں
تلے روندتا ہواسرپٹ بھاگ رہاہے۔زمینی خدائوں کے زرخریدغلام خلقِ خدا کی
آوازکوخاموش کرنے کاسپنادیکھتے ہیں اوروہ کبھی شرمندہ ٔتعبیرنہیں ہوپاتا،نہ
ہوگا۔ توبس پھریہی منظرہوگاجوآپ نے دیکھا۔نائن الیون کے بعدیہی
منظرتھا۔ہرطرف بپھراہواعتاب اوراہل جنوں کانعرۂ مستانہ۔سربلندرہے گایہ
نعرۂ،فرعون پہلے بھی غرقاب ہواتھا،آئندہ بھی اس کانصیبایہی ہے۔مبارک
ہوانہیں جوان فراعین کے سامنے ڈٹ گئے،خلق خدا کیلئے سرعام پٹے لیکن رب
کےعلاوہ سرجھکانے سے قطعی انکارکردیا.....اوراب یہی فراعین کمبل چھوڑنے
کیلئے بے تاب ہیں لیکن کمبل انہیں نہیں چھوڑرہا!
دراصل ظالموں اوران کی فوج کے سپاہیوں کے دل پتھرکے نہیں ہوتے لیکن ان کے
مفادات اورحکم نامے انہیں پتھرکابنادیتے ہیں۔ ان تک چونکہ کوئی گولی،کوئی
بم نہیں پہنچ رہا ہوتااس لئے انہیں یقین سا ہونے لگتاہے کہ موت ان کے
دروازے پردستک نہیں دے گی۔وہ اوران کے پیارے اسی طرح بربریت اور ظلم کے
مقابلے میں اٹھنے والی نفرت سے بچتے رہیں گے لیکن پھربھی اگر چنگیزخان کے
سپاہیوں سے لے کرآج تک کے میدان کارِزارکے کہنہ مشق انسانوں کو دیکھیں توان
کے اندرجیتاجاگتاانسان انہیں ظلم پرسرزنش ضرورکرتارہتاہے،انہیں چین کی
نیندنہیں سونے دیتا۔انہیں مدتوں ضمیرکی ملامت کاشکار ضرورکرتاہے۔ میرے
سامنے اس وقت موجودہ دورکے نمرود (ٹونی بلیئر،سابق وزیر اعظم برطانیہ)کا
ایک حالیہ اعتراف جرم ہے جس نے پچھلے دنوں امریکی میڈیا کے سامنے اعتراف
کیا کہ''عراق پرحملہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی بلکہ ایک انسانی اورجنگی
جرم تھا۔ہم نے انٹیلی جنس کی غلط رپورٹس کی بنیادپریہ قدم اٹھایا جو کہ
سراسرغلط تھا ''۔
میرے سامنے چنگیز،تیمور اورہلاکوکی نعم البدل امریکی فوج کے ادارے پینٹاگون
کی ایک اوررپورٹ ہے جس میں انہوں نےعراق اور افغانستان میں کام کرنے والے
فوجیوں کے لئے کچھ سکون بخش ادویات لازم قراردی ہیں۔ یہ ادویات مستقل
طورپر۲۶فیصد فوجی استعمال کررہے ہیں جبکہ۷۰فیصد فوجی اپنی ذہنی بیماری اور
نفسیاتی بے سکونی کے لئے ماہرین دماغی امراض سے علاج کروارہے ہیں
اورڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق یہ ادویات اب انہیں زندگی کے آخری سانس تک
استعمال کرناہوں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان بیماریوں میں مزیداضافہ بھی
ممکن ہے گویا عراق اورافغانستان جانے والی کل فوج کے۹۶فیصدفوجی بقیہ ساری
عمرایک اندازے کے مطابق سالانہ سات ارب ڈالرکی ادویات استعمال کریں گے جس
کابجٹ چندبرسوں کے بعددس ارب ڈالرسالانہ تک پہنچ جائے گا،جس کی ادائیگی
امریکی خزانے سے ہوگی۔یقینا افغانستان اورعراق میں اتحادی ممالک کی افواج
کے ہاں بھی مکافاتِ عمل ایساہی ہوگالیکن مارے ندامت کے اس کوسامنے نہیں
لایاجارہا۔
ان سپاہیوں کی کہانیاں اورمرض کی وجوہات بہت ملتی جلتی ہیں ۔ مثلاً انہیں
حکم ملاکہ فلاں گھرمیں دہشت گردچھپےہوئےہیں، انہوں نے بمباری کرکے
گھرکونیست ونابودکردیا۔اندرگھسے تو چاروں جانب بچوں کے
کھلونے،گڑیاں،گھرکاسازوسامان اورننھے ننھے جسموں کے پرخچے ملے۔ ان میں کوئی
توکئی راتوں تک سونہ سکااورکسی کوفوری طورپرذہنی بریک ڈاؤن ہوگیا۔ پینٹاگون
کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۷ء سے لیکر ۲۰۱۴ء تک ۱۳۷فوجیوں نے اس ذہنی کرب
اورضمیر کی اذیت سے چھٹکارا پانے کے لئے خودکشی کی۔ ان میں سے آدھے ایسے
تھے جو اس ذہنی اذیت کے علاج کے لئے مستقل دوائیاں لے رہے تھے۔ (پروزیک)
اور(زولوفٹ) یہ دوایسی مسکن دوائیاں ہیں جویہ سپاہی مستقل کھاتے ہیں لیکن
پھربھی ان کی آنکھوں کے سامنے سے لٹے پٹے،اجڑے اورتباہ شدہ ملبوں میں معصوم
بچوں اور عورتوں کی لاشیں نہیں بھول پاتیں۔
پٹڑی سے اترتے ہوئے معاشروں،قوموں اورکھونٹے سے اکھڑے ہوئے اداروں کوپوری
طرح سنبھلنے،صراط مستقیم پہ آنے اور پوری توانائی کے ساتھ اپنا کردارادا
کرنے کے قابل ہونے میں برس ہابرس لگ جاتے ہیں۔ان کی کیفیت تلاطم خیزموجوں
سے کھیلتی کشتی کی سی ہوتی ہے جسے ساحل تک پہنچنے میں کتنے ہی غوطے کھانے
پڑتے ہیں۔ اگرملاح ہنرمندہوتووہ ہمت سے کام لیتے ہوئے گردابِ بلا سے نکل
آتاہے اوراگر وہ تھک ہارجائے تو ایک معمولی سی شوخ وشنگ لہربھی اسے نگل
لینے کیلئے کافی ہوتی ہے ۔شائدمسلم امہ کے رہنمابھی اپنے اپنے قتدارکوبچانے
کی فکرمیں غلطاں ہیں وگرنہ اتنے بڑے اعتراف کے بعدان کے ہاں اداس اوراجڑے
قبرستان جیسی خاموشی نہ ہوتی۔کیاٹونی بلیئرکے اس اعتراف کے بعد عراق میں
ہلاک ہوجانے والے دوملین سے زائدافراد کوزندہ کیاجاسکتاہے؟بابل اورنینواکے
زمانے کے تاریخی نوادرات جویورپ اورامریکاکے عجائب گھروں میں پہنچا دیئے
گئے ،آج بھی ان سفاک ڈاکوؤں کی گواہی کیلئے موجودہیں۔ عرب اسپرنگ کے نام
پراس خطے کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، اس کی تلافی کیسے ہوگی؟
آج کے مسلم حکمراں یادرکھیں!ربّ ِکائنات کی عدالت میں کوئی خودفریبانہ
مصلحت کام نہیں آئے گی۔ وہاں ان کواپنی اس خاموشی کاجواب بھی دیناپڑے گا،
اس اختیار کاسب کو جواب دینا پڑے گا جس کی بنیاد میں بے گناہوں کا لہو
ہوتاہے۔ وہاں کیس تکنیکی وجوہات کی بنا پرخارج نہیں ہوگااوروہاں پرگریبان
پکڑنے والے کی اپیل قابل سماعت ہے اورتمام عمرسزاکیلئے صرف ایک خون ہی بہت
ہے ۔ |