آج پاکستانی معاشرے میں جو افراتفری، معاشی
بدحالی، سیاسی طوائف الملوکی، بدامنی، شدّت پسندی، دہشت گردی اور ایوانِ
حکومت میں اونچی سطح سے لے کر نچلی سطح تک بدعنوانی کا جو عالم ہے، اُس سے
ہر محبِّ وطن امن پسند شہری پریشان ہے۔ ہمارے نااہل، بددیانت اور بدکردار
حکمرانوں نے ملک کا یہ حال کردیا ہے کہ اب اسلام دشمن قوتیں امریکہ و یورپ،
خاکمِ بدہن، اس سب سے بڑے اسلامی ممالک کو توڑنے یا اس کے اہم اثاثوں پر
قابض ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں اور محبِّ وطن افراد دل گرفتہ، افسردہ اور
حالات سے مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمارے روشن
ماضی کے جھروکوں سے امید کی ایسی تابندہ کرنیں جھلملاتی نظر آتی ہیں کہ جن
پر نظر پڑتے ہی مستقبل کے خطرات کے بادل چھٹتے نظر آنے لگتے ہیں۔
آج سے قبل بھی ہر دور میں کفار و مشرکین اور یہود و نصارٰی کی یلغار اور
مسلمانوں کی صفوں میں موجود منافقین اور خوارجِ زمانہ کی درونِ خانہ سازشوں
سے عالمِ اسلام کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ لیکن ہر دورِ ابتلا میں اللہ تبارک و
تعالیٰ نے ایسے مصلحینِ اُمّت پیدا فرمائے ہیں جنہوں نے شریعت و طریقت کے
اصولوں کو برتتے ہوئے تعلیم و تعلّم اور تذکیر و وعظ کے ذریعے اصلاحِ
معاشرہ کی سعی فرمائی اور مسلمانوں کے سیاسی غلبہ اور اسلام کی عظمتِ رفتہ
کو بحال کیا۔
اب جب کہ خاتم النبیین سیّدنا و مولانا محمد رّسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے
بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ تو اب ایسی صورت
میں اصلاحِ اُمّت کا فریضہ نبیِ کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق آپ کی اُمّت کے
علما و مشائخ ہی انجام دیں گے۔
ایک مستشرق پروفیسر اے․ایچ․کب (۱۹۶۲ء) اپنی ایک کتاب اسلامک کلچر میں
اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’تاریخِ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدّت سے
مقابلہ کیا گیا، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ
صوفیا کا اندازِ فکر فورًا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت و
توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔‘‘
(ص: ۲۶۵، بہ حوالہ: اسلامی معاشرے کی تشکیل میں امام احمد رضا بریلوی کا
کردار، سلیم اللہ جندران، معارفِ رضا خصوصی شمارہ برائے امام احمد رضا
کانفرنس ۲۰۰۰، ص:۴۰)
اسلامی عمرانیات کے ماہرین نے اسلامی معاشرے کی کم و بیش دس امتیازی
خصوصیات شمار کی ہیں:
۱۔ وحدتِ انسانی ۲۔ وحدتِ فکرِ انسانی
۳۔ اتحادِ عملی ۴۔ احترامِ انسانیت
۵۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ۶۔ عدل و مساوات کی الہامی اصولوں پر
بنیاد
۷۔ خدا پرستی ۸۔ محبت و اطاعتِ رسولﷺ
۹۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۱۰۔ شرفِ انسانیت کی بقا
تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ جب بھی اسلامی معاشرے کے مذکورہ بالا عناصر کا
توازن بگڑا یا انحطاط اور کمزوری پیدا ہوئی، اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا
ہوا اور یہ بگاڑ جس قدر طویل ہوتا گیا، اسی اعتبار سے معاشرہ سنگین بحران
سے دوچار ہوا۔ اس کی اپنی کمزوریوں کی بِنا پر اسلام دشمن قوتوں کو فکری
اور ثقافتی یلغار کا موقع ملا۔ سانحۂِ کربلا، واقعۂِ حرّہ، سقوطِ بغداد،
سقوطِ غرناطہ (اسپین)، سلطنتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت، برصغیر جنوبی ایشیا
سے اسلامی سلطنت کا خاتمہ، حجازِ مقدس پر قرن الشیطان کے پجاریوں کا قبضہ
اور قبلۂِ اوّل بیت المقدس پر یہودیوں کا غلبہ، ماضی قریب میں سقوطِ ڈھاکا
کا شرم ناک واقعہ اور مسلمانانِ عالم کو بہت سے دیگر صدمات اسلامی معاشرے
کے اسی انحطاط یا بگاڑ کا نتیجہ تھے۔
جہاں را پیش ازیں صد بار آتش زیرِ پا کردم
دنیا بھر کے معاشروں کی طرح پاکستان کے اسلامی معاشرے کے افراد بھی چاہتے
ہیں کہ ان کا معاشرہ سدا زندہ و سلامت رہے، پھلتا پھولتا رہے، معاشرے میں
خوش حالی اور سیاسی استحکام کا دور دورہ رہے، مسجدیں، مدرسے، خانقاہیں اور
دوسرے دینی، مذہبی، تعلیمی ادارے آباد رہیں، ان کے افکار و نظریات، عقائد و
روایات ترقی پذیر رہیں، علوم و فنون میں وسعت اور ارتقا پذیری پیدا ہو،
تمدنی ورثے کو استحکام حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو۔ لیکن یہ جب
ہی ممکن ہے کہ جب ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے خیالات و افکار، جذبات و
احساسات اور تہذیبی و تمدنی ورثے سے آگاہ کرتے رہیں اور اس کا بقول جسٹس
ایس۔اے رحمٰن، ایک ہی طریقہ ہے، (صحیح خدوخال پر) تعلیم و تربیت کا اجرا و
ارتقا۔
(نظریۂِ پاکستان اور نصابی کتاب، ص:۱۸۵، بہ حوالہ مذکورہ بالا)
اہلِ علم و بصیرت اور علماے حق اس بات سے یقیناً اچھی طرح واقف ہیں کہ اس
وقت ہماا ملک جس سنگین سیاسی، معاشی و معاشرتی بحران کی لپیٹ میں ہے، اس سے
اسلامی معاشرے کے جملہ مذکورہ عناصر نہ صرف انحطاط کا شکار ہیں بل کہ ان
میں بعض بالکل غیر فعال اور بعض مفقود ہوچکے ہیں۔ حکمرانِ وقت (سلطان) کے
احکام کی عمل درآمد (WRIT) ملک کے ایک وسیع حصے سے تقریبًا ختم ہوچکی ہے۔
اس لیے اس وقت سب سے بڑا بحران ملک کی قیادت کا ہے جسے کتبِ فقہ میں ’’عدمِ
سلطان کی حالت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ایسی صورتِ حال میں قرآنِ حکیم ہمیں
اصلاحِ احوال کے لیے جس اَمر کے لیے حکم دیتا ہے، ہمارے حکمرانوں اور ذی
علم و ذی شعور افراد کا اُس کی بجاآوری کی طرف رجوع لازم ہوجاتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ
الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ (النساء۴: ۵۹)
(اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور رسول کا اور ان کا جو تم میں صاحبِ
امر ہیں۔)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں کہ یہاں
’’اولی الامر‘‘ سے مراد علما ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور کاش
وہ (ایسے بحرانی اور نزاعی حالات میں) اسے لوٹائیں۔ رسول کی طرف اور اپنے
ذی اختیار لوگوں (اولی الامر) کی طرف تو ضرور ان سے ان کی حقیقت جان لیں گے
وہ جس کی استنباط کرتے ہیں ان میں سے۔ (عربی سے ترجمہ۔ فتاوٰی رضویہ جدید،
ج:۱۴، ص:۱۶۸) پھر اعلیٰ حضرت ’’اولی الامر‘‘ کی تعریف سے متعلق اپنے موقف
کی مزید وضاحت اور اُس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’عدمِ سلطان کی حالت میں مسلمانوں پر اپنے امورِ دینیہ میں متدین معتمد
علماے اہلِ سنّت کی طرف رجوع کرنا اور بھی لازم تر ہوجاتا ہے کہ بعض بعض
خاص دینی کام جنہیں ولاۃ و قضاۃ اُٹھائے ہوئے ہیں، ان میں تاحدِّ ممکن
انہیں کے حکم سے تعمیل کرنی ہوتی ہے۔‘‘
(فتاوٰی رضویہ جدید، ج:۱۴، ص:۱۶۹)
چناں چہ خلفاے راشدین کے دورِ ہمایونی کے بعد قرآنی اصطلاح ’’اولی الامر‘‘
کے معیار پر پوری اُترنے والی جامع اور نابغۂِ عصر شخصیات کی ایک اچھی خاصی
تعداد ہر دور اور ہر خطۂِ ارض میں موجود رہی ہے، جنہوں نے اپنے اپنے دور کے
حالات اپنے اپنے خطوں میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ، تجدیدِ احیاے دین، اصلاحِ
معاشرہ اور علمِ نافع اور نفع بخش فنون کے فروغ میں اقباؔل کے ’’صاحبِ
امروز‘‘ مردِ مومن کا کردار ادا کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے اُن سب کے اسم ہاے
گرامی یہاں ضبطِ تحریر میں نہیں لائے جاسکتے۔ اس لیے مثالاً چند ذواتِ
مقدسہ کے نامِ نامی تحریر کیے جارہے ہیں۔ حضرت سیّدنا امام عالی مقام حسین
، حضرت امام جعفر صادق ، خلیفۂِ راشد پنجم حضرت عمر بن عبدالعزیز ، حضرت
امامِ اعظم امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک،
حضرت امام حنبل، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت امام غزالی، حضرت امام
رازی، حضرت امام سیوطی، حضرت بہاء الحق نقشبند قدست اسرارھم، اور برصغیر
پاک و ہند کی تاریخ میں حضرت مجدِّدِ الف ثانی، محققِ علی الاطلاق حضرت شیخ
عبدالحق محدثِ دہلوی، حضرت اورنگ زیب عالم گیر، حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ
دہلوی، حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی، حضرت فضلِ حق خیرآبادی، حضرت فضلِ رسول
بدایونی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم، اور ماضیِ قریب میں اعلیٰ حضرت، مجددِ
دین و ملت امام احمد رضا خاں محدثِ بریلوی قدس سرہ السامی۔ اعلیٰ حضرت عظیم
البرکت علیہ الرحمۃ چودھویں صدی ہجری میں سلف صالحین کے سچے جانشین اور
اکابر مصلحینِ امّت رحمہم اللہ تعالیٰ کے علمی ورثے اور ان کے دینی، مذہبی،
مسلکی، تعلیمی، سیاسی، اقتصادی افکار و نظریات کے اَمین تھے۔ اس کا اعتراف
ان کے ہم عصر اور آج کے دور کے بعض اُن علما نے بھی کیا ہے جو متعدد مسائل
میں ان سے نظریاتی اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے ایک ہم عصر نام وَر عالم،
مورخ و مصنّف، شیخِ طریقت جناب خواجہ حسن نظامی صاحب، فاضلِ دیوبند فرماتے
ہیں:
’’ان (مولانا احمد رضا) کی تصنیفات و تالیفات کی خاص شان اور خاص وضع ہے۔
یہ کتابیں بہت زیادہ تعداد میں ہیں جن کو دیکھ کر لکھنے والے کے تبحّرِ
علمی کا جیّد سے جیّد مخالف کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے۔
مولانا احمد رضا خاں صاحب جو کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خصلت ہے
جس کی ہم کو پیروی کرنی چاہیے۔‘‘
(ملاحظہ ہو: ہفت روزہ ’’خطیب‘‘ دہلی، ۲۲؍مارچ ۱۹۱۵ء، ج:۱، شمارہ:۱۱، ص:۱۷۳)
یہاں یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب کی اس حسنِ
عقیدت کے باوجود جب انہوں نے طبقۂِ صوفیا میں سجدۂِ تعظیمی کے جواز پر ایک
رسالہ لکھا، تو امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ نے فورًا اُس کے
ردّ میں ایک فاضلانہ و محققانہ رسالہ بہ عنوان ’’الزبدۃ الزکیۃ
لِتَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہ‘‘ تحریر فرمایا جس میں اپ نے غیر اللہ
کے لیے سجدۂِ عبادت کو کفر و شرک اور سجدۂِ تعظیمی کو حرامِ قطعی قرار دیا۔
ایسا کرتے وقت حضرت امام احمد رضا نے جناب خواجہ صاحب کی اپنے بارے میں
حسنِ عقیدت کی کوئی رعایت نہیں برتی، غالبًا خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے
تبصرے میں امام احمد رضا کی جو امتیازی خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ وہ ’’جو
کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں‘‘، اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔
حکیم عبد الحئ لکھنوی (والدِ علامہ ابو الحسن علی میان ندوی) کا امام احمد
رضا سے مسلکی اختلاف ڈھکا چھپا نہیں، لیکن جب انہوں نے امام صاحب کے فتاوٰی
کا مطالعہ کیا تو انہوں نے محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ کو اِن الفاظ میں
خراجِ تحسین پیش کیا:
یندر نظیرہ فی الاطلاع علی الفقہ الحنفی وجزیاتہ۔
(فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر ان کو جو عبور حاصل ہے، اس کی نظیر شاید ہی
کہیں ملے۔)
(نزہۃ الخواطر، ج:۸، ص:۴۱،)
دیکھا جائے تو یہ امام صاحب کی فقاہت اور علمیت کو ایک بڑا خراجِ تحسین ہے
کیوں کہ ایسی عالم فاضل شخصیت جس کی فقہ کی جزئیات پر دست رَس کا یہ عالَم
ہو کہ عرب و عجم میں اس کی نظیر نہ ملتی ہو، یقینًا امام العصر، فرید
الدہر، نابغۂِ روزگار، مجدّدِ ملّت، مجتہد فی المسائل کہلانے کی مستحق ہے۔
کیوں کہ ایسی شخصیت کو نہ صرف قرآن و حدیث سے مستنبط مسائل مستحضر ہوتے
ہیں، تمام علومِ اسلامی پر اس کو دستگاہ حاصۂ ہوتی ہے، بل کہ تمام عصری
علوم، سیاستِ مدن، لوگوں کے رسم و رواج، مزاج، زبان و اطوار و عادات، معاشی
اور معاشرتی مسائل سے اُس کو بہ خوبی آگاہی ہوتی ہے۔ اس لیے عوام و خوص، سب
اپنے دینی اور دنیوی معاملات میں رہ نمائی اور مسائل کے حل کے لیے اُسی کی
طرف رجوع کرتے ہیں۔ بلاشبہ علامہ اقباؔل کی زبان میں امام احمد رضا ایک
ایسی ہی ’’صاحبِ امروز‘‘ شخصیت تھے اور اس کا اعتراف خود علامہ اقباؔل نے
اِن الفاظ میں فرمایا کہ ’’مولانا ایک دفعہ جو راے قائم کرلیتے تھے، اُس پر
مضبوطی سے قائم رہتے تھے، یقینًا وہ اپنی راے کا اظہار بہت غور و فکر کے
بعد کرتے تھے۔۔۔ وہ اپنے دور کے امام ابوحنیفہ ثانی تھے۔‘‘
ملكِ سخن كی شاہی تم كو رضؔا مسلم
جس سمت آگئے ہو سكے بٹھا دیے ہیں
(داؔغ دہلوی) |