اُستاذ کے حقوق اور مقام و مرتبہ
(Muhammad Nasir Khan Chishti, Karachi)
علم حا صل کرنا ہر مسلمان
مردوعوت پر فر ض ہے،کیونکہ علم بڑ ی دولت اور عظیم نعمت ہے۔ علم دل کی
زندگی اور آنکھو ں کا نور ہے۔ علم ذریعۂ معرفتِ الہٰی اور وصفِ الوہیت ہے۔
علم اگر دنیا وی ہو تو انسان کائنات کو تسخیر کرتا ہے، چاند پر قدم رکھتا
ہے اور افلاک پر کمندیں ڈالتا ہے اور اگر علم دینی ہو توانسان معر فت رِبا
نی اور عشق رسالتﷺ کے خزانے سمیٹتا ہے۔
ملّتِ اسلامیہ کوپہلا درس معلّمِ کا ئنا ت حضو رنبی کریم ﷺ نے دیا۔ آپ نے
پڑھا یا بھی ، سکھا یا بھی اور سمجھا یا بھی اور دلو ں کو علم ومعر فت اور
حکمت ودانائی کے نور سے منو ر وروشن کر دیا پھر درس وتدرس اور تعلم وتعلیم
کا ایک ایسا عظیم اور مبا رک سلسلہ شروع ہو ا کہ چودہ صدیا ں بیت چکی ہیں
مگر یہ سلسلہ روز بروزبڑھتا ہی جارہاہے۔
قرآن مجید!ہمارے علم و حکمت اور عقل ودانا ئی کی بنیاد اور مر کز ومر جع ہے۔
علم وحکمت کی سا ری بہاریں اور سا ری رعنا ئیاں اسی کے دم سے ہیں۔ مگر
افسوس! کہ آج قرآن مجید پڑ ھانے والا، علم دین سکھانے والا، ہماری نظروں
میں کوئی قدروقیمت نہیں رکھتا۔ حالانکہ اﷲ کے پیارے حضرت محمد مصطفی ﷺ کا
فرمان عالی شان ہے کہـ’’ تم میں سے بہترین (اور افضل ترین)شخص وہ ہے جو
قرآن (خودبھی)سیکھے اور دوسر وں کو بھی سکھائے۔(صیح بخا ری جلد2صفحہ552)
ایک وہ زما نہ تھاکہ صرف قرآن مجیدہی ہمارے تعلیمی نصا ب میں تھا اور صر ف
قرآن پڑھانے والا ہی ہمارا استاذ ہو تا تھا۔ دوتین صدیو ں تک یہی صو رت حال
برقراررہی اور اب تو قرآن حکیم کی تعلیم، ہماری تعلیم کی فہر ست میں ایک ثا
نوی حیثیت رکھتی ہے۔اسلام میں دینی علو م پڑھانے والے کی بڑی عظمت وفضیلت
ہے، بلکہ ہراستاد کی بڑ ی قدرو منزلت ہے، مگرافسوس !کہ آج کل ہم ابتدائی
تعلیم دینے والے اُستاد کو کسی فہر ست میں شامل نہیں کرتے ، جب اﷲتعا لیٰ
بڑابنادیتا ہے توسب اُستادوں کو بھو ل جا تے ہیں ۔ استاذکی نا قدری کرنا
ناشکری اور احسان فراموشی ہے۔علم سیکھئے توادب واحترام بھی سیکھئے۔
عجزوانکسار ی بھی سیکھئے کہ عہدہ ومنصب اور جا ہ و جلال کاغرور بالآخر خاک
میں ملادیتاہے۔
آدمی سب کچھ بن جا تا ہے، مثلاًڈاکٹربن جانا ، انجینئربن جا نا ، و کیل بن
جا نا ، کمشنر بن جانا، وزیر وغیرہ بن جا نا تو بہت آ سان کام ہے، لیکن کا
مل انسان بننابہت مشکل کا م ہے ، کیو نکہ انسانیت کا کما ل تو عبد یت میں
ہے، اور عاجزی وانکساری اور تواضع میں ہے کہ ایک انسان کامل کا طرۂ امتیا ز
اور وصف کمال یہی ہو تا ہے ۔جبکہ تکبر اور غرورکرنا توشیطا ن کا کام ہے اور
یہ کسی انسا ن کو زیبا نہیں ہے ، کیونکہ تکبرو غر ور کرنا عبد یت کے منا فی
ہے اورجبر وتکبر اور کبریائی تو صرف اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اوریہ صرف اُ سی
کو ہی زیباہے۔
٭اُستادکی عظمت واہمیت: حضر ت بو ہر یر ہص بیا ن کر تے ہیں کہ رسو ل اﷲ ﷺنے
ارشاد فرمایا کہ ــ’’علم دین سیکھو اور علم کیلئے وقا ر اور سنجید گی سیکھو
اور جس اُستاد نے تمہیں دین کا علم سکھا یا ہے اُ س کے سا منے ہمیشہ عاجزی
وانکساری اختیارکر و‘‘(جا مع تر مذی ، مشکوٰۃ )
حضر ت ابو اما مہ باھلی رضی اﷲ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ رسو ل اکرم ﷺنے فر
ما یا کہ ’’جس شخص نے کسی بند ہ کو کتاب اﷲ (قر آن مجید ) کی کسی ایک آ یت
کی تعلیم دی ہے وہ اس کامو لیٰ ہے ، وہ اس (کی کسی ہدایت اور کسی بات )کو
ردّ نہ کر ے اور نہ ہی اس پر اپنے آپ کوتر جیح دے ‘‘۔(مجمع الزوائد طبرا
نی)
حضر ت عبا دہ بن الصا مت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضو ر اکر م نو ر مجسم
ﷺ نے ارشادفر ما یا کہ: ’’جو شخص ہمارے بڑ وں کی عزت نہ کر ے ہما رے چھو ٹو
ں پر رحم نہ کر ے اور ہما رے عالم کا حق نہ پہچانے ،وہ میر ی امت میں سے
نہیں ‘‘ ۔
(مجمع الز وائد ،طرانی)
حضر ت عبد اﷲ بن عبا س رضی اﷲ عنہ فر ما تے ہیں کہ ’’علما ء کی عز ت کیا
کرو، کیو نکہ وہ انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں ‘‘۔(کنزالعمال
:جلد10،صفحہ150)
امیر المؤمنین حضر ت سید نا علی المر تضیٰ ص فرماتے ہیں کہ ــ’’عالم کا تم
پر یہ حق ہے تم مجلس میں لو گو ں بالعمو م سلا م کرو اور عالم کو خصو صیت
کے سا تھ علیحدہ سلا م کر و اور تم ان کے سا منے بیٹھو تو ہا تھو ں اور
آنکھو ں سے اشارے با زی نہ کرو ‘‘۔
(کنز العمال :جلد 10،صفحہ 155)
مشہو ر عا لم دین ابو معا ویہ ضر یر رحمتہ اﷲ علیہ بیا ن کر تے ہیں کہ ایک
دن میں نے خلیفہ بغد ا د ہا رون الر شید کے سا تھ کھا نا کھا یا ۔ ایک آدمی
نے میرے ہا تھ دھلو ا ئے مگر میں اُ سے نہ پہچان سکا (کیو نکہ ابو معا ویہ
نا بینا تھے ) ہا رون الر شید نے مجھ سے پو چھا جا نتے ہیں آپ کے ہا تھ کس
نے دُھلو ائے تھے؟میں نے کہا :’’نہیں!میں نہیں جان سکا‘‘۔ تب ہا رون الر
شید نے بتا یا کہ آپ کی علمی وفقہی عظمت کے پیش نظر میں نے ہی آپ کے ہا تھ
دُھلوائے ہیں……(تا ریخ الخلفا ء :صفحہ 381)
٭استاذکامقام ومرتبہ: اما م ِاعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اﷲ عنہ کے
صا حبزا دے حما د نے جب اپنے اُستا د سے ’’سو رۂ فا تحہ‘‘ پڑ ھ لی تو امام
اعظم نے مُعلّم کو ایک ہزاردر ہم عطاکئے ، معلّم نے اما م صا حب سے کہاکہ:
’’میں نے ایسا کو ن سا بڑا کا م کیا ہے کہ آپ اتنی بڑ ی رقم عطا فر ما رہے
ہیں۔ امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے فر ما یا کہ ’’آپ نے میر ے بچے کو جوکچھ
پڑ ھا یا ہے ، وہ بہت بڑی اورانمول دولت ہے ، خدا کی قسم !اگر میر ے پاس اس
سے بھی زیا دہ رقم ہو تی تو میں وہ بھی بے فکر آپ کو عنا یت کر دیتا‘‘
۔(الخیرات الحسان: صفحہ 134)
اسی طرح ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو ایک استاذ کے سپر د کیا کہ وہ اسے قرآن
مجید پڑ ھا دے ابھی اس کے بیٹے نے صر ف ’’سو رۂ فاتحہ ‘‘ہی پڑ ھی تھی کہ با
پ نے چارہزار دینار شکریہ کے طور پر بھیجے ۔اُستا ذنے کہا کہ ’’ابھی آپ نے
دیکھا کیا ہے کہ اتنی مہر بانی فر مائی ہے۔ اس پر اُس لڑکے کے والد نے کہا
آج کے بعد میرے لڑ کے کو ہرگزنہ پڑھا نا ،کیو نکہ تمہا رے دل میں قر آن
مجید کی عظمت واہمیت ہی نہیں ہے‘‘۔(فتاویٰ رضویہ :جلد 10صفحہ 20)
٭استا د کی تعظیم و تکر یم اور برکاتِ علم: استا د کی تعظیم و تکر یم اور
اطا عت کرنا شا گر دپر واجب ہے ۔ ادب کے بغیرعلم توشایدحا صل ہو جا ئے لیکن
فیضا نِ علم، انوارِ علم اور بر کاتِ علم اور استا ذ کی پر خلوص دعا ؤ ں سے
انسان یقینا محر م رہتا ہے ۔ جس نے بھی اپنے استا ذ کو کسی قسم کی بھی اذیت
وتکلیف پہنچا ئی (خو ا ہ وہ اذیت و تکلیف جسما نی ہو یا ذہنی ، مثلاًاستا د
کی نا فر مانی کرنا یا استا ذ کے سا منے بد تمیزی کرناوغیر ہ ) تووہ علم کی
بر کت ورحمت سے محر وم ہو جا تا ہے۔ کیو نکہ
با ادب با نصب
بے ادب بد نصیب
علم حا صل کر و ،لیکن علم حا صل کر نے کے بعد اپنے آپ کو عا لم نہ سمجھو ،
کیو نکہ جب تک انسا ن علم سیکھتا رہتا ہے ، وہ عا لم رہتا ہے اور جب اسے یہ
خیا ل آجا ئے کہ میں تما م علم حا صل کر چکا ہو ں تووہ جا ہل بن جا تا ہے ۔
اور حقیقت طالب علم وہ ہو تا ہے جو عا جزی وانکسا ری اور اخلاقِ حسنہ کا
پیکرہو ۔
با بِ مد ینتہُ العلم حضر ت علی المر تضیٰ ص فر ما تے ہیں کہ ’’جس نے مجھے
ایک حرف پڑھا یا تو میں اس کا غلام ہوں، اگر وہ چاہے تومجھے بیچ دے اور اگر
چا ہے تومجھے آزادکردے،اور اگر چاہے تومجھے غلا م بنا ئے رکھے ‘‘۔
(فتا ویٰ رضویہ:جلد10صفحہ 20، بتعلیم المتعلم طر یق التعلم صفحہ 16)
درا صل درس وتد رس اور تعلیم وتر بیت ! تعمیر انسا نیت کا ایک پا کیز ہ عمل
ہے ، اس لئے تما م طلباء پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسا تذہ کر ام کے درس وسبق
اور تمام با تو ں کو نہا یت غو ر سے سنیں اور ان پر فوراًعمل کریں اور استا
ذ کے سامنے ہمیشہ خا موشی اور ادب و احترا م کے سا تھ بیٹھیں ، جہا ں بھی
استا ذکا ذکر آ ئے تو ان کا نا م عزت و احترام کے ساتھ لیں اور ان کاذکر
ہمیشہ اچھے الفا ظ میں کریں اور ان کے حق میں ہمیشہ دعا ئے خیرکرتے رہیں ۔
استاذ کو سلام کرنے میں پہل کریں ، ساتھ چل رہے ہو ں تو اُن کے آگے نہ چلیں
اور اگر استا ذ کی خدمت کر نے کا مو قع ملے توبالکل انکار اور کوتا ہی نہ
کریں ، بلکہ استا ذ کی خد مت کر نا اپنے لئے ایک اعزاز اور سعا دت سمجھیں ۔
امام الائمہ سید الفقہاء اما م اعظم ابوحنیفہ حضرت نعما ن بن ثا بت رضی اﷲ
عنہ (متو فی 150ھ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں ہر نما ز کے بعد اپنے استا ذ محترم
(حما دبن سلیما ن ) اور والد محتر م کیلئے دعائے مغفر ت کر تا ہو ں اور میں
نے کبھی بھی اپنے استاذ محتر م کے گھر کی طرف اپنے پا ؤ ں دراز نہیں کئے
،حا لا نکہ میرے گھر اور ان کے گھر کے درمیا ن سا ت گلیا ں واقع ہیں اور
میں ہر اس شخص کے لئے استغفار کر تا ہو ں ، جس سے میں نے کچھ سیکھا ہے
اورجس نے مجھے علم پڑ ھا یا ہے ‘‘۔(الخیر ا ت الحسا ن :197)
ہر ایک طا لب علم کیلئے عجز و انکسا ری اور تواضع کر نا بہت ضروری ہے، کیو
نکہ تواضع سے ہی رفعت وبلندی حا صل ہو تی ہے اور خا ص کر اپنے استا ذ کے
سامنے کسی قسم کی انا نیت اور تکبر کا اظہا ر نہ کریں بلکہ استا ذ کو سا
منے ہمہ وقت عا جزی وانکسا ری سے پیش آ ئیں ۔
حضورنبی کریم علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ الدین کلہ ادب ‘‘ ’’ دین سارے کا
سارا ادب ہے۔‘‘
جس کو ادب کو توفیق ہوئی اسے گویا ایک سعادت مل گئی اور جو ادب سے محروم
ہوا اسے شقاوت ملی گویا ’’ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب‘‘
امام زرنوجی اپنی تالیف ’’ تعلیم المتعلم ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’امام بخاری رحمہ اﷲ کے اساتذہ میں سے ایک صاحب درس دیتے تو بسا اوقات
ایسا ہوتا کہ وہ اچانک کھڑے ہو جایا کرتے۔ ایک مرتبہ طلبہ نے ان سے اس کی
وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا ’’ میرے استاد کا صاحبزادہ یہاں گلیوں میں
کھیلتا کودتا رہتا ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ کھیلتے کھیلتے مسجد کے
دروازہ پر نمودار ہو جاتا ہے، جب اس پر میری نگاہ پڑتی ہے تو میں اپنے
استاد کی تعظیم کی وجہ سے کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ‘‘ ()
علماءِ کرا م فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص کے تین والد ہو تے ہیں ، ایک
حقیقی والد ،
دوسراُستاذ اور تیسر ا سسر ہو تا ہے اور ان تینو ں میں استاذ کا درجہ سب سے
بلند ہے ۔ سسر ! اپنی لخت جگر کو پا لتا ہے ، اس کی پر ورش کر تا ہے اور
پھر اپنے داماد کے سپر د کر دیتا ہے اور والد حقیقی ! اپنے بچے کو آسمان سے
زمین پر لا نے کا مو جب ہو تا ہے ، عمل کا بے مثا ل زیور اسے عطا کر تا ہے
اور دین ودنیا میں اسے ایک کا میا ب انسا ن بنا دیا جا تا ہے ، اس لئے
استاذ کا درجہ سب سے بلند ترین ہے ۔
اما م اہلسنّت ، مجد ددین وملّت اعلیٰ حضر ت اما م احمد رضا خا ن بر یلوی
رحمتہ اﷲ علیہ ’’فتا ویٰ رضویہ ‘‘میں رقمطراز ہیں کہ ’’علما ئے کر ام فرما
تے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چا ہئے کیو ں کہ
والدین کے ذریعے بد ن کی زندگی ہے اور استا ذ روح کی زند گی کا سبب ہے۔
’’عین العلم ‘‘میں ہے کہ والدین کے سا تھ نیکی کرنی چاہئے، کیونکہ ان کی
نافرمانی بہت بڑاگنا ہ ہے اور استاذکے حق کو والدین کے حق پر مقد م رکھنا
چاہئے ،کیو نکہ وہ ر روح کی حیا ت کا ذریعہ ہے۔ علا مہ منا دی ’’جا مع صغیر
‘‘ کی شر ح ’’تیسیر‘‘میں نقل فرما تے ہیں کہ جو شخص لو گو ں کوعلم سکھائے،
وہ بہترین باپ ہے،کیونکہ وہ بدن کا نہیں بلکہ روح کابا پ ہے ‘‘۔
(فتا ویٰ رضو یہ : جلد 20صفحہ 10)
شیخ ابراہیم بن اسما عیل رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ :
1…… طا لب علم کو استاذ کی مسند تدریس پر نہیں بیٹھنا چا ہئے۔
2…… طالب علم کو استاذ کے بہت قریب نہیں بیٹھنا چاہئے۔
3……طا لب علم استاذ کے مکا ن کا دروازہ نہ کھٹکھٹا ئے ، بلکہ صبر کرے یہا ں
تک کہ استاذ خو د با ہر نکل آ ئیں ۔
4……معلم کی تعظیم وتکر م کیلئے اس کے آگے نہیں چلنا چا ہئے ۔
5……طا لب علم کو چا ہئے کہ استاذ کی نا راضگی سے خو د کو بچا ئے۔
6……طالب علم کو چا ہئے کہ استاذ کو کسی قسم کی بھی اذیت پہنچائی وہ علم کی
بر کا ت سے محروم رہ جا تا ہے …… (بتعلیم المتعلم طر یق التعلم:صفحہ16-20)
ایک خا ص اوراہم ترین با ت یہ ہے کہ جس استا ذ نے آپ کو ایک لفظ بھی پڑ ھا
یا بلکہ ایک حرف بھی پڑھا یا ہے تو وہ عمر بھرآپ کا استاذ رہے گا ، لہٰذا
اگر چہ بعد میں اُس استاذ سے آپ کا سلسلۂ تعلیم منقطع بھی ہو جائے لیکن
سلسلۂ نسبت یعنی نسبت ِ تلمذ ساری زندگی قا ئم ودائم رہے گا ، اس لئے آپ
اپنے تما م اساتذۂ کرام کی پہلے کی طر ح اُن کی خد مت واعا نت ،تعظیم وتکر
یم اور اُن کی اطا عت وفر ما ں بر داری کر تے رہیں۔
خلاصتہ الکلا م یہ ہے کہ طالب علم پر لا زم ہے کہ وہ استاذ کا ادب واحترم
کرے اور استاذ کے حقوق کی محافظت کرے کہ استاذکارتبہ بہت عظیم اور بلند ہے
اور علمائے کرام کی تصر یحا ت کے مطا بق استاذ کا حق اور مقام ومر تبہ تو
والدین سے بھی بڑ ھ کرہے۔ پس جو طا لب علم صد قِ دل اورخلو ص نیت سے اپنے
اساتذۂ کرام کی خد مت اور عزت واحترام کرتا ہے تو اُسے دوسرے طالب علموں پر
سبقت و فو قیت حا صل ہو تی ہے ۔ اور اسے دین ودنیا میں بے شمار بر کتیں اور
سعا د تیں ملتی ہیں۔
دُعا ہے کہ اﷲتعا لیٰ ہم سب کو اپنے اسا تذۂ کر ام کا ادب واحترام اور اُن
کے
حقو ق وفرا ئض پو را کر نے کی تو فیق عطا فرما ئے ……﴿آمین ثم آمین﴾
٭٭٭……٭……٭……٭……٭……٭……٭……٭……٭……٭……٭٭٭
مولانا محمد ادریس ہشیار پوری نے استاد کے ادب آداب کے سلسلہ میں مولانا
قاسم نانوتوی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ آپ کو فقہی مسائل کے سلسلہ میں
ایک مرتبہ خنزیر کے بارے میں تحقیق کرنی تھی۔ اب اس معاملہ میں بھنگی سے
زیادہ شدبد کوئی نہیں رکھتا، کیونکہ وہی یہ پالتے والتے ہیں۔ جب حضرت کا
گھریلو بھنگی آیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا، اس نے اس بات کا کما حقہ ٗ
جواب دے دیا ،آپ مطمئن ہوگئے۔ اس کے بعد سے یہ کیفیت ہوگئی کہ جب بھی وہ
بھنگی آتا آپ اس کی اساتذہ والی تعظیم فرمایا کرتے۔ ہدایا بھیجا کرتے اور
اس کی خدمت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس سے مجھے فلاں مسئلہ میں
تحقیق حاصل ہوئی ہے ، اس لئے وہ میرے استاد کی طرح ہے۔‘‘ (۲۶) |
|