کتاب سے دوستی ضروری ہے

 انسان نے کچھ عرصے میں اس قدر تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کی ہیں، ماضی میں جس کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کوئی بھی شخص ایک چھوٹا سا موبائل ہاتھ میں تھامے آسانی کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر کرسکتا ہے۔ جو چیز ذہن میں آئے کمپیوٹر کے ذریعے اسے فوری اپنی آنکھوں کے سامنے حاضر کیا جاسکتا ہے۔ اس ترقی نے انسان کو بہت بلندیوں پر پہنچادیا ہے، لیکن جس کتاب کی بدولت یہ سب کامیابیاں حاصل ہوئیں، اسی کتاب سے ہمارا رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے اور آج نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اس بری طرح سے جکڑے کہ جو وقت کتاب کا حق تھا، وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذر کردیا اور اب فیس بک، واٹس اپ، ٹوئیٹر اور موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آگئی ہے۔ انسان اور کتاب کا پرانا تعلق ماند پڑتا جارہا ہے اور دونوں کے درمیان دوری جنم لے رہی ہے۔ نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے، جو کسی زمانے میں تھا۔ اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اور طالب علم کا تعلق صرف نصابی کتب تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیر اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیرنصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی۔

ان حالات میں انسان سے کتاب کی دوری کو ختم کرنے اور قدیم دوستی کو پھر سے مضبوط کرنے کے لیے 2005ءسے کراچی میں ہر سال پانچ روزہ عالمی کتب میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حسب سابق اس سال بھی 12نومبر تا 16نومبر کراچی ایکسپو سینٹر میں پانچ روزہ عالمی کتب میلہ منعقد کیا گیا، جس میں مختلف ممالک کے ممتاز پبلشرز نے اپنے اسٹال لگائے۔ کتب میلے میں اسلامی کتب، ناول، فکشن، سوانح، تاریخ، اردو اور انگریزی لٹریچر، ادب، ثقافت، شاعری، نثر نگاری، ناول، سائنس، قانون، فلسفہ، طب اور شخصیات سے متعلق دیگر کتب بھی عالمی میلے کا حصہ بنیں۔ لاکھوں افراد نے شرکت کر کے کروڑوں روپے کی کتب کی خریداری کی۔ ایک ایسے دور میں جب کتاب سے رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے، شہر کراچی میں ملک کے سب سے بڑے کتب میلے کا انعقاد اہل کراچی کے لیے یقینا خوش قسمتی کی بات ہے۔ یہ اقدام نہایت ہی قابل تحسین ہے۔ کتب میلے میں پانچ لاکھ لوگوں کی شرکت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے، لیکن ملک میں دم توڑتی ادبی و مطالعاتی سرگرمیوں میں ایک نئی روح پھونکنے کے لیے اس سے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سال کے بجائے چھ ماہ بعد اور ملک کے تمام شہروں میں اس قسم کے کتب میلوں کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ اگرچہ آج کمپیوٹر میں مطالعہ کرنے کے متعدد مواقع موجود ہیں، لیکن مطالعہ کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے، اس کا مقابلہ دیگر ذرایع نہیں کرسکتے۔ کتب میلے منعقد کرنے کا مقصد لوگوں میں کتاب کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ عوام میں شعور اجاگر ہو تا ہے اور کتاب دوستی میں مضبوطی آتی ہے۔ اگر معاشرے میں کتاب کی دوستی میں مضبوطی آجائے تو اس سے نہ صرف بہترین سماج کا قیام آسان ہو گا، بلکہ بدامنی و دہشتگردی سے محفوظ ایک پرامن معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے، جہاں لوگ ملک و قوم کے لیے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتے ہوں، کیونکہ کتاب انسان کو ایک اچھا انسان بن کر جینے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھا دیتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ کتابیںانسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہیں اور دوسروں کے خیالات کو جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ کتاب کے ذریعے پہلی نسلوں کی محنت و کاوش، دانش و بینش اور حکمت و بصیرت نئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔ کتب بینی ذہن کو تازگی، روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشتی ہے۔
کتاب اور انسان کا رشتہ اتناہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے۔ تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھلے تو انسان کتاب کے وسیلے سے خودبخود ترقی کی شاہراہ پر قدم رنجہ ہوا۔ کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہی کلید آ گئی، جس نے اس کے سامنے علم و ہنر کے دروازے کھول دیے۔ انسان کے لیے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں، جن کا تعلق کتاب اور علم سے مضبوط رہا ہو۔ قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی ر ±ک جاتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔

اسلامی تاریخ میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب کتابیں خریدنا، انہیں جمع کرنا اور پڑھنا ہر فرد کا ذوق ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کے گھروں میں لاکھوں کتب پر مشتمل ذاتی لائبریریاں تھیں ۔ بغداد کی صرف ایک ایک شاہراہ پر کتابوں کی سیکڑوں دکانیں تھیں، جہاں قرآن مجید سے لے کر فلکیات، طبیعات، ریاضی، کیمیا، طب وغیرہ کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ دور مسلمانوں کے عروج اور حکمرانی کا دور تھا، یہ حقیقت ہے کہ جس قوم پر کتابوں کی حکمرانی ہو تو پھر وہ قوم بھی دنیا پر حکمرانی کرتی ہے۔ فرانس کے انقلابی دانشور والٹیر نے کہا تھا :”تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کرکتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنے عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے، وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے۔“ جو اقوام علم و کتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کتب کی عادت اپنا لیتی ہیں، وہ زندگی میں فتح و ظفر کی حقدار ہوتی ہیں۔ یورپ کے بعض ملکوں میں صرف کتابوں کو پروموٹ کرنے کے لیے تحریکیں چلائی گئیں۔ حکومتی سرپرستی میں سقراط،افلاطون اور ارسطو سے لے کر جان لاک تک کے مفکرین کی کتابیں ایک پیسے (پنس)کی قیمت میں شائع کی گئیں۔ دوردراز کے علاقوں کے لیے موبائل کتب خانے بنائے گئے۔ مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔ کتابوں پر بحث کرنا فیشن بن گیا۔ بڑے بڑے لارڈز اور اراکین پارلیمنٹ ان مذاکروں میں مبتدی کے طور پر شریک ہوتے اور اہل دانش کی فکر افروز باتوں سے مستفید ہوتے، جبکہ بعض یورپی ملکوں میں تعلیمی اداروں میں طلبہ میں مختلف طریقوں سے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جاتا ہے۔

آج مغربی ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف ان کا مجموعی طورپر کتاب دوستی کا مزاج ہے، لیکن ہم ان سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ کتب بینی کا زوال ہمارا بڑا تہذیبی المیہ ہے، کیونکہ مطالعے کی عادت ہی تہذیب کی علامت ہے۔ جو قوم معیاری اور عمدہ کتابیں لکھنے، شائع کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہو، وہ نہ صرف پسماندہ ، بلکہ غیروں کی دست نگر ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہم نے کتاب سے دوری اختیاری کی تو آج حالات سب کے سامنے ہیں کہ عالم اسلام کی تنزلی کا شروع ہونے والا سفر بہت تیزی کے ساتھ پستی کی جانب رواں دواں ہے اور دور دور تک عالم اسلام کی اس تنزلی کو بلندی میں بدلنے کے امکانات بھی صرف موہوم ہی نہیں، بلکہ معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں بھی دنیا میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے کتاب سے دوستی لگانا ہوگی۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.