محترم قارئین السلامُ علیکم
پہلے باخبر رہنے کیلئے میں باقاعدگی سے اخبارات کا مُطالعہ کیا کرتا تھا جب
سے مُلک کے حالات خانہ جنگی اور مُعاشی بھوک کی جانب محو سفر ہوئے ہیں
اخبارات پڑھنے کی تاب ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے جب اخبار اُٹھاؤ یہی خبریں
پڑھنے کو ملتی ہیں کسی شخص نے بھوک بیروزگاری سے تنگ ہوکر اپنے بچوں کی
گردن پہ چُھری پھیر دی اور خود کو بھی ہلاک کرلیا یا کہیں چند ٹکوں کی خاطر
چوروں نے تمام گھر کے مکینوں کو قتل کر ڈالا، تو کہیں کوئی بچی اپنے ماں
باپ کے چہرے پہ سیاہی مل کر گھر سے بھاگ گئی اب جوں جوں عمر اپنے اختتام کی
جانب یا یوں کہیئے کہ انجام کی جانب بڑھ رہی ہے مجھ جیسے حساس دل انسان کی
ہمت ایسی خبروں کی متحمل نہیں رہی-
جمعہ دو اپریل کو ایک خبر دیکھی تھی جس میں شعیب ملک کی خفیہ شادی کا تذکرہ
چل رہا تھا خبر سے تو میں نظر چُرا گیا لیکن دِل اور دماغ سے نظر کیسے
چُراتا کہ میرے اختیار کی بات نہیں تھی کہ طبعیت میں عجیب سی بے چینی پیدا
ہوگئی لوگ شائد ایسے واقعات سُن یا پڑھ کر انجوائے کرتے ہوں مجھے ہمیشہ
ایسی تکلیف محسوس ہوتی ہے جیسے یہ واقعہ میری فیملی میں کسی کو پیش آگیا ہو
بہرحال میں بات کررہا تھا شعیب ملک کی مبینہ خفیہ شادی کی، اگرچہ یہ معاملہ
عائشہ کی طلاق کیساتھ اب بظاہر ختم ہوگیا ہے، اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا
کہ کسی سلیبرٹی کی خفیہ شادی کا انکشاف ہُوا ہو بلکہ آئے دن سلیبرٹیز کی
خفیہ شادیاں منظر عام پر آتی رہتیں ہیں-
اور اب ان سلیبرٹیز کی دیکھا دیکھی عوام الناس میں بھی یہ مرض پیدا ہوتا
جارہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بیشمار خرابیاں پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں
نکاح سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے( اگرچہ خفیہ شادی سے بھی نکاح
قائم ہوجاتا ہے) لیکن آپ یہ بھی غور کیجئے کہ نکاح اور زنّا میں ایک واضح
فرق یہ بھی ہے کہ نکاح اعلانیہ کیا جاتا ہے جبکہ زنّا کو چُھپایا جاتا ہے-
اور نکاح کے اعلان کا حکم ہمیں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے دیا
ہے اب اگر شادی کو چھپایا جائے تو اِسے آپ ہی کہیے کیا یہ اس بات کا اعتراف
نہیں کہ دِل میں بد نیتی ہے چُور ہے یا پھر یہ نکاح سُنت کو پورا کرنے
کیلئے نہیں بلکہ اپنی جنسی بھوک کو مٹانے کیلئے کیا گیا ہے-
پھر اِس نکاح کی ایک قباحت یہ بھی ہے ایسی شادی کے بعد عورت کو اس کی مرضی
کیخلاف مانع حمل ادویات استعمال کرائی جاتی ہیں اور اگر بالفرض پھر بھی حمل
رہ جائے تو ایسے بچوں کو دُنیا میں نہیں آنے دیا جاتا بلکہ حمل ساقط کروا
دیا جاتا ہے جو کہ ایک بُہت بڑا گُناہ ہے
ذرا سوچیئے یہ لوگ ایک سچ کو چُھپانے کیلئے کیا کیا گُناہ نہیں کرتے اللہ
کریم نے عورت کی فطرت میں ممتا رکھی ہےوہ زیادہ عرصہ تک مرد کی اس فرمائش
کو پورا نہیں کرسکتی کہ بچّہ نہ جنّے اُسے جو تخلیق کا حق اللہ کریم نے دیا
ہے وہ اُس سے محروم رہے بالآخر یہی بات اکثر ناچاقی کا سبب بھی بن جاتی ہے
اور مجبوراً عورت طلاق لینے پر مجبور ہوجاتی ہے یا مرد اپنی جان چُھڑانے
کیلئے اُسے ناحق طلاق دے دیتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس گُناہ میں مرد کا
حصہ زیادہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس شادی کا اظہار کردے تو بُہت سے گُناہوں سے
بچا جا سکتا ہے-
اور پھر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دُنیا مکافات عمل کی جگہ ہے کل اگر
کوئی ہمارا اپنا اس مصیبت میں گرفتار ہوگیا تو ہم کسے قصوروار ٹہرائیں گے-
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو نوجوان شادی سے پہلے دودھ کی نہریں
نکالنے کا عزم رکھتے ہیں جب حقیقی ذمہ داری نِبھانے کا موقع آتا ہے تو
اُنکے دعوے بودے ثابت ہوتے ہیں اور پھر جب ناکامیاں پے در پے مصیبت کے پہاڑ
کھڑے کر دیتی ہیں تو یہی نوجوان اپنی زمہ داریوں سے مُنہ چُرا کر یہ کہتے
نظر آتے ہیں کہ ہم سے والدین کی نافرمانی سرزد ہوگئی ہے اور پھر یہ اس کا
ازالہ اپنی شریک حیات کو طلاق کا طوق پہنا کر کرتے ہیں اگر یہ نوجوان اپنے
دعوے میں واقعی سچے ہوتے تو اِنہیں والدین کی اطاعت اور فرنبرداری کا جذبہ
شادی سے پہلے آتا ناکہ کسی لڑکی کی زندگی کو تباہ اور برباد کرنے کے بعد
ہمارے معاشرے میں کنواری بچیوں کے لئے اچھے رشتہ وافر مقدار میں موجود نہیں
تو اب طلاق یافتہ خاتون سے کون نکاح کی جرات رندانہ کرے گا اور چلیں مان
لیتے ہیں کہ اُس خاتون کی شادی اپنی عمر سے بیس تیس برس سے زائد کسی مرد سے
ہو بھی گئی تو اب تا حیات خفیہ شادی کے طعنے اُسکا مقدر ہونگے کم عمر بچیاں
تو کانچ کے شیشے کی مانند ہوتی ہیں اِسی واسطے سمجھدار والدین اپنی بچیوں
کی بہتر پرورش کیساتھ ساتھ بہترین نگہداشت بھی کرتے ہیں میری زاتی رائے یہ
ہے کہ اس قسم کی صورتحال اگر پیدا ہو جائے تو والدین کو کمپرومائس کرنا
چاہیے شادی میں بَچوں کی پسند کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے اور اگر رشتہ دینے
میں کوئی قباحت موجود نہ ہو تو اُنکی پسند کو اولیت دی جائے اس سے ہمارے
معاشرے میں بہتری پیدا ہوگی بچوں میں خود اعتمادی بڑھی گی اور شائد ایسے
واقعات کی روک تھام بھی-
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات |