یارب غم شق کیا بلا ہے
(mohsin shaikh, hyderabad sindh)
|
شادیاں کیوں ہوتی ہیں۔ کیسے
کامیاب ہوتی ہیں۔ اور کیسے ناکام ہوتی ہیں۔ شادیاں کامیاب ہوجائے تو زندگی
بن جاتی ہیں۔ ناکام ہوجائے تو زندگی درندگی بن جاتی ہیں۔ شادیاں ٹوٹ کیوں
جاتی ہیں۔ حتی جتنے منہ اتنی باتیں۔
یارب غم شق کیا بلا ہے
ہر شخص کا تجزیہ نیا ہے
عام آدمی کی شادی اور نا شادی کے تو کئی جواز گھڑے جاتے ہیں۔ مگر مشہور
خوشحال لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والوں کے دلوں کی دھڑکن رول ماڈل
ماڈلز کی شادیاں کیوں ناکام ہوجاتی ہیں۔ جو دیواروں کے پیچھے دیکھنے کے
دعوے دار ہوتے ہیں۔ وہ ذاتی زندگی کے شیشے میں آر پار دیکھنے میں کیوں بعض
اوقات کیوں ناکام ہوجاتے ہیں۔ آج کے دور میں نو عمری کی شادیاں ناکامیوں سے
ہمکنار ہورہی ہیں۔ ہے۔ میاں بیوی میں انڈر اسٹینڈنگ کا نہ ہونا اور کچی عمر
کی سوچ ہی سے شادیاں ناکامی کا سبب بن رہی ہیں۔ مرد عمر میں زیادہ ہوں۔ اور
لڑکی عمر میں چھوٹی ہوں تو شادی ناکام ہونے کے چانسیس زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ
میرا ذاتی تجزیہ ہے۔ آج کے دور میں زیادہ تر شادی ناکام ہی اسی بنا پر
ہورہی ہیں۔ نو عمری میں جناح پونجا کی ایمی بائی سے ہونے والی خاندانی شادی
کچی عمر کی سوچ نے چلنے نہیں دی۔
جب جہاندیدہ معروف 42 سالہ بیرسٹر محمد علی جناح ممبئی کے امیر ترین پارسی
مانک جی ڈنشا کی شدید ناراضیگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انکی 18 سالہ بیٹی
رتی سے حاضر جوابی ذہانت اور دو طرفہ محبت کی شادی کرتے ہیں تو چار برس تک
دونوں کو کیوں لگتا ہے۔ کہ دینا بڑی حسین ہے۔ اور پانچویں برس میں دینا
انہیں بری کیوں لگنے لگی تھی،
پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دونوں علیحدہ ہونے کے باوجود بہانے بہانے سے ایک
دوسرے کا غیروں سے پوچھتے رہتے تھے۔ سرطان میں مبتلا رتی نے پانچ اکتوبر
1928ء کو مارسلیز سے ممبئی میں تنہا پڑے جناح کو آخری خط لکھا۔ پیارے جناح
جی میں تم سے جتنی ٹوٹ کر محبت کرتی تھی۔ اگر اس سے کچھ کم کرتی تو آج
تمہارے ساتھ ہوتی۔ مگر جو جتنا بلندی پر جاتا ہے، وہ اتنی ہی شدت سے نیچے
بھی گر جاتا ہے۔ شب بخیر خدا حافظ۔ پھر 20 فروری 1929ء کو رتی اس جہاں فانی
سے کوچ کرگئی۔ جب رتی کو ممبئی کی قبر میں اتارا جارہا تھا تو آٹھ برس تک
رتی کو دیکھنے والا جناح بت بنے بیٹھے تھے۔ سی ایم چھاگلہ لکھتے ہیں کہ جب
جناح سے کہا کہ قبر پر مٹی ڈالو تو سرہانے بیٹھ کر بچوں کی طرح بلکنے لگے۔
پہلی اور شاہد آخری بار میں نے دیکھا کہ جناح بھی ویسے ہی تھے۔ جیسے سب
ہوتے ہیں۔ کہاں پارسی فیروز جہانگیر گاندھی اور کہاں جواہر لعل نہرو کا
خاندان۔ فیروز کا شمار جیالے کانگریسیوں میں ہوتا تھا۔ جواہر لعل نہرو کی
بیٹی اندرا اور فیروز نے 1942ء میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں چھ ماہ قید
کاٹی۔ پھر ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کرلی۔ فیروز اور اندرا اپنی دنیا
میں مگن تھے۔ مگر جواہر لعل اس شادی کے خلاف تھے۔
فیروز اور اندرا اپنی دنیا میں مگن تھے۔ پھر راجیو اور سنجے کی پیدائش کے
بعد فیروز اور اندرا کے درمیان اختلاف پیدا ہوگئے۔ فیروز کی توجہ صحافت میں
بڑھتی چلی گئی۔ اور اندرا گویا باپ کی پولٹیکل سیکریٹری بن گئيں۔ انکے تعلق
کی سڑک دو شاخہ ہوتی چلی گئی۔ اور پھر رسمی علیک سلیک کی پگڈنڈیوں میں گم
ہوتے گئے۔ سنہ 1958ء کو فیروز کو دل کا پہلا دورہ پڑا تین برس بعد دوسرا
دورہ پڑا اندرا تیما داری کے لیے آتی رہی۔ مگر فیروز تیسرا دورہ پڑنے سے
پہلے ہی چل بسے۔ زندگی چلتی رہی فیروز کے بغیر بھی۔ کہنے والوں نے کیا خوب
کہا ہے کہ کسی کے دنیا سے چلے جانے سے کسی کی زندگی نہیں روکتی۔
زندگی نشب و فراز آنے کا نام ہے۔ دکھ سکھ سانجے ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی
بھٹو نے پہلی شادی اپنے سے بڑی عمر کی کزن شیریں امیر بیگم سے کی۔ پھر اسکے
بعد نصرت بھٹو سے شادی کی۔ نصرت بھٹو سے شادی سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے
شیریں بیگم سے ملاقات کیں۔ شیریں بیگم نے بھٹو صاحب سے کہا کہ مجھے کوئی
اعتراض نہیں۔ میں آپ کی خوشی میں خوش ہوں۔ پھر جب کبھی شیریں بیگم کو
ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت کے جھگڑے کی خبر ملتی تو شیریں بیگم تڑپ کے رہے
جاتی۔
ایسا نہیں تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دل سے شیزیں بیگم کی محبت ختم
ہوگئيں تھیں۔ نہیں دوسری شادی بھی بھٹو صاحب نے شیریں بیگم کی رضہ مندی سے
کی تھی۔ سنہ 1970ء کے الیکشن جتنے کی خوشی میں لوگ بھٹو صاحب کو ہار پہناتے
ذوالفقار علی بھٹو وہ ہار شیریں بیگم کے گلے میں ڈال دیتے۔ بھٹو صاحب جب
بھی بیرون ملک جاتے وہاں سے شیریں بیگم کے لیے تحفے ضرور لاتے۔ بھٹو صاحب
پنڈی میں پرائم منسٹر ہائوس میں رہتے تو وہاں شیریں بیگم کو بھی ضرور بلاتے
اور شیریں بیگم بھی وہاں چلی جاتی مگر زیادہ نہیں جاتی تھی۔ یہ سوچ کر وہ
مصروف آدمی ہے۔ شاہنواز اور مرتضی بھٹو بھی عید پر ضرور ملتے۔
بھٹو صاحب بھی عید کی نماز پڑھ کر نو ڈیروپہنچ جاتے۔ نصرت بھٹو بھی چلی
جاتی۔ وہ بھی ملتی۔ اور ذوالفقار علی بھٹو تھے بھی بہت نفیس سلجھے ہوئے
کامیاب انسان اور ایک کامیاب عوامی لیڈر بھی تھے۔ امیر بیگم کی بھٹو صاحب
سے آخری ملاقات 26 مارچ 1979ء کو ہوئي تھی۔ ٹھیک نو روز بعد بھٹو صاحب کو
پھانسی دے دی گئی تھی۔ بعد از پھانسی کے امیر بیگم کے لیے دل میں نہ جانے
کتنے خانہ محبت تھے۔ یہ آج تک کوئی نہیں جان سکا۔ پھر ایک دن الطاف حسین نے
بھی بھرے مجمع کے بیچ اپنا دل کھول دیا۔ ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے الطاف حسین کو
بھی فائزہ گبول سے پیار ہوگیا۔ ضیاالحق کے دور میں پانچ کوڑوں کی سزا
بھگتی۔ پھر جیل کی سیر کی۔ گھر والوں سے کہا کہ اب میں شادی نہیں کروگا۔
پھر سنہ 2002ء میں فائزہ گبول سے شادی کرلیں۔ یہ نہ لو میرج تھی نہ ارینج
میرج پھر طلاق ہوگئ،،،شادی کا مرحلہ باعث خوشی کا ہوتا ہے۔ اور طلاق کا
مرحلہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔
لیڈی ڈیانا نے بھی شادی کرکے کہا کہ وہاں سب کچھ ہے۔ مگر میرا دم گھٹتا
تھا۔ پھر نریندر مودی نے جشودا بین سے شادی کی۔ تین ماہ ساتھ رہنے کے بعد
انکے راستے بھی جدا ہوگئے۔ جشودا بین آج تک ایک کمرے کے کوارٹر 14 ہزار
پنشن پر گزارا کرکے اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ دستاویزات میں جشودا بین اب
بھی مودی کی بیوی ہے۔ اور مودی آج بھارت کے لیے موذی بنا بیٹھا ہے، اب
عمران خان اور ریحام خان نے پہلے ایک دوسرے کو پسند کیا دل دے بیٹھے۔ پھر
شادی کیں۔ اور اب علیحدگی ہوگئی۔ عمران خان اور ریحام کے درمیان طلاق ہونے
پر سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا پر طرح طرح کی نیوز نشر ہورہی ہیں۔ کسی کی
ذاتی زندگی پر بےجا تبصرے کرنا عقلمندی نہیں شادی ہونا خوشی کا لمحہ ہوتا
ہے۔ اور طلاق ہونا دکھ کا لمحہ ہوتا۔ ہے بڑھاپے کی شادی اور بینک کی جوب
سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اور ویسے بھی ہمیں کسی کی ذاتی زندگی پر بے جا
تبصرے کرنے کا کوئي حق نہیں پہنچتا۔ |
|