اتحاد زندگی ہے
(عابد محمود عزام, Karachi)
کل ہی میں سوچ رہا تھا کہ دنیا
میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، لیکن دیگر اقوام کے مقابلے میں
انہیں کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں ۔ مختلف علاقوںمیں مسلمان مصائب کا
شکار ہیں۔ ہر کوئی اس صورت حال کی مختلف وجوہ بیان کرتا ہے۔ کوئی غیر
مستحکم مسلم حکومتوں کو تو کوئی سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ
جانے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ کوئی خلافت کا نہ ہونا تو کوئی تعلیم کی
کمی کو سبب بتلاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت و اقتدار، مال و زر،
ٹیکنالوجی و ترقی، تعلیم و تربیت، جمہوریت یا خلافت سمیت یہ تمام عناصر
مسلم امہ کے لیے اپنی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جن کی حقیقت سے
انکار ممکن نہیں، لیکن ان تمام سے بڑھ کر امت مسلمہ کو آج سب سے زیادہ
ضرورت ”اتحاد امت“ کی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد 2 ارب 20 کروڑ کے
لگ بھگ ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 32 فیصد حصہ بنتا ہے۔ جن میں سے رومن
کیتھولک چرچ کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ہے۔ رومن
کیتھولک عیسائی اپنا ایک متفقہ پوپ منتخب کرتے ہیں، اسی کو اپنا متفقہ
پیشوا مانتے ہیں۔ کیتھولک عیسائیوں نے اپنا ایک متفقہ رہبر بنانے کا سلسلہ
ایک عرصے سے جاری رکھا ہواہے۔ دنیا پر حکمرانی کا سہرا مکمل طور پر نہ سہی،
لیکن اس میں کسی نہ کسی حد تک ان کا ایک شخصیت پر متفق ہونا بھی اہم ہے۔
ساری دنیا کے سامنے ان کا ایک ہی چہرہ نظر آتا ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو دنیائے
عیسائیت کی طرف سے بیان دینے والی شخصیت ان کا متفقہ پیشوا ہوتی ہے، جس سے
یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے تمام عیسائی ایک پیشوا کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مسلمانوں کے اندر بھی ایک عرصہ تک یہ روایت قائم تھی، لیکن آہستہ آہستہ دم
توڑ گئی۔ خلافت عثمانیہ تک مسلمانوں کا بھی پوری دنیا میں ایک ہی رہنما
”خلیفہ“ کی صورت میں ہوا کرتا تھا۔ 1924ءمیں سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد
عالم اسلام چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گیا۔ ہر حصے پر الگ بادشاہت قائم
ہوگئی۔ اس وقت تقریباً 192 میں سے 58 ممالک مسلمان ہیں۔ ساڑھے چھ ارب کے
قریب انسانوں میں سے سوا ارب سے زاید مسلمان ہیں اور وہ دنیا کے معدنی
ذخائر کے75 فیصد کے مالک ہیں۔ دنیا کی بہترین بندرگاہیں، آبی گزر گاہیں،
زمینی اور فضائی راستے مسلمانوں کے پاس ہیں۔ سب سے اچھا محل وقوع مسلم
ممالک کا ہے۔ تیل کے لبالب بھرے کنویں اور سونے کی کانیں ہیں۔ زرخیز زمین،
دریا اور نہریں ہیں۔ محنتی کسان ہیں۔ پسینہ بہانے والے مزدور، جان کی بازی
لگانے والے فوجی ہیں۔ اعلیٰ دماغ اور باصلاحیت نوجوان ہیں۔ اس کے باوجود
پسماندگی اور کمزوری مسلمانوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ عالم اسلام
اور مسلمانوں میں اتفاق واتحاد کا فقدان اور کسی متفقہ باصلاحیت قیادت کا
نہ ہونا ہے۔ عالم اسلام پر اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو مسلمان اتحاد سے
کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ اختلاف کی جتنی بھی قسمیں کہیں ہوسکتی ہیں، ان میں
سے اکثر مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسلمان اختلاف کے شکنجے میں جکڑے
ہوئے ہیں۔ اتحاد کے فقدان کے باعث ہم روزبہ روز کمزور ہوتے جارہے ہیں۔
مسلمان جس مہذب مذہب کے پیروکار ہیں، وہ مذہب اسلام جس قدر اتحاد کا درس
دیتا ہے اور اس پر تاکید کرتا ہے، دیگر ادیان و مذاہب میں وہ بات نہیں
دکھائی دیتی۔ اسلام کے ارکان و احکام میں بھی اتحاد کا درس ملتا ہے۔ قرآن
مجید میں ارشاد ہے ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا“، ”سب کے سب اللہ
تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔“ اس آیت
مبارکہ میں دو اہم کاموں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک خدا کی رسی کو مضبوطی سے
تھامنا اور دوسرا سب کا مل کر تھامنا، کسی ایک فرد سے خطاب نہیں ہے، بلکہ
ساری امت سے خطاب ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق واتحاد پر
دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، اخوت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین
مسلمانوں کا موٹو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں حکم فرمایا
تھا: ”دیکھو! باہمی اختلافات میں نہ پڑنا۔“ انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے
Unity is Strength ”اتحاد ایک عظیم قوت ہے۔“ علامہ عبدالعزیز محدث مراد
آبادی فرماتے ہیں: ”اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت، جو قوم متحد ہے، وہ
زندہ ہے اور جو اختلاف کا شکار ہے، وہ مردہ ہے یا قریب المرگ ہے۔“
دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں، لیکن ان تمام مذاہب اور ادیان میں سے اسلام ہی
ہے جس کی تعلیمات انتہائی روشن، زرّیں اور سب سے بہتر ہیں۔ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے۔ مسلمانوں کے پاس سب کچھ ہے۔ اگر کوئی چیز نہیں ہے تو وہ ایک
متفقہ رہنما اور امیر نہیں ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایک واضح منزل کا تعین ہے،
مگر بدقسمتی سے رہبر ان کے پاس کوئی نہیں۔ مسلمانوں کے پاس دور اندیش،
بہادر اور باصلاحیت قیادت نہیں ہے۔ کوئی ایسا ملاح نہیں ہے جو عالم اسلام
کی ڈولتی اور ڈوبتی ناﺅ کو کنارے لگادے۔ نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی
قیادت نظر آتی ہے۔ پوری امت مسلمہ کا متفقہ امیر ہونا تو بہت دور کی بات
ہے، یہاں تو لوگ کسی دوسرے کی بات برداشت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہر
فرقے، مسلک، گروہ، نظریے اور جماعتوں کے لوگوں کے اپنے اپنے امیر، رہبر و
رہنما ہیں۔ انہیں کی بات حرف آخر ہے۔ وہ غلط بھی کہیں تو ”ٹھیک“ ہے۔ ان کے
علاوہ سب ”غلط“ ہیں۔ مذہبی معاملات میں ہر فرقے اور نظریے کے ماننے والوں
کی تمام کاوشوں کا محور دوسرے فرقے، دوسرے نظریے اور دوسرے خیالات کے
حاملین کو ناحق، باطل اور گمراہ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر مبلغین
اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں۔ اپنی بنیادی
وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے محض منتخب شدہ آیات و احادیث کی ہی تبلیغ
کرتے ہیں، تاکہ ان کا حلقہ مزید بڑھے۔ لوگ اسلام سے زیادہ اپنے نظریات کو
ترجیح دیتے ہیں اور اپنے فرقے و مسلک کو امت مسلمہ پر مقدم رکھتے ہیں۔
مسلمان آپس میں ہی دست و گریباں ہیں، ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔
مسلمانوں میں اتنے فرقے وجود میں آچکے ہیں،جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ ہر
فرقے کے لوگ اسی کوشش میں ہیں کہ کس طرح دوسرے فرقے کے لوگوں کو نقصان
پہنچایا جائے۔ ایک مسلک کے رہنما دوسرے مسلک والوں کے خلاف آگ بھڑکانے میں
مصروف ہےں۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہر
کوئی اسی کوشش میں سرگرداں ہے کہ دنیا میں صرف ہم ہی رہیں، باقی سب ختم
ہوجائیں۔ حالانکہ ایسا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ جہاں مختلف قسم کے لوگ رہتے
ہوں، وہاں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے، جس کو ختم کرنا ناممکن ہے،
لیکن اختلاف کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بونا اور تعن و تشنیع
کے نشتر چلانا سراسر ناانصافی ہے۔ انہی اختلافات کے سبب مسلمان تنزلی کی
گھاٹیوں میں اتنی دور جاگرے ہیں کہ آسانی سے نکلنے کی کوئی راہ بھی سدھائی
نہیں دیتی۔ ان حالات میں عالم اسلام کو انتشار اور نفرت کی گندگی سے پاک
کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری علمائے کرام پر آتی ہے۔ اگر علمائے کرام چاہیں
تو انتشار کی اس آگ کو بجھا سکتے۔ عالم اسلام کی سطح پر نہ صحیح کم از کم
ملکوں کی سطح پر ہی آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے،
نفرتوں کو ختم کیا جائے۔ یہ سب کچھ صرف علمائے کرام ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ
معاشرے میں ان کو ایک قابل عزت مقام حاصل ہے۔ اگر مسلمان اتحاد و اتفاق کو
پست پشت ڈال کر اختلاف کو ہی اپنا وطیرہ بنائے رکھیں گے تو حالات کو کوڑا
یونہی برستا رہے گا۔
|
|