معذورں کا عالمی دن ۔ ۳ دسمبر
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اقوام متحدہ کی جانب سے ٣ دسمبر معذوروں کا عالمی دن ہے۔ معذور افراد ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں ۔ جن کی جانب ہر ایک کی توجہ ہونی چاہیے حکومت کو اس حوالے سے بہتر سے بہتر اقدامات کرنے چاہیے۔ ذیل میں اس موضوع پر معذور افراد کی ضروریات اور اہمیت کے علاوہ اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے ۔ |
|
اقوام متحدہ نے دنوں ، ہفتوں ،سالوں اور دس سالوں کا انتخاب کیا جس کا
بنیادی مقصد عالمی سطح کے مسائل اور issues جن میں اقوام متحدہ اور اس کے
ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے ہیں کو اجاگر کرناہے۔بسا اوقات یو این کے ذیلی
ادروں نے اپنے پروگرام کے مطابق بعض مسائل کو اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں
کو مقرر کرلیا جیسے عالمی ادارہ صحت WHOنے صحت کا عالمی دن، World
No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن، دل کا عالمی دن،ٹی بی کاعالمی دن وغیرہ
کے انعقاد کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح یونیسکو نے بھی بعض موضوعات کو اجاگر
کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف دنوں کا انتخاب کیا
اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسیزاور نمائش
کااہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا عالمی دن‘، عالمی لٹریسی ڈے‘، عالمی
ماحولیاتی ڈے‘، ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن،مادری زبان کا عالمی دن ،
کتاب کا عالمی دن اوراسی طرح دیگر موضوعات پر دنوں کا اہتمام کیا جاتا
ہے۔اسی طرح معذور افراد سے اظہار یکجہتی اور ان کے مسائل و معاملات کو
اجاگر کرنے کے لیے1992ء میں اقوام متحدہ نے3 دسمبر کو ’معذوروں کا عالمی
دن‘ (International Day of Persons with Disabilities, IDPD)قرار دیا ۔ اس
دن دنیا بھر میں معذوروں کے حوالے سے مختلف پروگرام ترتیب دئے جاتے
ہیں۔پاکستان میں بھی اس دن کا اہتمام کیا جاتاہے ۔ہر سال کا موضوع مختلف
ہوتا ہے۔2015ء کا موضوع Inclusion matters: access and empowerment for
Peopleمقرر کیا گیا ہے۔اس موضوع کے حوالے سے سیمینارز، کانفرنسیزاور لیکچر
اور دیگر پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔ پاکستان میں معذوروں کی فلا ح و
بہبود سے متعلق فلاحی تنظیمیں معذوروں کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیتی
ہیں۔
ایک سروے کے مطا بق دنیا کی کل آبادی کا 15فیصد یا ایک بلین افراد جن میں
مرد ، عورتیں اور بچے شامل ہیں کسی نہ کسی طور معذوری میں مبتلا ہیں۔
آرگنائیزیشن برائے اکنامک کوآپریشن و ڈیولپمنٹ(OECD)کی ایک رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ ترقی پزیر ممالک جہاں تعلیم عام نہیں وہاں معذوروں افراد تعدادا
میں زیادہ ہیں۔ان میں خواتین کی تعداد زیادہ بتا ئی جاتی ہے۔ ترقی پزیر
ممالک میں معذوروں کی تعداد 80 فیصد بتائی گئی ہے۔ یونیسف(UNICEF)کی رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ ایسے بچے جو کسی اعتبار سے معذور ہیں اور شاہراہوں پر
زندگی گزارتے ہیں تعدادکے اعتبار سے 30فیصد ہیں۔ معذورافراد کو جائز اور
مناسب سہولیات فراہم کرنے کے لیے دنیا کے 45ممالک میں قانون سازی کی گئی۔
معذور افراد کی تربیت و تعلیم کے حوالے سے جو اعداد و شماریونسکو کی جانب
سے بیان کیے گئے ہیں ان کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں 90فیصد بچوں کے لیے
اسکول یا تربیت گاہیں موجود نہیں اور ایسے بچے اسکول ہی نہیں جاتے۔ دنیا
میں معذور بچوں میں تعلیم کا تناسب صرف 3فیصد بیا ن کیا گیا ہے۔دنیا میں
386ملین افراد جو کسی بھی اعتبار سے معذور ی کے زمرے میں آتے ہیں مختلف
سرکاری ، نیم سرکاری یا نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں۔ عالمی لیبر
آرگنائیزیشن(ILO)کے مطابق دنیا میں ہزاروں معذور افراد ایسے ہیں جو اپنے
طور پر چھوٹا موٹا کام یا کاروبار کرکے گزربسر کرتے ہیں جب کہ 400ملین
معذور افراد کسمپرسی اور مشکلات کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے ۔ یہاں بھی معذور افراد کی حالتِ زار
ابتر اور قابل توجہ ہے۔ معذور افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون موجود
نہیں۔ نہ ہی سرکاری سرپرستی میں معذوروں کی فلاح و بہبود کے ادارے ہی قائم
کیے گئے ہیں۔ البتہ نجی شعبہ میں ، خدمت خلق اور فلاحی اداروں کی جانب سے
معذورافراد کی تعلیم اورنگہداشت کے ادارے مختلف شہروں میں قائم ہیں۔
پاکستان میں معذور افراد کو مختلف سرکاری محکموں میں ملازمت کے مواقع فراہم
کرنے کا حق معذوراں کو ۱۹۸۱ء میں جاری ہونے والا ایک آرڈیننس دیتا ہے یہ
آرڈیننس Disabled Persons (Employment and Rehabilitation) Ordinance 1981
ہے۔ اس وقت کی حکومت یہ آرڈیننس تو جاری کردیا لیکن سرکاری محکموں میں اس
قانون کاا طلاق آج تک نہیں ہوا۔ پاکستان میں معذور افراد کل آبدی کا
2.49فیصد ہیں۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں معذور افراد کی تعدادجو (PWD's
statistics in Pakistan)نے اپنے سروے میں بیان کی ہے اس کے مطابق صوبہ
پنجاب میں 2.5فیصدیعنی 2816795ہے،صوبہ سندھ میں 3.05فیصدیعنی
1432148ہے،صوبہ خیبر پختونخواہ میں 2.1فیصدیعنی 566265ہے،صوبہ بلوچستان میں
2.33فیصدیعنی210391ہے،اسلام آباد میں1.20فیصدیعنی 16352 ہے ، کل معذورین
تعداد کے اعتبار سے 5035951ہیں۔ نادرا نے90 ہزار کے قریب معذور افراد کو
کارڈ بھی جاری کردیے ہیں ۔ حکومت پر لازم ہے کہ مختلف محکموں میں جو4049
اسامیاں خالی ہیں معذور افراد ان میں ملازمت فراہم کرے۔ تاکہ معاشرے کے اس
اہم طبقے کو اس کا جائز حق مل سکے۔2002 ء میں حکومت کی جانب سے National
Policy for Persons with Disabilitiesبھی جاری کی جاچکی ہے۔ معذوروں کے لیے
کیے جانے والے ان اقدامات پر اگر ایمانداری سے عمل درآمد کیاجائے تو معاشرے
کا یہ محروم طبقہ خوش حال زندگی گزانے کے قابل ہوجائے گا۔ ایسا کرنا ہمارا
اخلاقی اور قانونی فرض بھی ہے۔
معذورافراد ہر اعتبار سے ہم سب کی توجہ اور ہمدرد کے مستحق ہیں ۔ ان کی
بہبود ، اسکول اور تربیتی اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں
سابقہ حکومتوں کے ادوار میں سرکاری ملازمت میں مختصر کوٹہ مقرر کیا گیا جس
پر ایمانداری سے عمل درآمد نہیں ہوااس کی واضح مثال ایک سال قبل نابینا
افراد کی جانب سے ہونے والا وہ احتجاج تھا جس پر پولیس نے بے رحمی سے تشدد
بھی کیا تھا۔ پاکستان بھر میں پولس کے اس طرز عمل کی شدید الفاظ میں مذمت
بھی کی گئی تھی۔ سفید چھڑی لیے معاشرے کے یہ افراد سرکاری محکموں میں قانون
کے مطابق ملازمت کے حصول کا مطالبہ کررہے تھے جو ہر اعتبار سے جائز تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معذوررین کو ان کا جائز اور قانونی حق دیا جائے۔ جس
محکمے میں معذور افراد نہیں وہاں انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
سرکاری اداروں کے علاوہ نجی ادارے ، کمپنیاں، اخبارات کے دفاتر، ٹی وی
سینٹر، تجارتی و صنعتی ادارے بھی معذور افراد کو انسانی ہمدردی کے طور پر
ملازمت کے مواقع فراہم کریں ۔ ہم اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے معاشرے کا
یہ مظلوم طبقہ پیٹ کی آگ بجھا نے کے لیے ہمارے اور آپ کے سامنے ہاتھ
پھیلانے پر ہی مجبور ہوگا۔
فلاحی ادارے جنہوں نے معذورین کی فلاح وبہبود ، تعلیم و تربیت کے ادارے
قائم کیے ہوئے ہیں لائق ِ تحسین ہیں وہ والدین جن کو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے
امتحان میں ڈالا کہ انہیں معذور اولاد عطا کی اور وہ ان کی پرورش ،
نگہداشت، دیکھ بھال دل و جان سے کر رہے ہیں۔ ایک جانب تو وہ کسی غیر کے لیے
مصروف ِ عمل نہیں بلکہ اپنے خون کی آبیاری کررہے ہیں جو ان کا حق اور فرض
بھی ہے تو دوسری جانب ان کا یہ عمل عبادت کا حصہ بھی ہے اﷲ تعالیٰ انہیں اس
کے بدلے یقینا اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ قرآن کریم کی سورۃ التفا بن کی آیت
15میں ارشاد ربانی ہے کہ ’تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور
خدا کے ہاں بڑ ا اجر ہے‘۔ سفید چھڑی کا ہاتھ میں ہونا اس بات کی علامت تصور
کیا جاتا ہے کہ چھڑی کا حامل شخص بینائی سے محروم ہے ، اگر کوئی ایسا شخص
کسی لمحہ خاص طور پر سڑک کے نکارے نظر آجائے تو دیر کیے بغیر اس کی مدد کو
پہنچنا ہر ایک کے فرائض شامل ہے۔ اسی طرح دیگر معذوریں کی مدد و رہنمائی
میں ہمیں کسی تساہلی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ حکومت وقت پر لازم ہے کہ ملک
میں معذورین کی سہولیات، تعلیم و تربیت کے لیے کسی بھی قسم کا قانون موجود
نہیں ماسوائے 1981ء کے آرڈیننس کے۔ اس آرڈیننس پر من و عن عمل نہیں ہورہا۔
ضرورت ہے کہ ایسے افراد کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے کے اس طبقہ
کو جلد انصاف اور سہولت میسر آسکے۔ |
|