فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی طرح ان کی
اہلیہ کارلا برونی بھی میڈیا میں رہنے کا فن جانتی ہیں۔ شادی سے پہلے وہ
ایک کامیاب پاپ اسٹار رہیں۔ برونی نے فروری 2008ء میں صدر سرکوزی سے شادی
کی تھی۔ اس شادی سے پہلے سرکوزی نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے پانچ ماہ بعد ہی
اپنی دوسری بیوی سسیلیا کو اکتوبر 2007ء میں طلاق دی تھی۔ اس کے بعد برونی
کے ساتھ ان کے رومانس کے چرچے بھی رہے، صدارتی محل میں ایک مختصر سی تقریب
میں وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے تھے۔ صدر کوزی کو کئی اعزاز حاصل ہیں،
مثلاً سرکوزی پہلے فرانسیسی صدر ہیں، جنہوں نے اپنے عہد صدارت میں طلاق دی٬
ان کا یہ بھی امتیاز کے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں وہ پہلے صدر ہیں جنہوں نے
دورِ صدارت کے دوران شادی کی۔ اپنے شوہر کی طرح کارلا کے قصے کہانیاں بھی
دنیا بھر کے اخبارات و جرائد اور میڈیا میں مقبول ہیں۔ چند دن پہلے خبر آئی
کہ فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی اہلیہ کارلا برونی کی دوستی ایک بے گھر
فرد کے ساتھ ہوگئی ہے اور وہ ان کو رقم دیتی ہیں اور ان سے موسیقی پر بات
کرتی ہیں۔ بے گھر فرد ڈینس نے بھی اس راز کو نہیں چھپایا اورایک ’کلوزر‘
نامی میگزین میں اپنے انٹرویو میں بتایا کہ صدر کی اہلیہ برونی نے ان کو
ایک ہوٹل میں رہنے کی پیشکش کی ہے جس کا خرچہ وہ خود اٹھائیں گی۔ ڈینس نے
مزید بتایا کہ ان دونوں کی بات چیت اس وقت شروع ہوئی جب اکتالیس سالہ
اطالوی نژاد ماڈل اور گلوکارہ اپنے بیٹے کے ساتھ جا رہیں تھیں۔ برطانوی
اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کو ڈینس نے بتایا کہ ’انہوں نے میرا حال پوچھا اور
مجھے ایک یا دو پچاس یا سو یورو کے نوٹ دیے۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ دونوں
نے کتابوں یا موسیقی پر بات چیت کی اور برونی نے ان کو اپنی نئی البم بھی
دی۔ تاہم ڈینس نے برونی کی ایک ماہ تک ہوٹل میں رہنے کی پیشکش مسترد
کردی۔اس کہنا تھا کہ برونی نے مجھے فوجی قسم کا ایک کمبل بھی دیا ہے جس سے
میں گرم رہتا ہوں۔‘برونی نے بے گھر افراد کے رسالے کو ایک انٹرویو میں ان
کی اور ڈینس کے درمیان ہونے والی بات چیت کا ذکر کیا تھا جس کے بعد رسالے
کلوزر نے ڈینس کا انٹرویو کیا۔ تھوڑے عرصے پہلے فرانسیسی صدر کی اہلیہ نے
اس کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا۔ جو ان کی برہنہ تصویر والے تھیلے
بیچ رہی تھی۔ کارلا برونی کے وکیلوں نے پارڈن نامی اس کمپنی سے ایک لاکھ
ساٹھ ہزار ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ یہ
فوٹو انیس سو ترانوے میں ایڈز کے خلاف ایک مہم کے لیے کھینچی گئی تھی اور
نہ کارلا برونی نے اور نہ ہی تصویر لینے والے فوٹوگرافر نے کمپنی کو اس کے
استعمال کی اجازت دی تھی۔ اس مقدمے کے بعد کمپنی نے دکانوں سے یہ تھیلے
واپس منگوا لیے اور انہیں ضائع کر دیا۔ ری یونین میں یہ تھیلے تقریباً تین
سو پاکستانی روپے میں فروخت ہو رہے تھے۔ ان سفید تھیلوں پر سابق ماڈل کارلا
برونی کی بلیک اینڈ وہائٹ برہنہ تصویر چھپی ہوئی تھی۔ برونی کے وکلا نے
عدالت میں کہا کہ وہ یہ نہیں چاہتیں کہ اس تصویر کو ایڈز کی بیداری کے
علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جائے اور یہ کہ وہ اس کے کمرشل
استعمال کے خلاف ہیں۔ یہ تصویر ایڈز مخالف مہم کے لیے لی گئی تھی ،اس تصویر
کا ایک اصل پرنٹ نیو یارک میں نیلام کیا گیا تھا جو اکیانوے ہزار ڈالر میں
بکا تھا۔
فرانس کی خاتون اوّل کارلا برونی سرکوزی نے ایک ویب سائٹ بھی کھولی تھی۔ جس
میں ان کی فلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ صدارتی محل میں ان کی زندگی کے بارے
میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس ویب سائٹ کے کھلتے ہی پہلے ہی روز اس پر
اتنے کلک پڑے کہ وہ بند ہوگئی۔ وہ پسماندہ طبقے کی مدد کےلئے ایک فاؤنڈیشن،
ایڈز، تپ دق اور ملیریا کے خلاف کوششوں کے لئے قائم عالمی فنڈ کے لئے بحثیت
سفیر ان اور فرانس کی خاتون اوّل کے طور پر شہرت رکھتی ہیں، تازہ ترین یہ
ہے کہ فرانس کی عدالت نے ملک کے 24 نیوز چینلز کو فرانس کی خاتون اول کی
نجی زندگی میں مداخلت اور ان کے خلاف افواہیں پھیلانے پر 4 ہزار ڈالر
جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے جو کہ گلوکارہ بنجمن بیولے کو جائے گا جس
کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان افواہوں سے بنجمن کی ذات اور کیریئر کو نقصان
پہنچا۔ بنجمن نے عدالت 20 ہزار یورو ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ عدالت
نے کارلا برونی کے بارے افواہیں پھیلانے کو ان کی نجی زندگی میں صریح
مداخلت قرار دیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ نکولا سرکوزی نے اپنے اہل خانہ
کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی بھی دوسرے فرانسیسی صدر سے زیادہ عدالتوں کا
سہارا لیا۔ لیکن فرانس اور یورپ کی عدالتیں میڈیا کو لگام دینے کا موقع
ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ناک کے آگے سے دوسرے فرد کی آزادی شروع ہوجاتی ہے۔
پاکستان کے چینل جس طرح آزادی کا استعمال کررہے ہیں۔ وہ بہت سے طبقوں کے
لئے باعث آزار ہے۔ گزشتہ دو دنوں میں ٹی وی چینل سے وابستہ دو صحافی بم
دھماکوں میں جان بحق ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹروں اور وکلاء سے ان کی دست بدست جنگ
ہوچکی ہے۔ حکومتی حلقے بھی میڈیا ٹرائیل کے الزامات لگاتے ہیں۔ اس پر ہمیں
سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ میڈیا کی اس آزادی سے کیا ہم غریب اور حقوق سے
محروم افراد کی کوئی خدمت کررہے ہیں، یا قصے کہانیوں سے دل بہلا رہے ہیں۔ |