تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سب سے
پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالی نے خود تعلیم دی ۔اور پھر اسی
تعلیم اور شعور کی بدولت انھیں فرشتوں پر فوقیت دی۔حضور نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم پر پہلے وحی کا آغاز ہی اقراء سے ہوا۔قرآن کریم سراپا تعلیم
ہے۔حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے علم کو ہر مسلمان مردوزن پر فرض قرار
دیاہے۔پاکستان کے آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ لازمی اور مفت
تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ان سب کچھ کے باوجو د کتنی افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس
وقت پاکستان میں 5سال سے16سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم،
سکولوں سے باہر ہیں۔ ان میں سے 22لاکھ تو اسلامی مدرسوں کے طلبہ ہیں جو
یونی سیف ،یونیسکو اور الف اعلان جیسے اداروں کے اعدادو شمار میں شامل
نہیں۔یہ باقی دوکروڑ 28لاکھ بچے کیا کررہے ہیں؟کتنے بچے سٹریٹ چلڈرن کا
درجہ پاکربے سروسامانی کی عالم میں در بدر پھر رہے ہیں؟اور کتنے پھول اور
کلیوں کا بچپن دو وقت کی روٹی کے لیے ورکشاپوں کا رزق بنتاجارہا ہے؟یہ وہ
سوالات ہیں جن کا صحیح جواب اس وقت شائدکسی کے پاس بھی نہیں کم ازکم
حکمرانوں کے پاس تو بالکل نہیں۔
تعلیم سے محروم بچوں کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں ہے جہاں 66فی صد بچے
باقاعدہ کسی تعلیمی ادارے میں نہیں جاتے۔دوسرے نمبر پر فاٹاہے جہاں 62فی صد
بچوں کو کسی تعلیم ادارے میں پڑھنے کی سہولت میسر نہیں۔اسی طرح سندھ میں
51فی صد،پنجاب میں 47 فی صد ،گلگت بلتستان میں 43فی صد،خیبر پختون خوامیں
34فی صد بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔
31دسمبر 2015ء تک متعلق میلینیم ڈیویلپمنٹ گول کو پورا کرنے میں پاکستان
بری طرح ناکام ہواہے۔2015 ء کے ایجوکیشن فار آل ڈیویلپمنٹ انڈکس کے
مطابق113ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 106واں ہے۔یعنی تعلیم کے معاملے میں
پاکستان سے صرف سات ممالک پست ہیں۔
حال ہی میں الف اعلان کے شائع کردہ ایک اور رپورٹ سے پاکستان کے اس بڑے
قومی بحران کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اس رپورٹ میں چاروں
صوبوں،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں کے کل148 اضلاع کی درجہ
بندی کی گئی ہے۔کئی قسم کی درجہ بندی پر مشتمل اس رپورٹ میں دو اقسام خاص
طور پر قابل لحاظ ہے۔پہلا تعلیمی سکور کے لحاظ سے دوسراسکول انفراسٹرکچر کے
لحاظ سے۔تعلیمی سکور میں بچوں کی سکول تک رسائی،پانچویں تک تعلیم کی تکمیل
،سیکھنے کا معیار،صنفی مساوات یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح شامل ہے۔سکول
انفراسٹرکچر میں سکولوں کوبجلی، پانی کی فراہمی،واش روم کا انتظام اور
چاردیواری کا بندوبست اور عمارت کی حالت شامل ہے۔
تعلیمی سکور میں بلوچستان کے 32 اضلاع میں سے 12اضلاع پہلے 100درجوں میں
جگہ نہیں بناسکے۔درجہ بندی کے آخری 10 میں سے9 اضلاع کا تعلق بلوچستان سے
ہے۔سندھ میں صرف کراچی پہلے 50درجوں پر آنے والے اضلاع میں ( 43 ویں
نمبرپر)شامل ہے۔سندھ کے صرف 4 اضلاع درجہ بندی کے پہلے نصف حصے میں موجود
ہیں۔پنجاب اور کے پی اعداد وشمار کے اس فہرست میں کسی حد تک بہتر دکھائی
دیتے ہیں ۔
معیار تعلیم کو جانچنے کے لیے رپورٹ بنانے والوں نے پانچویں جماعت کاجائزہ
تین حوالوں سے لیا ہے:اردو،انگریزی،اور حساب میں استعداد۔ اس لحاظ سے دیکھا
جائے توپاکستان کے دارلخلافے اسلام آباد جیسے ماڈرن شہر میں 51 فی
صدبچے،بلوچستان میں 58 فی صد،پنجاب میں 37فی صد،خیبرٰ پختون خوا میں51 فی
صد،سندھ میں 49 فی صد،فاٹا میں55 فی صد،گلگت بلتستان میں45فی صد پانچویں
جماعت کے بچے دوسری جماعت کی اردو کی عبارت نہیں پڑھ سکتے۔ انگریزی کی
استعداد کا عالم یہ ہے کہ اسلام آباد کے 46 فی صد بچے،بلوچستان کے 57 فی صد
،پنجاب کے 41 فی صد،خیبر پختون خوا کے 50 فی صد اور گلگت بلتستان کے 38 فی
صد بچے دوسری جماعت کی انگریزی کا ایک جملہ پڑھنے سے قاصر ہیں۔
جہا ں تک ریاضی کی بات ہے آزاد کشمیر کے 47فی صد ،اسلام آبادکے 53فی
صد،بلوچستان کے 67 فی صد،پنجاب کے 48فی صد،خیبر پختون خوا کے 51فی صد،سندھ
کے 58فی صد،فاٹا کے 52فی صداور گلگت بلتستان کے 44فی صد پانچویں کے بچے دو
ہندسوں کی تقسیم نہیں جانتے۔
انفراسٹرکچر کا عالم یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی پاکستان کے 43فی صد پرائمری
سکول بجلی،36فی صد پانی،35فی صدواش روم اور32فی صد چاردیواری سے محروم ہیں
اور 43فی صدکی عمارتیں اطمینان بخش نہیں ہیں۔
اس وقت پاکستان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تما م پارٹیوں کے انتخابی
منشور میں تعلیم کو فروغ دینے اور تمام بچوں کو میٹرک تک مفت تعلیم دینے کے
دعوے الفاظ میں تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ موجود ہیں ۔ان میں سے بعض
پارٹیوں کو کئی دفعہ اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع ملا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ
اس کے باوجود پاکستان کی تعلیمی صورت حال اتنی پریشان کن کیوں ہے؟
اس کا جواب اس کے سوا کیا ہوسکتاہے کہ تعلیم کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں
دی گئی۔توجہ کیسے دی جائے جب ہمارے حکمرانوں ،سیاست دانوں اور بیوروکریٹوں
(چند ایک کے اسثنا کے ساتھ )کی ترجیح اوؒل صرف اپنا معیار زندگی بلند کرنا
ہے۔جدید ماڈل کی پر سہولت گاڑیاں،شاندار کوٹھیاں اور جملہ آسائشات زندگی کی
فراہمی۔ترجیح دوم ،تاحیات خود اورمرنے کے بعد اپنی نسلوں کے لیے اقتدار پر
قبضے کی راہ ہموار کرنا۔اسی مقصد کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک بھاری
بھر کم بنک بلینس اور جائیداد بنانا ۔یہ کام دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے بغیر
ممکن نہیں۔ہاں جو تھوڑا بہت ترقیاتی کام کرنابھی ہوتو وہ میٹرو بس اور ٹرین
کی صورت میں ، تاکہ آئندہ انتخابات میں اشتہار کا کام دے سکے۔ایسے میں
تعلیم کی طرف توجہ کا نہ تو وقت ہوتا ہے اور نہ دماغ۔
اس قوم کو ایک طویل عرصے تک دل خوش کن نعروں پر بہلایا گیا۔افسوس کہ اب بھی
غریبوں کی خدمت،جمہوریت کی سربلندی ،آسمان کو چھولینے اور نئے پاکستان کے
خوش نما نعرے سنائی دیتے ہیں۔لیکن اب ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ
کھوکھلے نعروں ،خوش نما دعووں ،نمائشی اور فریب پر مبنی اقدامات سے قومیں
ترقی نہیں کیا کرتیں۔ترقی کے لیے خلوص پر مبنی عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی
ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ سیاسی وابستگیوں سے بالا ترماہرین تعلیم پر مشتمل قومی
تعلیمی کمیٹی بنائی جائے۔اس کمیٹی کی مدد سے آئین پاکستان کی روشنی میں
تعلیمی پالیسی اورمختصر مدت اور طویل مدت کے منصوبے بنائے جائیں۔پارلیمنٹ
سے منظوری کے بعد ان منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے
۔اوراگلے پانچ سالوں میں کم ازکم 100فی صد بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا
ایک ہدف تو حاصل کیاجائے۔ |