انسان کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
شیخ سعدیؒ کے پاس انکا ایک دوست ایا عرض کیا حضرت سخت مالی مشکل کا شکار
ہوں کچھ رقم مستعار چاہیے شیخ سعدیؒ اٹھے اندر گئے بیگم سے رقم لی اور دوست
کے حوالے کی دوست نے شکریہ ادا کیا اور روانہ ہو گیا ۔دوست کے جانے کے بعد
شیخ سعدیؒ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے بیگم نے جب 7 شیخ سعدیؒ کی یہ حالت دیکھی
تو بولیں اگر رقم کے واپس نہ ملنے کا اگر اتنا افسوس ہے تو رقم دی کیوں تھی
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں میں تو اس بات پر رو رہا ہوں کہ میں اپنے دوست سے
اتنا غافل اور لا تعلق تھا کہ مجھکو اس کی پریشانیوں کا علم نہ ہو سکا اور
اس کو اپنی حاجت بیان کرنے میرے دروازے تک انا پٹرا کاش میرے
علم میں ہوتا تو میرے دوست کو میرے گھر تک انے کی زحمت نہ کرنی پڑتی ، اس
واقعے کو پڑھ کر سوچیے اج کہ اس دور میں ہمارا ایک دوسرے سے کتنا تعلق ہے
اگر نہیں تو کیوں ؟
دور حا ضر میں جہاں ساینس اور ٹیکنالوجی نے بے پنہاہ ترقی کی ہے ہزاروں میل
کے فاصلے ایک کلک پر طے کر دیے دنیا بھر سے رابط اسان کر دیا ہے مگر یہ سب
کچھ ایک فن تک محدود ہے ایک دوسرے کے معملات سے لا تعلق ہیں بلکہ خود غرضی
کی معراج کو چھو رہے ہیں بعض اوقات تو بازاری جملہ بھی استعمال کر لیتے ہیں
کیسی ٹوپی پہنائی ۔
وہاں لا تعلق ہونے پر رویا جا رہا ہے یہاں بیوقوف بنانے پر خوشی کا سماں ہے
اس دور میں اگر فکر ہے تو اس بات کی کہ انٹرنیٹ چل رہا ہے سگنل پورے آ رہے
ہیں اور بس بعض اوقات تو یوں گماں ہوتا ہے کہ اگر انٹرنیٹ بند ہو گیا تو
انکی سانسیں نہ بند ہو جایں خصوصا اسمارٹ فون رکھنے والے اس کے APPS میں
اسقدر گم ہیں کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غافل ہو جاتے ہیں پڑوس کی
خبر نہیں مگر امریکہ میں موجود فلاں کے فلاں کے رشتے داروں سے رابطہ میں
ہیں جن لوگوں سے کبھی ایک ملک میں رہتے ہوے ملاقا ت کرنے کا خیال تک نہ ایا
تھا مگر واٹسپ اور وایبر پر رابطہ کے لیے مرے جا رہے ہیں کھانا کھا رہے ہوں
یا والدین کے ساتھ یا کسی تقریب میں ہوں سارا دہان موبایل پر لگا ہے کسی نے
سایلنٹ پر کسی نے وایبریشن پر رکھاہوا ہے ایک پراسراریت ہے جو ان کے چہروں
سے ایاں ہے دور دراز سے رابطے ہونے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر کیااسمارٹ
فون پٹروس میں نہ ہوگا تو اپ اس سے لا تعلق ہو جاینگے اور تعلق اس سے
جوڑینگے جو ہزاروں میل دور ہو گا کیونکہ اس کے پاس وہی مشین ہے جو مشین اپ
کے پاس ہے تو پس ثابت ہوا کہ یہ مشینی تعلق ہے دل کا نہیں ۔۔۔
ایک مشہور کہاوت ہے احساس مروت کو کچل دیتے ہیں الات اسکا عملی مشاہدہ اس
وقت ہوا جب ایک چھو ٹا سا موبایل جسمیں دنیا سمٹ کر اپکی ہتیلی پر موجود ہے
اسکا تعلق مشین کا مشین سے ہے اسمیں انسان جذبات اور احساسات سے لا تعلق ہے
انٹرنیٹ بند ہوا یاموبایل خراب ہوا یا چھن گیا تعلق ختم کہاں کے جذبات کہاں
کی دوستی سب ختم مشینی تعلق تھا سو ختم ہو گیا . چلیں اپ کو اس دور میں لے
چلتا ہوں جو ا نٹرنیٹ سے کوسوں دور تھا مگر ایک دوسرے سے تعلق اتنا مضبوط
جڑا ہوا تھا پورا محلہ ایک گھرانے کی مانند لگتا تھا جو دراصل ہمارے دین کا
اصل ہے ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں اس طرح شریک ہوتے
جیسے یہ انکے گھر کا معاملہ ہو گھروں میں کھانے کے تبادلے بھی ہوتے تھے جس
سے رزق میں برکت بھی ہوتی تھی اور ایک د وسرے سے تعلق جوڑا رہنے کا ذریعہ
بھی تھا ایسی بے شمار یادیں میرے دل میں تازہ ہیں گو کے اس دور کے بے شمار
لوگ اب اس دنیا میں موجود نہیں مگر میرے دل میں انکی محبت اور انکا بے لوث
تعلق ہمیشہ موجود رہے گا کیونکہ یہ تعلق الات کے مرہون منت نہ تھا جو رہتی
دنیا تک قایم رہے گا ۔
جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے رابطہ تو اسان کر دیے مگر لوگوں کو ذاتیات کے
دائرے میں سمیٹ دیا اور یوں معاشرے میں لا تعلقی بڑھتی چلی گٗی ہما ری کی
جگہ میری کا استعمال بڑھ گیا اس تصور نے انسان کو اس کے محور میں قید کر
دیامیں اور میری ذات کا دائرہ وسیع نہ ہو توایک دوسرے سے لا تعلق ہونا ایک
فطری عمل ہے ایے اس دعا کہ ساتھ کہ اللہ کا فرمان ہے لقد خلق لاانسان فی
احسان تقویم کہ ہم نے انسان کہ احسن بنایا ہے اس سے محبت کریں اور ایک
دوسرے سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں اور ایک دوسرے کے غمگسار بنیں۔۔۔۔ آمین
|