وَخَلقتُ الجِنَّ وَالانسَ الّالِےَعبُددُن
اﷲ رب العزت نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے۔پھرجب اﷲ رب العزت زمین پر انسان
کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا۔تو فرشتوں اے اﷲ یہ انسان زمین پر فساد کرے
گا۔
جھگڑے کرے گا۔لیکن مختصرا جب اﷲ نے انسان کو بنا دیا۔تو اس کے بنانے کا
کوئی مقصدتھا۔اس کی کوئی منزل تھی۔ جیسے دنیا میں کوئی چیز بنائی جائے تو
اسکے بنانے کا ایک مقصدہوتاہے۔ اوراسکی منزل مقر ر ہوتی ہے۔جیسا کہ ایک
گھڑی جب وجود میں آئی تو اسکا مقصد تھا ۔اس سے وقت کا اندازاہ لگایا
جائے۔اور وقت کا درست استعمال کیا جائے۔اسکی منزل ہمارا بازو یاگھر کی
مخصوص دیوار ہے۔ اسی طرح جب انسان کی خلقت ہوئی تو اسکابھی ایک مقصد ہے۔اور
ایک واضح منزل ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے وَخَلقتُ الجِنَّ وَالانسَ الّالِےَعبُددُن کہ ہم
تمام جن و انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ عبادت کیا ہے اور عبادت
کسے کہتے ہیں ؟
عبادت ہر وہ کام جو احکام باری تعالٰی اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق قرآن وسنت
کے دائرے میں کیا جائے۔جیسا کہ پانی پینا اگر پانی قرآن سنت کے احکامات پر
عمل کرتے ہوئے پیا جائے تو یہ بھی عبادت ہے۔ جو کام قرآن وسنت سے ہٹ کر
ہوگا۔وہ گمراہی ہے۔جیسا کوئی فجریامغرب کی نماز کے فرض چاراداء کرے۔اس وجہ
سے کہ ثواب زیادہ ہوگا ۔۔تو اسکا ثوب نہیں ہوگا ۔نہ یہ عبادت ہے۔نماز،
روزہ،زکٰوۃ ۔حج ،صدقہ اور جیاد سب عبادت ہیں۔لیکن قرآن و سنت کے دائرہ کار
میں ہو۔اگر کوئی مسلم اور غیرمسلم کا قتل عام کرے اور اس عمل کو جائز قرار
دے اور اسکو جہاد کا نام دے تو جہاد نہیں ہوگا فساد ہوگا۔اور کھلی گمراہی
ہے۔
اور پھر عبادت خشوع وخضوع اور عاجزی کے ساتھ ہو۔ ریاکاری اور دکھاوا مقصود
نہ ہو۔یہ سمجھ کر عبادت کرے کہ اﷲ دیکھ رہاہے اور یہ نیک کام میں خالصتا اﷲ
کے لئے کررہا ہوں۔۔۔
اور انسان کی منزل آخرت و جنت ہے۔یہ فانی دنیا انسان کی منزل نہیں ۔
حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے دنیا میں ایسے رہو جیسا کہ مسافر ہوتا ہے۔ مسافر جب
سفرپرجاتا ہے جگہ جگہ پر ٹھکانے نہیں بناتا نہ ہر جگہ سے امیدیں وابستہ
کرتا ہے۔
ہم بھی چند لمحوں کے مہمان ہیں آخرت ہماری حقیقی منزل ہے۔دنیاحثییت تو اﷲ
کے ہاں مچھرکے پر برابر بھی نہیں ہے۔ جب مسلمان دنیا دار کی طرف
دیکھتاہےاسکی عیش وعشرت دیکھتا تو تو دنیا اسے امیدیں لگا لیتا ہے۔حلانکہ
اﷲ نے کافرکو جو دینا تھا دنیا میں دے دیا ۔ اب جنت میں اسکا حصہ نہیں ایک
بزرگ نے دنیا کو خواب میں ایک بلی کی شکل میں دیکھا ۔ اسکی دم اور منہ
دونوں زخمی تھے ۔بزرگ نے پوچھا یہ کیا ہوا تو دنیا نے کہا دنیا دار میرے
پیچھے ہیں مجھے اپنی کھینچ رہے ہیں اسلئے مجھے زخم آئے ہیں ۔تو بزرگ نے کہا
منہ پر کیا ہوا ۔تو اس نے کہا جب میں اﷲ والوں کے پاس جاتی ہوں وہ مجھے
مارتے اور دہتکارتے ہیں اس لئے منہ پر زخم ہیں ۔ہمیں دنیا سے لمبی لمبی
امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ لوگوں کو جب حقیقت بتائی جائے تو کہتے
ہیں ہم تو دنیا دار ہیں ۔ہم جاہل و ان پڑھ ہیں حالانکہ دنیادار تو کافر
ہوتا ہے اور ان پڑھ جاہل منافقین ہوتے ہیں ہم تو اشرف المخلوقات ہیں۔ ہمیں
زیبا نہیں دیتا کہ ہم کہیں ہم دنیا دار اور جاہل ہیں
اﷲ تبارک تعالٰ ہمیں حقیقی مقصد ومنزل کو سمجھنے کی توفیق دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
|