سر میری امی بیمار ہیں، میرے ابو کا سایہ ہمارے سر پر
نہیں ہے، میرے بھائی چھوٹے ہیں، میری اپنی شادی کی عمر ہے لیکن حالات اچھے
نہ ہونے کی وجہ سے کوئی رشتہ نہیں آتا. میری پڑھائی نامکمل ہے تو کہیں اچھی
نوکری نہیں ملتی. میں کہاں سے لاؤں حوصلہ، تنگ آ گئی میں آپ کا کب سے لیکچر
سن سن کر، مجھے صرف حوصلہ افزا باتیں نہیں چاہیے مجھے حل چاہیے سر، حل.......!
موٹیوشنل سپیکرکو نہیں پتا تھا کہ سیمینار کے سوال و جواب کے دورانیہ میں
بھرے ہال میں موجود کوئی بہت پیچھے بیٹھی باحجاب لڑکی ایسے ان سے مخاطب ہو
گی. جہاں لیکچر ختم کرنے کے بعد کی تالیوں کی گونج، ابھی تک ان کے کانوں
میں تھی اور وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک دفعہ پھر وہ اچھا حوصلہ افزا لیکچر
دینے میں کامیاب ہو گئے وہیں پر یہ سوال کچھ ایسے اچانک آیا جو انھیں حیران
کے ساتھ وقتی پریشان بھی کر گیا. پھر بھی وہ ہمت سے اٹھے ، دماغ میں جواب
دینے کو لفظوں کو جلدی جلدی چنتے ہوے روسٹروم کی طرف بڑھے، اسکےقریب جا کر
رکے، پھر اچانک رخ موڑ کر اسٹیج سے نیچے اترے اور اپنا سر اٹھا کر ہلکی
مسکراہٹ سجائے اس لڑکی کی طرف بڑھنے لگے، وہ محسوس کر رہے تھے کہ ھال میں
موجود سب لوگ انھیں چپ چاپ تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں.......
" آپ اٹھیے اور میرے ساتھ آئیے" موٹیوشنل سپیکرجب لڑکی کی جگہ پر آ کر اس
سے مخاطب ہوئے تو وہ تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اٹھی اور ان ان کے پیچھے پیچھے
چلتے اسٹیج پر آئی. انہوں نے اسکو پاس کھڑا کر کے اسکو چہرہ ہال میں موجود
سب لوگوں کی طرف کرنے کو کہا اور پھر لڑکی کی بات کا جواب دینا شروع کیا......
موٹیوشنل سپیکرکا اس انداز میں لڑکی کو اسٹیج پر لے کر آنا اور پھر انکا
جواب اس لڑکی پر اتنا اثرانداز ہوا کہ وہ لڑکی اب بےحد خوش و خوشحال ہے.اب
وہ لڑکی ایک چھوٹے و اچھے کاروبار کی مالک بن چکی ہے، والدہ کا بھی علاج چل
رہا اور اسکی اچھی جگہ شادی بھی طے پا گئی ہے.
وہ جواباً باتیں کیا تھی جن سے لڑکی کی سوچ و زندگی میں تبدیلی آئی وہ میں
انشاللہ اس آرٹیکل کے دوسرے حصّے میں بتاؤں گا. فی الحال کے لئے اتنا یاد
رکھیں کہ جو لوگ اپنے رب پر آنکھ بند کر کے پکا یقین کرتے ہوے عملی کوشش
کرتے ہیں تو پھر رب ان کو کہاں کہاں سے اور کس راستے سے آسانیاں دیتا ہے یہ
بات " نہ تم جانو، نہ ہم.... " |