پیرس کے حملہ کا دہشت گرد۔

پیرس کے حملہ کا دہشت گرد۔عبدالحامد ابو اود
عبدالحامد ابو اود کی موت کی خبر کو اس کے خاندان نے ایک اچھی خبر کے طورپر لیا، اس کی بڑی بہن یاسمینا نے بتایا کہ ہم دعا کر رہے تھے کہ وہ مارا جائے۔

ابواوُ د،26سال کا جوان،اپنے دہشت گرد دوستوں سے جن کا تعلق داعش سے تھا، ملنے پیرس جا رہا تھا تاکہ کوئی دہشت پھیلائی جائے۔وہ ایک عرصے سے اسی طرح کی دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث رہا تھا۔ـــ؛؛بلکل، اسطرح خون بہانا کوئی اچھا کام نہیں،لیکن کچھ وقت کے بعد اس طرح کافروں کا خون بہانا خوشگوار عمل ہے؛؛مسٹر ابواؤد نے ایک ویڈیو میں فرانسیسی زبان میں بتایا جو کہ اسکی موت سے قبل لی گئی تھی۔

پچھلے سال کے اختتام پر سیکورٹی والوں نے اس کا پیچھا کیا ،اس کے فون کا ریکارڈ حاصل کیا مگر پھر وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور دوبارہ بیلجئم آ گیا جہاں وہ کافی عرصے سے مقیم تھا۔وہ اور اس خاندان مراکش سے ہجرت کر کے بیلجئم آیا تھا۔

اس کا تعلق محمد العرانی سے تھا جس کے سر کی قیمت 5لاکھ ڈالر امریکہ کی طرف سے ہے ، "اگر تم کسی کا فر امریکی یا یورپین کو قتل کرو اور خصوصاََ قابل نفرت فرانسیسی کو توالﷲ پر بھروسہ کرواور کسی طرح بھی اور طریقے سے ان کو مار دو"۔اپنے ایک بیان میں عدانی نے مسلم امہ سے اپیل کی۔

بیلجئن ٹی وی نے بتایا کہ سیکیورٹی افواج نے ابواؤد کی یورپ ،بیلجئم واپسی کی اطلاع دے دی تھی کیونکہ اس نے اپنے ایک جہادی ساتھ کو یونان سے فون کال سے بات کی۔جنوری میں سیکورٹی نے اس کے گھر پر چھاپا مارا تھا مگر وہ وہاں موجود نہیں ہوتا۔اس کے دو ساتھی جن میں ایک اسکا بھائی بھی تھا ،مارا گیا تھا۔بیلجئم حکومت نے اس چھاپہ کو کسی بڑے دہشت گرد حملے کا شاخسانہ بتایا تھا۔لیکن وہ اصل ٹارگٹ ابو اؤ د کو نظر انداز کر گئے تھے اور وہ واپس شام چلا گیا۔

اﷲ تعالیٰ نے ان کو اندھا کر دیا اور میں شام پہنچنے میں کامیاب ہو گیا گر کہ کتنی ہی ایجنسیاں میرے پیچھے تھیں۔ابواؤد نے ایک جریدے "دمشق" کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا:

مسٹر ابو اؤد اسلامک آرگنائزیشن کا قیمتی اثاثہ تھا جو کہ دہشت گرد کاروائیوں کو جنگ کا دائرہ کاریورپ تک لے جانا چاہتے تھے۔اس کے دوست احباب اور تعلق دار اسطرح کے ہی حملے کروا نا چاہتے تھے۔

اس کے والد "عمر" ،مولن بیک میں کپڑوں کا م کرتے ہیں۔مسلمانوں کو منفی رویے کے جو کہ یورپ میں ان سے رکھا جاتا ہے کہ باوجود وہ کیتھو لک سکول میں داخلہ حاصل کر سکا۔جہاں وہ ایک سال تعلیم حاصل کر سکا اور خراب رویے کی بناء پر نکالا گیا۔وہ مولن بیک میں معمولی جرائم کرتا رہا۔

ابراہیم عبدالسلام اور صالح عبدالسلام نے برسلز سے کار رینٹ پر لی اور جمعہ کے دِن دہشت گرد کاروائی کی۔مسٹر ابواوٗد معمولی جرائم پر کچھ عرصے جیل میں رہا۔،ایک ویڈیو میں اس نے کہا، میں تمام زندگی مسلمانوں کا خون بہتا دیکھتا رہا ہوں ۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالی ان کی کمر توڑ دے جو میری مخالفت کرتے ہیں اور ان کو ختم کردے۔

اس سال کے شروع میں ایک فرانسیسی جریدے نے ایک فلم دکھائی جس میں وہ اور اسکا بھائی لاشوں کو کھینچ کر ٹرک میں ڈال رہا ہے اور ان پر مذاق کر رہا ہے۔

بہت سے لہبیلجئم میں مراکو کے رہنے والے بالکل لیبیا والا تلفظ بولتے ہیں۔تقریباََ 520بیلجئن لڑاکے شام اور عراق جنگ میں شرکت کیلئے جا چکے ہیں۔

از مظہر شہزاد،بہاولپور۔

Mazhar Rao
About the Author: Mazhar Rao Read More Articles by Mazhar Rao: 2 Articles with 1920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.