افراتفری

قارئین آخری ہفتے میں نے’لاہور اورنج لائن ٹرین‘کے دو پہلو بیان کئے تھے سب دوستوں نے اس مضمون کو پسند کیا تھا اور مسائل کو حقیقی جانا تھا اور مجھے ایسا مضمون لکھنے پر سراہا اور دعائیں بھی دیں۔مگر ایک حضرت نے بیاں کیے گئے مسائل کو فضول اور گمراہ کن قرار دیاجناب نے میرے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر کمنٹ کیا کے لکھے گئے مسائل فضول اور گمراہ کن ہیں ایسے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔قارئین میں فیصلہ آپ لوگوں پر چھوڑنا چاہتا ہوں۔ آیا عوام کے حقیقی مسائل کو بیان کرنا فضول اور گمراہ کن ہے؟کیا وہ قلم کار ہی بہتر ہوتا ہے جو نا انصافی دیکھتے ہوئے بھی برے لوگوں کے قصیدے پڑھتا جائے؟میرے خیال میں تو عوام کے حقیقی مسائل کو بیاں کرنا بھی صدقہ جاریہ ہے۔اور ایک صحیح قلم کار تو ہمیشہ عوامی مسائل کو اجاگر کرتا رہے گا۔

قارئین میرا آج کا موضوع ہے افراتفری۔میرے نزدیک بے چینی,بے ایمانی,بے سکونی,پریشانی,بد اعتمادی,یہ سب افرا تفری کی پیداوار ہیں۔میرے دوستو افراتفری کیا ہے؟موجودہ دور میں انساں کی بھاگ دوڑ ہر قسم کی بھاگ دوڑ,اسٹیٹس بنانے کی بھاگ دوڑ,خود کو کرکے دکھانے کی بھاگ دوڑ,اپنے اپنے مفادات کی بھاگ دوڑ,انسانوں کی بے جا رنگینیوں میں رنگی بھاگ دوڑ,ایک ایسی بھاگ دوڑ انسان جس سے ظاہری تور پر تو خوش ہے لیکن اس کے اندر کسی نہ کسی طرح کی بے چینی,بے سکونی,بد اعتمادی ہے۔وہ ہر چیز حاصل کرنے کے باوجود بھی خوش نہیں بے چینی کا غلبہ انسانوں کے دلوں میں چھایا ہوا ہے۔کوئی بھی شخص حقیقتا خوش نہیں قارئین اس افرا تفری کی فضا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔کوئی بھی شخص کسی بھی حالت میں خوش نہیں بناوٹی خوشیاں لئے یہ دنیا اندر ہی اندر کڑھتی جا رہی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں انسانوں نے اپنے لیے ہر چیز آسان بنا لی ہے اپنے لئے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کر لی ہیں اس دور میں انسان باطنی طور پر خوش نہیں ہر انساں پریشانیوں کی کشمکش میں مبتلا ہے۔آخر کیوں؟قارئین میں ان دنوں ممتاز مفتی صاحب کی کتاب تلاش پڑھ رہا ہوں بے جا سوالات میرے سر کا بوجھ بنے ہوئے تھے۔قارئین میں اس پریشانی کی وجہ سے انکل حضرات کی بیٹھک میں جا بیٹھا اور انکی کھٹی میٹھی باتیں سن کر خود کو ترو تازہ کرنے لگا۔ وہیں باتوں ہی باتوں میں کسانوں کی داستاں شروع ہوئی۔سب نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور سب کی رائے کا مجموعہ یہ ہی تھا کہ کسانوں سے زیادہ بے چارہ کوئی بھی نہیں محنت کٹھن اور دام صفر۔وہیں والد صاحب کے بیٹھے ہوئے ایک دوست اپنی کچھ پرانی داستاں بیاں کرنے لگے۔جب ہمارا بچپن ہوتا تھا تب ہمارے حالات بہت ہی کٹھن ہوتے تھیوہ بیاں کرنے لگے کہ ہمارے گھر کے گیارہ فرد تھے۔ایک تایا اور اسکی بیوی سمیت تایا گھومنے پھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تھا اور والد صاحب کھیتی باڑی کرتے تھے کسان تھے اکثر اوقات سارا دن محنت میں ہی گزر جاتابڑے بھائی کبھی کبھار والد صاحب کا کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتے تھے۔اور اسی سے اپنے گھر کا نظام چلاتے۔یونہی نظام چلتا رہتا۔سارا سیزن محنت کرکے جو اناج حاصل ہوتا اس سے صرف گھر کے کھانے کے لئے ہی کافی ہوتا کبھی کبھار وہ بھی کم پڑ جاتا۔پھر سے وہی کٹھن محنت شروع ہو جاتی اور اگلی فصل کی کاشت میں مگن ہو جاتے۔آ ج تو ہم کسان لٹھے یا کاٹن کے سوٹ میں لت پت اپنی فصل کے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں مگر تب لوگوں کے پاس با مشکل ایک یا دو جوڑے ہی ہوتے۔مگر تب کے حا لات بہت مختلف تھے تب لوگ اناج کی کٹائی پر آوازیں مار مار کر اناج کا تحفہ بچوں میں بانٹتے تھے۔انہی انکل کا کہنا تھا کہ ان سب حالات میں ان مشکل ترین حالات میں بھی میں نے کبھی کسی چہرے پر مایوسی نہیں دیکھی تھی کبھی میں نے اپنے ابا جان کو پریشان نہیں دیکھا تھا۔ ہمیشہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں اور خوشیاں ہی دیکھیں کبھی کسی کے دلمیں شکوہ نہ تھا۔ کوی اپنے رب سے شکایت نہیں رکھتا تھا۔ ہر شخص ان مشکل ترین حالات میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔ انکے مطابق تب انسانوں کو آسانیوں سے واقفیت نہیں تھی مگر انکے دل صاف تھے۔ وہ زندگی خوب ہنسی خوشی گزار رہے تھے۔اور زندگی کی بہاروں سے خوب لطف اٹھاتے تھے۔ انہیں انکل کا کہنا ہے کہ جب ہم سب بھائی جوان ہوے تو ہم سب نے فصلہ کیا کہ اس کھیتی باڑی سے تو کچھ نہیں بننے والا ہمیں کچھ اور کرنا پڑے گا۔’ڈو مور‘ہم سب بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے باہر نکلیں گے اور محنت کر کے اپنے لیئے آسانیاں پیدا کریں گے۔ یہاں چار گنا محنت سے بہتر ہے کہ وی اور ہی کام کریں ۔ تب انکا سپرٹ اقبال کے شعر کی عکاسی کرتا تھا۔
جس کھیت سے نہ ہو میسر دہقاں کو روزی
اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلادو

میرے خیال میں وہ ٹھیک کررہے تھے انسان کو آسانیاں پیدا کرنی چاہیں ۔ خیر وہ ایسے نکلے اور ایسے جزبے سے نکلے کہ سب نے ہی اپنی دنیا بدل ڈالی ۔ آج ان سب بھائیوں نے اپنے لئے آسانیاں تو پیدا کرلی ہیں ۔ مگر ان آسانیوں نے بہت سی بے چینیاں اور بے سکونیاں بھی پیدا کر دی ہیں۔ انہیں انکل کا کہنا ہے کہآج بھی وہ اپنے پرانے وقت باد ہیں زندگی کتنی حسین تھی۔کوی پریشانی نہیں تھی۔ زندگی کا ہر لمحہ خوشیاں بکھرتاتھا۔ مگر اب جو ہم نے آسائشیں حاصل کر لیں ہیں۔ آج ہمیں اپنے کپڑوں جوتوں کی تعداد معلوم نہیں ۔اتنے زیادہ کپڑے جوتے اور دوسری چیزیں حاصل کر لیں ہیں کہ ہر چیز کے پہننے کی باری مہینے بعد آتی ہے گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ اچھی سو سائٹیوں میں رہتے ہیں ۔ روپے پیسے اناج کی کمی نہیں مگر بے چینی ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی اولادوں کی فرمائشیں پوری ہورہی ہیں ۔ مگر سکون پھر بھی نصیب نہیں زندگی ایک افراتفری کی مانند بن گئی ہے۔ کبھی اس چیز کی چہل پہل کبھی اس کی بہت سے سوالوں اور پرشانیوں نے دماغ و دل میں بسیرا کر لیا ہے۔قارئین ان انکل کے ساتھ ساتھ دوسرے انکل حضرات نے بھی اپنی اپنی داستاں بیاں کی۔ان سب نے نے یہ رزلٹ نکالا کہ یہ سب دین کی دوری کے باعث ہے میں بھی انسے متفق ہوا۔میں نے ان کی ساری باتیں سنی اورمیں پھر بے چینی میں مبتلا ہو گیا کہ وہ کیا دن تھے جب لوگ خوشیاں بانٹتے تھے مگر اب کیا ہوا۔دین سے دوری کے متعلق بھی میں کھوج میں لگ گیا کہ آخر اس موجودہ اویئرنیس کے دور میں بھیدین سے دوری کیسے سب لوگ جو نمازیں پڑھتے ہیں زکواۃ ادا کرتے ہیں مگر ان لوگوں میں بھی بے چینی قارئین میں مفتی صاحب کی کتاب سے تھوڑا سا واقعہ لکھ رہا ہوں۔قارئین اگر غلط لگے تو مجھے معاف کیجئے گا مجھ پر فتوا نہ لگا دیجئے گا۔’’ایک کنویں میں ایک مینڈک رہتا تھا وہ کنواں اس کی کل کائنات تھا جس پر وہ حکمران تھا اور ہمہ وقت خوشی سے ٹراتا رہتا تھا کرنا خدا کا ایسا ہوا کے سیلاب آیا اور سمندر کا ایک مینڈک کنوے میں جا گرا کنوے کا مینڈک اسے دیکھ کر حیران ہوا بولا ابے تو کہاں سے آیا؟ سمندر کے مینڈک نے کہا میں سمندر سے آیا ہوں۔سمندر کیا ہوتا ہے کنویں کے مینڈک نے پوچھا۔ سمندر بہت بڑا ہوتا ہے سمندری مینڈک نے جواب دیا۔کنویں کے مینڈک نے اپنے آپ میں پھونک بھری اور پوچھا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے سمندر۔اس سے بہت بڑا سمندری مینڈک نے جواب دیا۔کنویں کے مینڈک نے خود کو اور پھلایا کیا اتنا بڑا خود میں پھونک بھرتے بھرتے کنویں کا مینڈک پھٹ گیا۔اور اسکے چیتھڑے اڑ گئے۔ہم سب جو کائنات اور اسکی حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتے کنویں کے مینڈک ہیں۔‘‘

دراصل ساری کنفیوژن لفظ علم کی پیدا کردہ ہے ہمارے عالم دین سمجھتے ہیں کے علم سے مراد صرف دینی علم ہے۔جبکہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’کہ اگر علم حاصل کرنے کے لئے تمہیں چین بھی جانا پڑے تو ضرور جاؤ‘‘ انکا مطلب کائنات سے متعلقہ فزیکل علوم ہیں۔چونکہ دینی علوم کا مرکز تو مدینہ تھادینی علوم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کا حصول ہی پیدا نہیں ہوتا۔قران میں بھی جگہ جگہ علم اور عالم کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہاں بھی علم کا مطلب کائناتی اور فزیکل علوم ہیں۔ جب تک آپ اﷲ تعالی کی تخلیقات کا علم حا صل نہیں کرتے تب تک آپ اﷲ کی عظمت کائنات کی وسعت اس کے نظم اور منصوبہ بندی کی عظمت کو نہیں سمجھ سکتے۔تب تک آپ قران کے مفہوم اور عظمت کو نہیں سمجھ سکتے۔دنیاوی علوم حاصل کئے بغیر دینی علوم ایسے ہی ہیں جیسے بن پہیوں کے گاڑی۔صاحبو ہمارے دینی مدرسے جو ہیں وہ کنویں کے مینڈک پیدا کر سکتے ہیں اور دھڑا دھڑ کر رہے ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر قصبے میں ہر شہر میں جگہ جگہ دینی مدارس قائم کیے جا رہیاور اس خوش فہمی میں کے دین کی خدمت کر رہے ہیں۔لوگ اسی خوشی میں دھڑا ذھڑ چندے دیتے ہیں۔اور اپنے قریبی غریب مسلمانوں کو پوچھتے بھی نہیں۔ان سب کی وجہ سے اسلام بدنام ہو رہا ہے اور مغرب والے ہمیں فنڈامنٹلسٹ کہتے ہیں۔ہونے کا تعنہ دیتے ہیں۔اہل مغرب کیا جانیں اسلام کیا ہے انہوں نے کبھی اسلام کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اور اناپ شناپ قسم کے اندازے لگاتے رہتے ہیں۔قارئین فنڈامینٹلسٹ تو مجھ جیسے کم عقل ہیں۔قارئین آپ کہیں گے کہ کیسا کم عقل ہے ہر چیز میں ہی افرا تفری دکھا دی واقعی ہر چیز میں بھی افرا تفری ہے دین اسلام میں بھی ہم لوگوں نے افرا تفری پھیلا رکھی ہے۔ہم دین اسلام کے مناسک بھی اسی افرا تفری میں پورے کرتے ہیں ہمارے اندر خالص ایمان موجود نہیں جو ہماری پریشانیوں ,بے چینیوں اور بے سکونی کا باعث ہے۔ہمیں کسی نہ کسی چیز کا خوف ہوتا ہے ہم بس ڈر کے باعث ہی عبادت کرتے ہیں دل سے نہیں ہمارے دل ترو تازہ نہیں رہے وہ پرانے زمانے کے لوگ بڑے سیدھے سادھے لوگ تھے چاہے ہمارے جتنی انفارمیشن ان کے پاس نہیں تھی مگر وہ سیدھے لوگ تھے بڑھے سیدھے سادھے لوگ انکا ایمان ہم سے پختہ تھا اﷲ پر توکل رکھتے تھے۔ اسی لئے پرسکون تھے۔اسلام میں اجارہ دار آ پہنچے ہیں۔جو اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر اسلام کو ہر رنگ میں ڈال لیتے ہیں کوئی سیاست کے لئے کوئی شہرت کے لئے اور ایسے ہی مختلف مقاصد کے لئے اسلام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسلام جسے سارہ اور صاف مذہب کو اجارہ داروں نے اپنے مفاد کے لئے اپنی برٹری کے لئے رچول میں بدل دیا ۔اسلام ایک بیلنسڈ مذہب ہے ۔ ایسا بیلنسڈ مذہب ہے جی کہ دنیا سے بھی تعلق قائم رہے۔ اﷲ سے بھی تعلق قائم رہے۔ کماؤ کماؤ دولت کے ڈھیر لگاؤ مگر پھر بانٹ کر کھاؤ اپنے لیئے بنگلہ بناؤ ٹوکسی غریب کے لیئے ایک جھونپڑا بنادو ۔اپنے لیئے ریشمی سوٹ بناؤ تو کسی کے لیئے کھدر کا جوڑا بنوا دو ۔ اپنے بیٹے کی فیس ادا کرو تو غریب کے بیٹے کی بھی ادا کردو۔ اسلام بھی کیا مذہب ہے بے شک دولت کی ریل پیل ہو مگر دولت ایک جگہ ڈھیر نہ ہو چلتی پھرتی رہے۔بانٹنا سیکھو تو سرمایہ دارانہ نظام قائم نہیں ہوتا۔ہم افرا تفری میں گم کیوں ہیں ہماری پریشانیاں ختم کیوں نہیں ہوتیں۔کیونکہ ہم ان پرمنے لوگوں کی طرح سیدھے اور صاف لوگ نہیں ہم اسلام کو تنگ نظری سے دیکھتے ہیں ہم موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی تنگ نظر ہوتے جا رہے ہیں۔مگر ہمارا اسلام ہر دور ہر شخص اور ہر مشکل میں کام آنے والا دین ہے۔
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندہ حق تو بھی ادھر جا
 
Ch Zulqarnain Hundal
About the Author: Ch Zulqarnain Hundal Read More Articles by Ch Zulqarnain Hundal: 129 Articles with 117159 views A Young Pakistani Columnist, Blogger, Poet, And Engineer
Member Pakistan Engineering Council
C. E. O Voice Of Society
Contact Number 03424652269
.. View More