کام وہی اچھا ہوتا ہے جس میں
مطابقت ہو مطابقت سے مراد توازن اور یکسانیت بھی ہے اور یہ بھی کہ کسی عمل
کا نیت کے اور نیت کا عمل کے مطابق نتیجہ برآمد ہونا یہ تو نہایت واضح
حقیقت ہے کہ “عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے“ سو جیسی نیت ہوگی ویسا ہی عمل
ہوتا ہے اور جیسا عمل ہوتا ہے پھر ویسا ہی نتیجہ، صلہ، بدلہ یا اجر ہوتا ہے
یعنی جیسی نیت ویسا ہی عمل اور پھر عمل کے مطابق ہی اجر بھی ملے گا اب یہ
عامل پر ہے کہ وہ کوئی عمل کس نیت سے کرتا ہے اور اس کے تنیجے کے طور پر
کیسا اور کتنا صلہ و اجر پاتا ہے ظاہری سی بات ہے کہ نیت اچھی ہوگی تو عمل
بھی اچھا ہی ہوگا اور عمل اچھا ہے تو یقیناً اس کا اجر بھی اچھا ہوگا کہ
برائی کے بدلے بھلائی یا بھلائی کے بدلے برائی نہیں ملتی-
اجر یا صلہ اچھا ہو یا برا اس کا انحصار عامل یعنی عمل کرنے والے پر ہے
کیونکہ کسی بھی عمل کے نتیجے کی ذمہ داری صرف اور صرف اس کام کے کرنے والے
پر عامل یعنی عمل کرنے والے پر عائد ہوتی ہے جو کسی بھی کام کے شروع کرنے
سے پہلے اس کی نیت کرتا ہے عمل کیسا بھی ہو یہ تو عامل ہی جانتا ہے کہ وہ
کس نیت سے کوئی عمل انجام دے رہا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر
خوب نظر آنے والے کام کے پیچھے نیت خالص نہیں بلکہ کوئی اور ہی مقصد عامل
کے پیش نظر ہوتا ہے اور اپنی نیت کے فتور کے باعث ایک اچھا کام بھی سودمند
ہونے کی بجائے عامل کے لئے جان کا وبال بن جاتا ہے اور ایسا عمل کرنے والا
اپنے بظاہر اچھا نظر آنے والے عمل کے باوجود بھی کوئی فیض نہیں اٹھا سکتا
جبکہ اس عمل کے نتیجے کی ذمہ داری سراسر عامل کی نیت پر ہے کسی بھی عمل کے
اچھے یا برے اثرات و نتائج کی ذمہ داری عامل کسی دوسرے فرد پر عائد کرنے کا
مجاز نہیں کیونکہ ہر عمل کرنے والا اپنے اچھے یا برے اجر و صلے کا آپ ذمہ
دار ہے یا اس کی نیت کیونکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اور جس نیت سے بھی کرتا
ہے کسی اور کو اسکا علم ہو یا نہ ہو عامل کے علم میں یہ بات ضرور ہونی
چاہیے کہ اس کا مالک اسک خالق اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہے اس کی نیت اس کے
عمل اسکی کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا ہے اس کی نیت کو جانتا ہے علیم و
خبیر ہے اور وہی ہے جو ہر عمل کا اجر و ثواب، صلہ اور بدلہ دینے والا ہے-
اسی طرح بعض اوقات ظاہری طور پر برا نظر آنے والا عمل کرنے کی نیت بری نہ
ہو ارادہ نہ ہو قصداً نہ کیا گیا ہو لیکن کسی انتہائی مجبوری کی حالت میں
انسان سے نادانستہ یا دانستہ سر زد ہو جائے تو اس کا نتیجہ انتا برا نہیں
ہوتا جتنا کہ بری نیت اور برے ارادے سے کئے جانے والے عمل کا جیسا کہ سب
جانتے ہیں کہ جھوٹ ایک برائی ہے بلکہ بہت سی برائیوں کی جڑ ہے لیکن اگر
کوئی شخص کسی کی جان بچانے کے لئے کسی کو لڑائی جھگڑے یا فتنہ و فساد سے
بچانے کے لئے اچھی نیت رکھتے ہوئے سچ بات سے صرف نظر کرتا ہے مثال کے طور
پر اگر کوئی انتہائی شدید بھوک کی حالت میں کہیں سے کوئی کھانے کی چیز چرا
لیتا ہے اور کوئی دوسرا فرد یہ حقیقت جانتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ کام کیا
ہے اور وہ کسی کے پوچھنے پر سچ بات ظاہر نہ کرے تو اس کی نیت یا عمل اتنی
بڑی برائی کے زمرے میں نہیں آئے گا جتنا کہ بدنیتی کے نتیجے میں کیا گیا
عمل یا اس کے نتتیجے کا صلہ-
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھیں
کہ ہر انسان کی نیت کے مطابق عمل اور عمل کے مطابق اجر ہوتا ہے، نیت اچھی
ہوگی تو عمل بھی اچھا ہوگا اور عمل اچھا ہوگا تو اس کا اجر بھی اچھا ہی ملے
گا اس لئے لازم ہے کہ کسی بھی کام کی نیت سے پہلے اپنے آپ کو اپنے دل کو
خلوص نیت کی صفت سے متعصف کریں تاکہ آپ کی نیت، عمل اور اجر میں مطابقت
قائم رہے اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص نیت کے ساتھ اعمال صالح پر قائم رہنے کی
توفیق عطا فرمائے ہمارے قلب کو اخلاص عطا فرمائے تاکہ ہماری نیت عمل اور
اجر میں ہمیشہ مطابقت قائم رہے (آمین) |