خدائی آفت پر مجبور انسان
(nazish huma qasmi, mumbai)
سپنوں کا شہر…روشنی کا بسیرا، جہاں رات میں بھی دن کا گماں ہوتا تھا…ہندوستان کا ترقی یافتہ حصہ ، جہاں تعلیم و تعلم کا بے مثال انتظام ہے، جہاں کی سڑکیں لاجواب، جس کی عمارتیں بلندو بالا آج تقریباً ڈیڑھ ہفتوں سے تاریکی میں ڈوب گیا ہے، مسلسل ہورہی بارش نے نظام زندگی کو مفلوج بنادیا ہے…ٹرانسپورٹ مکمل طور سے بند ہے۔ جگمگاتی گلیاں سنسان ہوگئی ہے…بلند و بالا عمارات کے مکین خود کو لاچار اور بے بس تصور کر چکے ہیں، اشیائے خوردنی کی قلت سے جہاں جوان بھوک سے بے چین ہیں وہیں شیر خوار بچوں کیلئے دودھ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن پینے کیلئے پانی میسر نہیں ہے۔ موبائل فون اور بجلی سے مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ پانی کی وجہ سے بجلی سپلائی بند کردی گئی ہے۔ پانی کی بوتل جو 15/20 روپیہ میں دکانوں میں بیچی جاتی ہے اس وقت 150/200 روپیہ میں بھی میسر نہیں ہے۔ |
|
سپنوں کا شہر…روشنی کا بسیرا،
جہاں رات میں بھی دن کا گماں ہوتا تھا…ہندوستان کا ترقی یافتہ حصہ ، جہاں
تعلیم و تعلم کا بے مثال انتظام ہے، جہاں کی سڑکیں لاجواب، جس کی عمارتیں
بلندو بالا آج تقریباً ڈیڑھ ہفتوں سے تاریکی میں ڈوب گیا ہے، مسلسل ہورہی
بارش نے نظام زندگی کو مفلوج بنادیا ہے…ٹرانسپورٹ مکمل طور سے بند ہے۔
جگمگاتی گلیاں سنسان ہوگئی ہے…بلند و بالا عمارات کے مکین خود کو لاچار اور
بے بس تصور کر چکے ہیں، اشیائے خوردنی کی قلت سے جہاں جوان بھوک سے بے چین
ہیں وہیں شیر خوار بچوں کیلئے دودھ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ پورا شہر پانی
میں ڈوبا ہوا ہے لیکن پینے کیلئے پانی میسر نہیں ہے۔ موبائل فون اور بجلی
سے مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ پانی کی وجہ سے بجلی سپلائی بند کردی گئی
ہے۔ پانی کی بوتل جو 15/20 روپیہ میں دکانوں میں بیچی جاتی ہے اس وقت
150/200 روپیہ میں بھی میسر نہیں ہے۔ سبزی دال چاول اور دیگر اشیاء یا تو
میسر نہیں ہے یا پھر ان کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہیں۔ پیسہ نکالنے
کیلئے اے ٹی ایم مشین بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے، وزیر داخلہ راج ناتھ
سنگھ نے حکم جاری کیا ہے کہ کشتیوں پر اے ٹی ایم مشین لگا کر عوام تک
پہونچا یا جائے، شہروں میں موجود افراد کیلئے تو کچھ حد تک راحتی سامان
پہونچ رہے ہیں ، لیکن دور دراز کے دیہاتوں میں ریلیف پہونچانا اب بھی ایک
مشکل ترین امر بنا ہوا ہے۔ حکومت و دیگر تنظیموں نے اپنے کارکنان کے ذریعے
راحت رسانی کا کام تو شروع کردیا ہے لیکن تمام جگہوں پر سامان کا پہونچانا
اب بھی مشکل نظر آرہا ہے،تامل ناڈو کی چیف منسٹر جے للتا بذات خود گاڑی سے
شہر کا دورہ کررہی ہیں۔ وزیر اعظم نے بھی متاثرہ علاقوں کا ہوائی دورہ کیا
ہے اور مصیبت زدوں کی راحت رسانی کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔ دیگر بڑے
بڑے لیڈران نے بھی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے، ایسی صورت حال میں جب کہ
پورا علاقہ زیر آب ہے، ریسکیو ٹیم کا بھی پہونچنا بہت مشکل ہورہا ہے ۔
وہیں امداد رسانی کے لیے مذہب و ملت سے اُٹھ کر محض انسانیت کے ناطے مسلم
تنظیموں نے دل کھول کر رکھدیئے ہیں، فردا ًفردا ًیا اجتماعی طور پر ہر طرح
سے متاثرین کی امداد کیلئے خود کو آگے بڑھایا ہے۔ اپنی جان جوکھم میں ڈال
کر خطرہ اٹھاکر دوسروں کی مدد کی ہے، اپنے گھروں سے کھانا اور پانی کا
بندوبست کیا ہے ۔ حتی کہ مسلمانوں نے اپنی مساجد کے دروازے کھول دیئے اور
مسجدوں میں غیر مسلم متاثرین کو پناہ دے رکھی ہے ان کے کھانے پینے اور دیگر
ضروریات زندگی کا بھی مکمل خیال رکھ رہے ہیں، جمعیت علمائے ہند کے اراکین
بھی متاثرین کیلئے خیمہ زن ہیں۔ اس خدائی آفت سے اب تک 347افراد موت کے
شکار ہوچکے ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد اسپتال میں زیر علاج ہے اور وسائل کی
کمی کی بنا پر پریشان ہیں، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اسپتالوں کے آلات صحیح
طریقے سے کام نہیں کر رہے ہیں، ڈاکٹروں کی ٹیم بھی موجود ہے لیکن ان کے
ساتھ بھی یہی پریشانی ہے کہ وہ صحیح طریقے سے اپنے کام کو انجام نہیں دے
پارہے ہیں، نالہ کے گندے پانی کے جماؤ کی بنا پر یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ
کوئی وبائی بیماری نہ پھیل جائے، جس کی روک تھام کیلئے ریاستی اور مرکزی
حکومت نے بہت سے مستحسن اقدامات کئے ہیں، اگر پانی کے نکاسی کے بعد بروقت
کارروائی نہیں کی گئی اور گندگی یونہی جم گئی تو نتائج جان لیوا بیماری کی
شکل میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں، اس پریشانی اور دکھ کے عالم میں ہم تمام
ہندوستانی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی ذات سے جو بھی امدادی کام
کرسکتے ہیں وہ کریں، خود بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے متعلقین
کو بھی اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ بھی اس کار خیر میں برابر کے شریک بنیں،
مذہب اور ذات پات سے اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے بھائیوں کی
بروقت مدد کرسکیں آج اہل تامل ناڈو کو سب سے زیادہ ضرورت ہماری ہے، وہ
سرکاری اعلانات اور یقین دہانی سے اتنے پرامید نہیں ہے جتنا کہ وہ عام
لوگوں کی توجہ اور محنت سے پرامید ہیں، جس طرح سے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے
والوں نے اپنی یکجہتی کا ثبوت پیش کرکے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر
متاثرین کیلئے ریلیف کا انتظام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور یہ اس بات کا
بھی غماز ہے کہ یہاں کے لوگ آج بھی یکجہتی اور جمہوریت کے دلدادہ ہیں،
چینء کے کچھ متاثرین کے پوسٹ جو اس وقت سوشل میڈیا ودیگر اخبارات میں شائع
ہوئے ہیں دل دہلا دینے والے ہیں، کس طرح لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں، دو دو دن تین تین دن تک مسلسل کھانے کو کچھ نصیب نہیں ہوسکا ہے،
چھوٹی چھوٹی گاڑیاں اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ہی ڈوب گئے ہیں، سڑکوں پر پانی
اس مقدار میں جمع ہے کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ سڑک ہے یا پھر
گڑھا ہے۔ سیلاب کی صورتحال ابھی بھی خطرناک نتیجہ پر ہے۔سرکاری رپورٹ کے
مطابق ’’یکم اکتوبر سے اب تک تقریبا 347لوگوں کی جانیں گئی ہیں، جبکہ پوری
ریاست کے 6605ریلیف مراکز میں 17.64لاکھ لوگوں کو بچایا گیا ہے اور انہیں
پناہ دی گئی۔حکومت نے کہا کہ اس نے امدادی کاموں میں تیزی لاتے ہوئے
1.28کروڑ سے زیادہ کھانے کے پیکٹ تقسیم کئے ہیں اور 1.11ملین سے زیادہ
خاندانوں میں 67.47کروڑ روپے کی فوری امداد رقم تقسیم کی۔ایک پریس سرکاری
ریلیز کے مطابق فوج کی 12ٹکڑیاں، 48این ڈی آر ایف ٹیمیں، 400بحریہ اور
کوسٹ گارڈ اہلکار، ہندوستانی فضائیہ کے پانچ، کوسٹ گارڈ سے دو اور بحریہ سے
دو ہیلی کاپٹروں کو راحت مہم میں لگایا گیاتھا۔اس کے مطابق 590ٹن دودھ
پاؤڈر تقسیم کیا گیا ہے،کیمپ 10لاکھ میں سے ریلیف کیمپوں میں رہ رہی
عورتوں سمیت دیگر کو اب تک 4.05لاکھ سینٹری نیپکن دیا گیا ہے۔وزیر اعلی جے
جے للتا نے تباہی سے 8148کروڑ روپے کا نقصان ہونے کی بات کہی اور اس زبردست
اور خوفناک سیلاب کو قومی آفت قراردئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘ ہم اللہ
تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کے مصائب و آلام کو دور فرمائے اور
آسانیاں پیدا کرے، اور جلد سے جلد ہمیں دوبارہ ہمارا وہی ہنستا مسکراتا،
روشنی سے جگمگ جگمگ کرتا چینء شہر مل جائے۔ |
|