16 دسمبر 1971 - یوم سقوط مشرقی پاکستان
(Munir Bin Bashir, Karachi)
دن ایک ہے - اسباق کئی
جانے کیوں پیارے ہشت پہلو کے لیے یہ عشرہ(دس سے بیس دسمبر) ہمیشہ سے مایوسی،
یاسیت، رنج و الم کی دھند لے کر آتا ہے۔ ان کے ایک پرانے بزرگ فرماتے ہیں
کہ ان کا یہ حال پہلے نہ تھا۔ لیکن کب سے ہوااس پر بھی روشنی ڈالنے والے ہی
تھے کہ بجلی چلی گئی اور وہ روشنی لانے کے لیے گھر کے اندر چلے گئے۔ اس کے
بعد جنریٹر اسٹارٹ کرنے کے چکر میں ایسا پڑے کہ سب کچھ بھلا دیا۔ اور آج تک
اسی جنریٹر بجلی کے چکرے میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس مرتبہ پھر دسمبر کا دوسرا عشرہ شروع ہوا تو دل نے کہا کہ اے دوست، دوستی
کا لازم یہ ہے کہ بخوبی دریافت کرو کہ یہ کیا اسرار ہے ورنہ ایسی دوستی
کیسی جو صرف شادمانی میں جاگے اور غم میں دور بھاگے سو یہ ارادہ کر کے ہم
روانہ ہوئے دیکھا کہ ایک میز پر بیٹھے ہیں اور سامنے چیزیں بکھری ہوئی ہیں۔
پرانے سکے، پرانے بوسیدہ پوسٹ آفس کے ٹکٹ اور ایک گھسا ہوا ردی زنگ آلود
گلوب جسے وہ گھمائے جا رہے تھے۔ لیکن وہ ظالم جب بھی رکتا تو سامنے جو
ممالک آتے ان میں ایک طرف مشرقی پاکستان اور دوسری جانب مغربی پاکستان لکھا
ہوتا تھا "یہ دیکھو، یہ کیا ہے - مشرقی پاکستان " انھوں نے درد میں ڈوبی
آواز میں کہا۔ "ہم بھی ، یہ بھی کبھی تھے آشنا - نئی نسل کو یاد ہو نہ ہو۔
میں بھول جانا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ دنیا۔ یہ گلوب کیوں بار بار یاد دلارہا
ہے۔ یہ ٹکٹیں، ان کے اندر بنگالی زبان کی تحریر کیوں ماضی میں دھکیل رہی ہے
-
ہاں۔۔۔۔ یہ 16 دسمبر1971ء کا دن ہی تھا وقت تھا تین بجے اور چار بجے کا جب
بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا نے اعلان کیا اے مغربی پاکستان کے لوگو! جو
مشرقی بازو میں قیام پذیر ہو ‘ نہ گھبراؤ۔ اب تمھاری حفاظت پاکستانی جنرل
عبداللہ نیازی نہیں بلکہ بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کریں گے۔ یا اللہ
امان ملی بھی تو کہاں ملی - 16 دسمبر 1971ء کے معاہدہ جنگ بندی کے الفاظ (ہتھیار
ڈالنے کے معاہدہ کے الفاظ) کچھ اس طرح تھے : "لیفٹیننٹ جنرل جگ جیت سنگھ
اروڑا تصدیق کرتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ جنیوا معاہدہ کے تحت
عزت دارانہ سلوک کیا جائے گا اور وہ تمام لوگ جو مغربی پاکستان سے تعلق
رکھتے ہیں انھیں جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کے تحت محافظت دی جائے گی۔
سمجھ میں نہیں آتا ۔۔۔ اور ہم جیسی چھوٹی فہم والے لوگوں کی سوچ میں یہ بات
آئے گی بھی نہیں کہ بھائی ہشت پہلو ہمیں کیوں تلخ یادیں یاد دلاتے رہتے ہیں
ہیں ۔ہمیں خوش باش رہنے دو۔ جانے وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو قوم
اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے تو تاریخ انھیں بھلا دیتی ہے۔ یہ باتیں ہمارے ذہن
کی پہنچ سے بالا تر ہیں لیکن اتنا علم ضرور ہے کہ سقوط ڈھاکہ کا صدمہ کچھ
لوگ نہ سہہ سکے تھے۔ اس میں باقی صدیقی بھی شامل تھے وہی باقی صدیقی جن کا
شعر لوگ دہراتے رہتے ہیں۔
ایک پل میں ہم وہاں سے اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
باقی صدیقی ریڈیو پاکستان میں ملازم تھے۔ جب انھیں سقوط ڈھاکہ کی اطلاع ملی
تو وہ فرائض منصبی کے سلسلے میں ریڈیو اسٹیشن پر تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ
سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی ان کا دل بھی ساقط ہو گیا ہو۔ پوچھتے پھر رہے تھے کہ
اب کیا ہو گا۔ شاید وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب بھی پردہ غیب سے کوئی
معجزہ ہو گا - لیکن رات کو جب بی بی سی سے شیخ مجیب الرحمٰن کی آواز آئی،
ہم ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہو گئے ہیں تو باقی صدیقی کی روح جسم سے علیحدہ ہو
گئی اور باقی صدیقی اس دنیا سے علیحدہ ہو گئے - انا للہ و انا الیہ راجعون
۔
ہم نے سوچا کہ بھائی ہشت پہلو کوئی ایسا تاریخ کا رخ بھی دکھایا جائے کہ
انھیں تسلی ہو لیکن پتا چلا کہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے صرف ہندوؤں نے ہی
نہیں معاہدہ کیا تھا۔ ایک مرتبہ سات سمندر پار کر کے فرنگی بھی آئےتھے۔ وہ
پاک وہندکےکئی حصےاپنےزیرتسلط لےچکےتھےاورپھرسندھ میں داخل ہوئےتھے۔
حیدرآبادسندھ کے میروں سےمعاہدہ کررہےتھے۔ برطانیہ کی طرف سے کیپٹن ایشتوک
موجود تھا - موجودتھااوردوسری طرف حیدرآبادسندھ کےمیرنورمحمد،میرناصرخان
اورمیرمحمدبیٹھےتھے۔ کیپٹن ایسٹوک نےمعاہدہ کاڈھانچہ سنایا۔ معاہدہ کی
دفعات سن کر کرمیران حیدرآبادسندھ کےچہرےپرپہلےناراضگی کےتاثرات ابھرے۔
لیکن انہیں پورےہندوستان کی صورتحال بھی سامنےنظرآرہی تھی۔ فرنگی
بڑھتےچلےجارہےتھے۔
سومیرنورمحمدکی رنگت پیلی ہوگئی لیکن پھردلی کیفیت
پرقابوپایااورمیرنورمحمدنےکہا : ’’ یہ تمھارےمعاہدےکیسےہیں۔ یہ
تمھارےمعاہدےتمھاری ضروریات اورمفادات کےتحت بدلتےرہتےہیں۔ پہلےتم نےصرف
راہداری مانگی تھی کہ تمھاری فوجیں ہمارےعلاقےسےگزرجائیں گی۔ ہم نےاسکی
اجازت دےدی۔ اب تم ایک دوسرامعاہدہ لےکرآگئےہو۔ ہم سے تین لاکھ سالانہ خراج
مانگ رہےہواورفوج کےاخراجات کےلیے 21 لاکھ الگ - ہمیں اگرایساپتاہوتاتوہم
اپنےملک (حیدرآبادوسندھ) کی حفاظت کے لےدوسرے طریقے ڈھونڈتے…ہم بلوچ
ہیں،تاجرنہیں -
برطانوی کیپٹن ایشتوک نےکمال عیاری سےجواب دیا - محترم میرصاحِب ‘ دوستوں
کودوستوں کی مددکرنی چاہیےہم آپکوپریشان نہیں کرناچاہتے۔ لیکن آپ کو علم
ہےضرورت کسی قانون کی پابندنہیں ہوتی۔ ہمارا مقصد محض ہندوستان کی حفاظت ہی
نہیں بلکہ آپکےاس ملک کی حفاظت بھی ہے -
یہ 22 جنوری 1838 ءکی بات ہےاورآخرکار 6 فروری 1838 کو میران حیدر آباد نے
مٹھائیوں کے تھال بھیج کر معائدے اور اپنی حفاظت کی منظوری کا عندیہ دے دیا
-
لیکن اے دوستو ! تاریخ سخت ظالم ہے- اس کے اوراق کھنگالو تو ایسی حفاظت کا
معائدہ ملک جاپان میں بھی ملتا ہے -- جاپان - جسے امریکا جنگ عظیم دوئم میں
پہلی مرتبہ دو ایٹم بم گرا کر تباہ کر چکا تھا --- کتنی حیرت کی بات ہے کہ
ملک جاپان کے شہر تباہ ہوئے تھے --آدمی جاپان کے مرے تھے -معشیت یہاں کی
زیرو ہوئی تھی -ایٹم کے تابکاری اثرات یہاں پھیلے تھے لیکن اس کے باوجود
امریکا نے جاپان کے سینکڑوں فوجیوں کو فوجی مجرم قرار دیا اور وہ موت کی
سزا کے حقدار قرار پائے - جاپان کی حفاظت کا زمہ لے کر جاپان کو بالکل غیر
مسلح کر دیا گیا - لیکن تاریخ بتای ہے بلکہ بتاتی کیا ہے ہمارے سامنے ہے کہ
جاپانیوں نے ہمت نہیں ہاری- جاپانیوں نے جائزہ لیا کہ اب کون کون سے شعبے
ان کی دسترس میں رہ گئے ہیں جس کے ذریعے وہ دوبارہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھ
سکتے ہیں -
یہ شعبے تھے تجارت ، تعلیم ،صنعت و حرفت ،زراعت وغیرہ -تجارت ایسا شعبہ تھا
جس سے دوسرے تمام شعبے منسلک تھے یعنی تعلیم ، صحت ، زراعت - جاپانیوں نے
سائنس ،ٹکنالوجی اور انجینئرنگ کے فروغ کے لئے بھر پور اقدامات کئے -اس کے
نتیجے میں کارخانوں کی مصنوعات کی کوالٹی میں انقلاب آیا اور جب یہ مصنوعات
تجارت کے ذریعے دنیا میں پہنچیں تو انہوں نے امریکی ،برطانوی جرمنی کی
مصنوعات کو مات دے دی -اور ایک دن وہ آیا جب بین الاقوامی شہرت یافتہ رسالے
“نیوز ویک ُنے سرورق پر ایک تصویر چھاپی “جاپان ، امریکہ کے اندر “-تصویر
میں دکھایا گئاتھا ایک ٹویوٹا جیپ امریکہ کی بندر گاہ پر اتر رہی ہے- اب
دنیا میں امریکہ کی گاڑیاں کم نظر آتی ہیں اور جاپان کی زیادہ -یہی حال
اسٹیل کی صنعت -مواصلات کی اشیا - تفریح کے سامان ( مثلآ ٹی وی -ویڈیو گیم
) وغیرہ کا ہے -تاریخ واقعہ بھی بتاتی ہے اور سبق بلکہ اسباق بھی سکھاتی ہے
، بشرطیکہ سبق سیکھنے والے بنیں -
16 دسمبر 1971 ، یوم سقوط مشرقی پاکستان بھی کئی سبق دے رہا ہے - شرط وہی
ہے کہ ہم سبق حاصل کر نے والے بنیں - |
|