تحریر: ثوبیہ اجمل
بیٹی کے گھر سے بھاگنے کی خبر
جوں ہی محلے میں پھیلی کئی طرح کی باتیں ہونا شروع ہوگئیں۔ جوان بھائیوں کا
گھر سے باہر نکلنا محال ہوگیا۔ رشتے داروں نے منہ پھیر لیا۔ والدین بیٹی کے
غم میں نڈھال تو دوسری جانب لوگوں کی چبھتی باتوں سے روز مرتے اور روز جیتے
تھے۔ آخر کار گھر بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ گھر بیچ کر انجان لوگوں میں
گھر لے لیا۔ مگر والد کا دل نہیں چاہا رہا تھا وہاں سے جانے کو اسے اپنی
بیٹی کا انتظار تھا۔ بہت کہنے کے باوجود وہ وہیں ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں
پڑا رہتا۔ کئی ماہ گزر گئے ایک دن ایک پھٹے پرانے کپڑوں والی مریض لڑکی کے
رونے کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ کچھ دیر تک تو وہ پہچان نہیں پایا کہ
وہ کون ہے مگر جب چہرے سے کپڑا ہٹایا تو اپنی ہی بیٹی کو پاؤں میں پڑا پایا۔
وہ مسلسل زارو قطار روئے جارہی تھی اور بہت کہنے کے باوجود بھی وہ اپنے
والد سے نظریں نہیں ملا پائی۔ رسوائی اور ذلت کی جس آگ میں وہ اپنے والدین
کو جھونک کر گئی تھی اس کے بعد تو شاید وہ بھی ایک پل کو جی نہیں پائی
تھی۔معلوم ہوا کہ جس کے ساتھ بھاگ کر شادی کی انہوں نے کئی طرح کے نقص نکال
کر آخر گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔ یہ واقعہ ہماری ایک پڑوسن نے گزشتہ
دنوں کے گھر سے بھاگنے والی نجمہ کے حوالے سے سنایا۔
ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسی داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ جب ایک لڑکا
اور لڑکی جو کہ زیاد تر سٹوڈنٹ ہوتے ہیں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔
پھر اگر لڑکی یا لڑکے کے گھر والوں کی رضا مندی نہ ہو تو کورٹ میرج کر لی
جاتی ہے.مجھے ان لڑکیوں پر بہت حیرت ہوتی ہے جو کسی غیر شخص کے لئے اپنے
مان باپ کو دکھ دیتی ہیں اور کورٹ میں جا کر شادی کر لیتی ہیں،وہ بھی اس
معاشرے میں۔انہوں نے کبھی سوچا ہے کہ اس واقعہ کہ بعد ان کئے والدین کا کیا
ہو گا۔ لوگ ان کو کتنے طعنے دیں گے۔وہ لڑکیاں ایک پل کو سوچیں کیا مان باپ
نے یہ دن دیکھنے کیلئے اولاد کو پیدا کیا تھا۔ ان کی پرورش کی،کھلایا
پلایا،اچھے سے اچھا لباس پہنایا، تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا۔ ہمارے اکثر
گھرانوں میں ملازمہ افورد نہیں کی جاتی مائیں خود گھر کے سارے کام کرتی ہیں
اور خوش ہوتیں ہیں کہ ان کی اولاد پڑھ رہی ہے۔ لیکن وقت نہیں جانتی کہ ان
کی بیٹی کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر اپنے نام نہاد عاشق کا انتظار کرہی ہو
گی، یا کلاس چھوڑ کراپنے بوائے فرینڈ کے پارکس میں کھوم رہی ہو گی اور مرد
کا کام تو دھو کا دینا ہے۔ بس یہ عورت کی عقل پر منحصر ہے کہ اس دھوکے کا
دورانیہ کتنا ہو گا۔ مرد صرف عورت سے کھیلتا ہے۔ ایسے موقع پر لوگوں
کواسلام یاد آتا ہے، بیشک ہر عاقل اور بالغ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی
پسند کا اظہار کریں لیکن تب جب والدین راضی ہوں۔ ماں باپ کہ دکھ دے کر کبھی
بھی کوئی خوش نہیں رہ سکتا۔ اس طرح کی پسند کی شادیوں میں اکثر دیکھا اور
سنا یہی گیا ہے کہ لڑکے کے گھر والے لڑکی کو قبول نہیں۔ اکثر ایسی پسند کی
شادیوں میں ایسا ہوتا ہے کے لڑکے کے گھر والے لڑکی کو قبول نہیں کرتے۔ پھر
ان لڑکیوں کو در د کی ٹھوکریں ہی کھانی پڑتی ہیں۔
پھر مرد جلد ہی اس محبت کے ڈرامے سے اکتا جاتا ہے اس لئے اچانک اس کی ماں
باپ سے محبت جاگ اٹھتی ہے اور وہ لڑکی کو چھوڑ دیتا ہے ، اور پھر بعد میں
وہ ہی لڑکا کسی اور سے شادی کر گھر بسا لیتا ہے۔ تب بھی تو لڑکیوں کو صبر
کرنا پڑتا ہے تو وہ تب صبر کیوں نہیں کرتی جب اس کے والدین اس کے حق میں
ہوتے ہیں اسے اسی شادی کیسے منع کرتے ہیں، اگر وہ وہاں صبر کا مظاہرہ کریں
تو اس دنیا میں اﷲ ان کو ان کے صبر کا پھل دے گا نہیں تو آخرت میں ان اس کا
اجر ضرور ملے گا۔
|