پاکستان جو کہ کافی عرصہ سے دہشتگردی کی
لپیٹ میں ہے دہشتگردی،ٹارگٹ کلنگ ،خودکش حملوں کے کئی افسوسناک واقعات
رونما ہو چکے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی جام شہادت نوش فرما
چکے ہیں لیکن 11ستمبر 2012کو بلدیہ ٹاوٗن کراچی میں 300افراد کو زندہ جلانے
کا دلخراش واقعہ اور16دسمبر2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور کے بے گناہ اور
معصوم بچوں کا قتل عام ایسا واقعہ تھا جس نے ساری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا
تھاکچھ سانحات زندگے میں ایسے رونما ہوتے ہیں جنہیں انسان جتنی بھی بھلانے
کی کوشش کرے وہ نہیں بھول پاتے حیوانیت اور درندگی کی تاریخ بھری پڑی ہے
انسانوں کو زندہ درگور کیا گیا لاشوں کے مینار کھڑے کیے گئے لاکھوں ماوٗں
کی گودیں اُجاڑیں گئی لیکن یہ سب دور جاہلیت میں ہوتا تھا ایک دوسرے کو
نیچا دیکھانے کے لئے کئی کئی حدیں پار کی گئی ،خون کی ندیاں بہائی گئی
تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہیں 16دسمبر کا واقعہ کوئی حادثہ یا
سانحہ نہیں بلکہ آنسووٗں کی ایک المناک داستان ہیں یہ ان بے بسوں کی کہانی
ہے جنہوں نے ملک کی خاطراپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا یہ ان معصوم پھولوں
کی شہادت کا دن ہے جن کا خون پاکستان کو رنگین کر گیا 16دسمبر ان عظیم
ماوٗں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنے معصوم پھولوں کو
پاکستان پر قربان کر کے صبرواستقامت کی زندہ تصویریں بن گئی جس وقت آرمی
پبلک سکول کا واقعہ پیش آیا اس وقت پورے پاکستان میں دہشتگردی عروج پر تھی
معصوم پھولوں نے جانوں کے نذرانے پیش کر کے پوری قوم کو دہشتگردی کے خلاف
متحد کیا -
ننھے منے بچوں کا قافلہ سکول میں داخل ہو رہا تھا ان میں نویں کلاس کا
طالبعلم تھا صبح گھر سے ناشتہ کیے بغیر پاپا کے ساتھ چلا کیو کہ پاپاکو
دفتر جانے کی جلدی تھی ماں نے کھانا لنچ باکس میں پیک کر کے بیگ میں رکھ
دیا تھا اور کہا کہ سکول جاتے ہی ناشتہ کر لینا پاپا سکول گیٹ پر چھوڑ کے
چلے گئے سکول لگنے سے پانچ منٹ باقی تھے بیگ رکھ کے فوراََ اسمبلی میں کھڑے
ہو گئے معمول کی طرح آج بھی دن کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا تھا ننھی منی
زبانوں نے دعا پڑھی
لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دعا پڑھ کے انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ہم تمام انسانیت کے لئے شمع,
مشعل،نمونہ بننے کا عزم کرتے ہیں پاکستان کی عزت و وقار کے ساتھ اپنی ہمت
کا اعلان کرتے یہ ننھے منے بچے اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے جب ٹیچر نے
کلاس میں اپنی آمد کا اظہار اسلام وعلیکم سے کیا تو سب بچوں نے یکجا ہو کر
سلام کا جواب دیتے ہوئے نہایت ادب و احترام کا مظاہرہ کیا بچے تو اپنی
حاضری کا اظہار پریزنٹ سر یا پریزنٹ میڈم سے کر رہے تھے لیکن گھروں میں
ماوٗں کے کلیجے کیوں پھٹ رہے تھے بہنوں کو ایسا کیوں محسوس ہو رہا تھا کی
میرا شرارتی بھائی آج گھر نہیں آئے گا میں نے تو اسے خوب سنوار کے سکول
بھیجا تھا ماں نصیحتیں کر رہی ہیں بیٹا ہاں ہاں کے ساتھ ہاں ملا رہا ہے ماں
کہتی ہیں میرا بیٹا بڑا ہو کر افسر بنے گا لیکن بیٹا وطن کے لیے جان دینے
کا اعلان کر رہا ہوتا ہیں بوڑھے باپ کو نہیں تھا معلوم کہ میرے ان کمزور
کاندھوں پر تین،تین نوجوان بیٹوں کی میتیں رکھ دی جائے گی میرے کمزور
کاندھوں میں ان کی میتیں اُٹھانے کی سکت ہو گی کیا ،کیا میرے بوڑھاپے کا
سہاراآج مجھ سے چھین لیا جائے گا میرے خوابوں کو میرے ہی سامنے لتاڑ دیا
جائے گا کچھ بھی نہیں تھا معلوم ․․․․․نہ جانے پھر بھی ان کے دلوں میں عجیب
سی کھٹکٹاہت تھی ماوٗں کو ایسا محسوس ہوتا کہ آج ان سے ان کے لخت جگر چھین
لیے جائیں گے لیکن یہ بے چینی ہر اک کو بے چین کئے جا رہی تھی گولیوں کی
بوچھاڑ، بارود کے دھماکوں نے والدین کو سکول کی طرف جانے پر مجبور کر دیا
آج والدین کو سکول کی بیل کا انتطار نہیں کرنا پڑا بلکہ عجیب منظر تھا دل
خون کے آنسو روتا ہے کیسے لوگ تھے شیطان کے روپ میں آئے یہ انسان معصوام
بچوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے کیا قصور تھا معصوم کلیوں کا ؟؟ ہر
طرف افراتفری کا عالم تھا ایک قیامت برپا تھی لوگ زاروقطار رو رہے تھے جوں
جوں وقت گزرتا گیا رونگٹے کھڑے ہوتے گئے درندوں نے معصوم بچوں کو جس طرح
نشانہ بنایا اس پر روح کانپ اُٹھتی ہے ہسپتالوں میں قیامت کا منظر تھا کوئی
بیٹے کو ڈھونڈ رہا ہے تو کوئی اپنے بیٹے کی لاش کو ماں کی ممتا اور باپ کا
یہ دن کسی امتحان سے کم نہ تھا ان کے لخت جگروں کی لاشیں انہیں مل رہی تھی
ہر ایک درد کی لہر تھی جو ہر سو اُٹھ رہی تھی ماوٗں نے وہ اجلے یونیفارم
دیکھے جو اس وقت خون میں رنگین ہو چکے تھے چمکتے جوتے خون میں لتھڑے جا چکے
تھے لیکن چہرے پر سکون تھے جیسے کہہ رہے ہوماں رونا مت ہم نے اپنے پاک وطن
کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا،ماں ناراض نہ ہونا آج یونیفارم ہمیشہ کے
لیے رنگین ہو گیا ہے،ماں آج تاریخ یاد رکھیں گی کہ ننھے منے طالبعلموں نے
جام شہادت نوش فرما کر ملکی قیادت کی آنکھیں کھولی اور دہشتگردی کے خلاف
متحد کیا ․․․اس وقت آسمان بھی خون کے آنسوں رو رہا تھا یہ وہ دن تھا جب سبز
ہلالی پرچم ڈیڈھ سو بچوں کے خون سے سرخ ہو گیا تھا یہ وہ دن تھا جب پاکستان
کی سرزمین پے طلوع ہونے والا سورج اشک بہاتے غروب ہوا تھا اس رات کے ستارے
بھی غمزدہ تھے ڈیڈھ سو شہیدوں کا خون چاند تک جا پہنچا تھا یہ وہ دن تھا جب
چرندوپرندے گھونسلوں میں بیٹھے دہشتگردوں کی اس بربریت سے خدا سے پناہ
مانگتے رہیں -
آج بھی 16دسمبر ہے 150معصوم کلیوں کی شہادت کا دن سانحہ آرمی پبلک سکول کو
پورا ایک سال بیت گیا ہے معصوم بچوں کی شہادت کے زخم پھر تازہ ہو گئے سمجھ
میں نہیں آرہا کیا لکھوں معصوم بچوں پر جو ظلم ہوا اس کی مذمت کے لئے کوئی
الفاظ ہی نہ ہے مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب معصوم بچوں کی شہادت کی خبر نے
لرزاہ کے رکھ دیا تھا دل خون کے آنسو روتا ہیں کیسے خراج عقیدت پیش کروں ان
ماوٗں کو جنہوں نے اپنے لخت جگر اس پاک سرزمین کے لیے قربان کیے انہوں نے
یہ دن کانٹوں پے گزارے ہوں گے آج بھی والدین کے دلوں کو قرار نہیں آیا وہ
ان معصوموں کی یادوں کے سہارے جی رہے ہیں ماں آج بھی یہی اُمید لگائے بیٹھی
ہے کہ میرے جگر کا ٹکڑا واپس آجائے گا لیکن وہ بہت دور جنت میں چلا گیا ہو
گا ماں نے کئی خواب دیکھے تھے ماں بیٹے کو افسر دیکھنا چاہتی تھی لیکن آج
ایک شہید بیٹے کی ماں کہلانے پر فخر محسوس کرتی ہیں ہر کلمہ پڑھنے والے
انسان کا ایمان ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ کلمات اﷲ تعالی
نے قرآن مجید میں ارشاد فرمائے ہیں اسلئے شہیدوں کی شہادت پر ماتم نہیں
بلکہ ان کو زندہ وجاویداں سمجھا جاتا ہے زندہ قوموں کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے
شہیدوں ہمیشہ کو یاد رکھتی ہیں لیکن مجھے آج تک میرے سوال کا جواب نہیں ملا
کہ ان معصوم پھولوں کا قصور کیا تھا کیو خوش و خرم گھروں کی خوشیوں کو
موندا گیا ہر معصوم بچے کی اشکوں سے لبریز داستان ہے کسی باپ کو اکلوتا
بیٹا یاد آرہا ہے تو کسی کی ماں خوش و حواس کھو چکی ہیں اور آج بھی ایک بہن
اپنے شرارتی بھائی کے انتظار میں بیٹھی ہیں-
میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان عظیم ماوٗں کو ان عظیم والدین کو جنہوں نے
اپنے بیٹوں کو وطن پاکستان کی پاک سرزمین کی خاطر قربان کیا ہر سخت ،سے سخت
آزمائش کا مقابلہ کر کے صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا پاکستانی قوم اپنے
محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی پوری پاکستانی قوم ان کے غم میں برابر کی شریک
ہیں ہم آپ کے ان عظیم بچوں کی شہادت کو کبھی نہیں بھولیں گے -
وفاقی حکومت سمیت حکومت خیبر پختونخوبھی ان معصوم بچوں کے والدین کے غم میں
برابر کی شریک ہے اس کی زندہ مثال پورے پاکستان میں عام تعطیل کا اعلان ہے
جبکہ وفاقی حکومت نے ملکی سطح پر شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے
تقریبات کا انعقاد کیا ہے اور خیبر پختونخوا میں تو پندرہ دسمبر اور آج
سولہ دسمبر کو بھی عام تعطیل ہے ․․․․جبکہ اس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں
کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے خیبر پختونخوا کے 16 اضلاع کے 111گورنمنٹ
سکولز 3 سڑکیں ،فاٹا میں 5 سکولز ،پنجاب میں 12 سکولز اور بلوچستان میں ایک
سکول کو شہدا کے نام سے منسوب کیا گیا جبکہ سکولوں کے داخلی راستوں پر ان
شہدا پھولوں کی تصاویر بھی نصب کی گئی ہے جس سے ہر گزرتا لمحہ شہریوں کو
معصوم پھولوں کی یاد دلاتا ہے اس کے ساتھ پشاور کا عجائب گھر کسی شہید کے
نام سے معصوب کرنے کے علاوہ آرمی پبلک سکول میں مشہور آرکیٹکٹ نیر علی داد
اور غضنفر علی کی تخلیق سے ایک یادگار بھی بنائی گئی ہے جس کا افتتاح آج
وزیر اعظم نواز شریف کریں گے آج کی اس تقریب میں شہید اور زخمی ہونے والے
بچوں کے والدین کے ساتھ مختلف سیاسی وسماجی سخصیات شرکت کریں گی ان معصوم
کلیوں کی یاد آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں زندہ و جاویداں ہیں کیونکہ ان
شہدا کے خون نے پوری قوم کوسبز ہلالی پرچم تلے اکھٹا کیا حکومت نے شہدا کے
لیے اعزازات کا بھی اعلان کیا ہے دو شہید بچوں کو ستارہ شجاعت جبکہ ایک سو
بیالس طلباء کو تمغہ بسالت سے نوازا گیا آخر میں ،میں ان عظیم شہید معصوم
بچوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر
کے پورے ملک کو دہشتگردی کے خلاف متحد کیا اور ان والدین بھی خراج تحسین کے
مستحق ہے جنہوں نے اپنے لخت جگروں کو قربا ن کرنے کے بعد بھی صبر و استقامت
کا مظاہرہ کیا․․․ (شہید کی جو موت ہے ․․․وہ قوم کی حیات ہے) |